• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی جیت۔ لمحہ تشکر
پی ایس ایل فائنل ایک وسیلہ بنا پاکستان کے مجموعی امیج کو سافٹ بنانے کا، اللہ تعالیٰ مملکت خداداد پاکستان کو قوموں کی صف میں نمایاں فرما رہا ہے، اور اس خدائی مشن کو حکومت پاکستان، نجم سیٹھی، پاکستانی قوم اور ہمارے سورما کرکٹ کھلاڑیوں نے پورا کرنے کا بیڑا اٹھا لیا ہے، یہ فائنل نہیں، ابتدا ہے دشمنوں کی چشم کشائی اور دوستوں کی پذیرائی کی۔ بلاشبہ ایک طویل عرصہ بعد پوری قوم کو خوشی کے لمحات میسر آئے، مگرہم نے حالت شکر میں رہتے ہوئے پاکستان کو سر بلند کرنے کیلئے اسی طرح علم اٹھائے رکھنا ہے، لاہور میں کھیلے گئے اس میچ کی دھوم پوری دنیا میں گونجی، اب سپر رکھنا نہیں، اس جذبے کو عمل کی دشوار گزار وادیوں سے گزار کر اپنی حیثیت اور پوزیشن کوآگے بڑھانا ہے، ثابت ہوگیا کہ اگر خوف کو ایک طرف رکھ کر کوئی قوم عزم کرلے تو سب کچھ ہوسکتا ہے، جس پرامن اور محفوظ انداز میں تمام اداروں نے مل کر ایک چیلنج کو قبول کیا تو خدائی نصرت بھی شامل ہوگئی، ہم نے یہ سبق سیکھ لیا کہ پہلے دوا پھر دعا، تاریخ خود کو دہراتی رہتی ہے، کرکٹ صرف بلے بازی اور بائولنگ کا نام نہیں، یہ ایک ذریعہ ہے پاکستان کا نام لیکر چلنے اور منوانے کا، لیکن اس کے لئے کرکٹ کی تطہیر کا عمل جاری رہنا چاہئے ہم کسی کی شکست نہیں اپنی فتح، ترقی، خوشحالی چاہتے ہیں، ہر کھلاڑی اپنے حسین کردار و ہنر کے ذریعے پاکستان کا موثر ترین سفیر بن سکتا ہے، اگر ایسا ہوتا رہا تو ایک مقدس نظریے کی بنیاد پر حاصل کردہ یہ ملک، عروس الممالک بن سکتا ہے، مگر پہلے اپنے شہروں کو عروس البلاد بنانا ہوگا، ہمارے راستے کا پتھر صرف کرپشن ہے، بددیانتی ہے، اگر یہ بیماریاں دور کردی جائیں تو کوئی دہشت گرد ادھر کا رخ ہی نہیں کرسکتا۔
٭٭٭٭٭
’’شیخ‘‘ ہر رنگ رقیب سروساماں نکلا
پسند کا ناشتہ نہ ملنے پر شیخ رشید ہوٹل انتظامیہ سے ناراض، بڑے پائے اور چنے باہر سے منگوانا پڑے۔ ہماری روایت ہے کہ بزرگ اپنے سے کم عمر بزرگوں کو پیار دیتے ہیں، مگر قسمت رانی ایک بار ناراض ہو جائے تو پھر یوں بھی ہوتا ہے کہ شیخ رشید جیسے نوجوان بزرگ کو ایک بزرگ سے جوتا موصول کرنا پڑ گیا، یہ قسمت کی شومی، لاہور ریلوے اسٹیشن ہی سے شروع ہوگئی اور اسٹیڈیم داخل ہونے تک سے ہوٹل میں بڑے پائے کا ناشتہ نہ ملنے تک ان کے ہمراہ رہی، بہرحال وہ فرزند پنڈی ہیں انہوں نے تو جوتا المیہ پر دل میں تو ضرور کہا ہوگا؎
کتنے شیریں ہیں تیرے شہر کے جوتے
جنہیں کھا کر میں بے مزا نہ ہوا
جوتا پھینک بزرگ کو موقع پر ہی گرفتار کرلیا گیا، ہم سمجھتے ہیں کہ ہر اچھائی اوپر سے نیچے تک جاتی ہے، اسلئے ان بزرگ کو بھی نئی نسل کیلئے اچھی روایت قائم کرنا چاہئے تھی، بہرحال ہم یہ جسارت ضرور کرینگے کہ بزرگ ہوں یا جوان اپنے جوتوں کو لگام دیں، اور ہوسکے تو اس میں زبان کو بھی شامل کرلیں کیونکہ؎
نشہ بڑھتا ہے جوتے جو زبانوں میں ملیں
ہوٹل والوں نے بڑے پائے کا ناشتہ نہ دیکر ہمارے ایک بذلہ سنج سیاستدان کو کیوں ناراض کیا، اور شیخ صاحب بھی اب بڑے پائے ، چھوٹے پائے اور چھوٹے پائے سے سبز چائے پر آجائیں، ان کی سیاست کی باگ کسی اور کے ہاتھ میں، انہیں ہمیشہ سے کسی کنارے کی ضرورت رہی ہے، اسلئے ساحلوں پر چین سے سیاست کرنے والے شیخ صاحب کو منجدھار سے نکالنے کیلئے ہاتھ دیں۔
٭٭٭٭٭
چلواک بار پھر سے اجنبی بن جائیں
ریحام خان نے کہا ہے:اچھا ہوتا اگر بنی گالہ والے بھی فائنل دیکھنے آتے۔ کوئی سابقہ واقف کار اگر کہیں کسی موڑ پر کسی مقام پر سامنے آجائے تو ایک عجب سا احساس ہوتا ہے، اور غالب کا یہ شعر بھی ترجماں سا لگنے لگتا ہے؎
گو واں نہیں پرواں کے نکالے ہوئے تو ہیں
نسبت ہے ان بتوں کو بھی کعبے سے دور کی
ویسے تو سب ہی نے کہا کہ عمران بھی آجاتے تو اچھا ہوتا، لیکن کہنے والے اور کہنے والی میں کم از کم مذکر مونث کا فرق تو ہے، اس لئے ریحام خان کا بیان جو بظاہر معمول کی بات لگتا ہے، مگر تناظر کوئی نہ کوئی ایسا رنگ بھر دیتا ہے، کہ دل کا موسم ہی بدل جاتا ہے۔ اور بیتے دنوں کی یاد میٹھی کٹاری بن کر چبھ چبھ سی جاتی ہے، بہرحال رہنے بھی دیں جانے بھی دیں، یہ دور دراز کے اندیشے یادیں ملاقاتیں اور تلخیاں، کہ وقت ٹھہرا رہتا ہے نظارے گھماتا رہتا ہے، عمران خان کرکٹ کے حوالے سے ایک لیجنڈری کیریکٹر ہیں، اور اب تو وہ قریب قریب قومی ورثہ بھی، سیاست علامتی زبان میں ان کی دوسری شادی ہے، اور دوسری کبھی پہلی کے برابر کب ہوسکتی ہے، انہوں نے بھی ایک بڑی خوشی اس قوم کو چھین کے لا کر دی تھی، تب اتنا بڑا جشن نہیں منایا گیا تھا، شاید اس لئے کہ خالی پیٹ ہی کھانے کا مزا آتا ہے، اور تب خوشیاں ہم سے روٹھی نہ تھیں مگر آج اس سرزمین پاک کے کومل تن من پر اتنے گھائو لگے کہ پاکستانوں اور خوشیوں کے درمیانی فاصلے بہت بڑھ گئے، اتنی تشنگی کہ فائنل آب وحیات ثابت ہوا اور ایک ہی گھونٹ میںنئی توانائیاں بھر دے۔
٭٭٭٭٭
شکر، عبرت اور رجوع
٭....ایک اسپیشل شخص میچ دیکھنے گھٹنوں اور ہاتھوں کے بل جارہا تھا کہ کسی کیمرے نے اسے محفوظ کرلیا،
شوق جب جواں ہو تو جسم انکار نہیں کرتا۔ دیکھنے والا نیت دیکھتا ہے، یہ نہیں کہ کوئی حرکت کرسکتا ہے نہیں کرسکتا، وہ اس کے ارادے ہی کو اپنی اطاعت قرار دیدیتا ہے، ہمیں ہر شعبے میں کم از کم نیت درست کر لینی چاہئے حرکت کی توفیق بھی مل جائے گی۔
٭....پی ایس ایل کا فائنل آن لائن دیکھنے والوں میں بھارتی عوام بازی لے گئے،
ہم بھارتی عوام کا شکریہ ادا کرتے ہیں، اور مودی سرکار کے کل پرزوں کو عبرت پلیٹ میں رکھ کر پیش کرتے ہیں۔
٭....ہمیں پردۂ غیب سے ٹیسٹنگ کیلئے ایک بڑی خوشی عطا کی گئی ہے، اب بھی کیا ہم سب اپنے اپنے کرتوتوں سے باز نہیں آئیں گے، کیا رشوت، سفارش ملاوٹ، ریا کاری، دھوکہ دہی چھوڑ دینگے؟ آسمان امتحان لیتا ہے، اور کھری کھری مارکنگ، قومیں کردار سے بنتی سنورتی اور گل سرسید بنتی ہیں کوئی اور راستہ اس کے سوا موجود ہی نہیں!


.
تازہ ترین