• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(گزشتہ سے پیوستہ)
حکومت کو طب یونانی کے حوالے سے بھی قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے۔ طب یونانی پانچ ہزار سال قدیم طریقہ علاج ہے۔ بھارت میں طب یونانی، ہربل اور ہومیو کے حوالے سے علیحدہ قانون سازی کی گئی ہے۔گزشتہ ہفتے پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں محمد شہباز شریف نے پنجاب ہیلتھ ریفامرز روڈ میپ کے حوالے سے بڑی طویل میٹنگ کی۔ اس میٹنگ میں سو کے قریب اہم افراد نے شرکت کی۔ ماں کی صحت، ماں کے دودھ، آبادی، ہیپاٹائٹس، امیونائزیشن، نان کلینکل 19خدمات کو آئوٹ سورس، میڈیسن کا پہلا ویئر ہائوس، ہیپاٹائٹس کنٹرول،سی ٹی اسکین مشینیں،گردوں اور جگر کے امراض سے لے کر غرض ہر بیماری پر خوب سیر حاصل بحث ہوئی، اگر اس میٹنگ میں ڈی جی نرسنگ اور پیرا میڈیکل اسٹاف کا کوئی نمائندہ بھی شرکت کرلیتا تو بہت مناسب ہوتا کیونکہ ہیلتھ سسٹم میں ڈاکٹر ز کے علاوہ نرسوں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
حال ہی میں امریکہ سے آئی ہوئی’’اپنا‘‘ کی ماں اور بچے کی صحت کے شعبے کی چیئرپرسن ڈاکٹر عائشہ نجیب سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ اسپتال بنانا یا صحت کے ادارے بنانا کوئی بڑی بات نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ کے اسپتالوں کے بیڈز خالی ہوں۔ آپ کے اسپتال مریضوں سے خالی ہوں تو اس کا مطلب یہ ہو گا اس ملک کے لوگوں کی مجموعی صحت اچھی ہے۔ وہاں بیماریوں سے لوگوں کو بچایا جاتا ہے۔ ہمارا اپنا بھی یہ خیال ہے کہ اگر حکومت علاج سے زیادہ بیماریوں کے بچائو پر توجہ دے تو اس سے حکومت کے کروڑوں اربوں روپے بچ سکتے ہیں کیونکہ علاج ہر صورت میںمہنگا ہے اور بیماری سے آپ صرف چند سو روپے خرچ کرکے بچ سکتے ہیں۔ مثلاًاس میٹنگ میں ماں کے دودھ پر بات ہوئی، اگرچہ وہاں موجود ایک لیڈی ڈاکٹر کا یہ کہنا کہ ورکنگ وویمنز بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلاسکتیں۔ ہمیںان کی بات سے اختلاف ہے پاکستان میں کتنے فیصد خواتین کام کرتی ہیں اور ضروری نہیں کہ ہر کام کرنے والی عورت بچے کو اپنا دودھ پلائے۔ پروفیسر فیصل مسعود نے بالکل درست کہا کہ بعض ڈاکٹرز اور ڈبے کا دودھ بنانے والوں کے درمیان گٹھ جوڑ ہے اور اس لئے وہ فارمولا ملک یعنی ڈبے کے دودھ کو پروموٹ کرتے ہیں جبکہ ماں کے دودھ کا کوئی نعم ا لبدل نہیں۔حکومت پنجاب نے 2012 میں بریسٹ فیڈنگ کا ایکٹ پاس کیا ہوا ہے لیکن آج تک اس حوالے سے کوئی قابل ذکر کام نہیں ہوا بچے کی پیدائش کا پہلا منٹ انتہائی اہم ہوتا ہے اس طرح پہلا گھنٹہ بھی اہم ہوتا ہے۔ شکر ہے کہ شہباز شریف نے اس طرف اب توجہ دی ہے اور بریسٹ فیڈنگ کے حوالے سے حکومت اقدامات کررہی ہے۔
اگر حکومت بریسٹ فیڈنگ ایکٹ کو پوری طر ح نافذ کردے اور مائوں کو کنگرو مدر کیئر کے بارے میں بتائیں تو پاکستان میں مرنے والے ہزاروں بچوں کو بچایا جا سکتا ہے۔ دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ شعبہ صحت میں کچھ ایسے لوگوں کو حکومت نے انتہائی مہنگی تنخواہوں پر رکھا ہوا ہے جن کا عملی تجربہ نا ہونے کے برابر ہے۔ ایسی ڈاکٹرزان پوسٹوں پر کام کرر ہی ہیں جنہیں عملی طور پر نہ ان مسائل کا علم ہے اور نہ ہی ان مسائل سے گزری ہیں۔ کولمبیا میں 1978 میں ایک بچوں کے ڈاکٹر تھے جن کا نام EDGAR REYتھا۔ جو شہر کے غریب ترین لوگوں کا علاج کرتے اور INSTITUTO MATERNO INFANTIL میںکام کرتے تھے۔ یہ اس وقت کولمبیا کے نوزائیدہ بچوں کا سب سے بڑا یونٹ تھا۔ یہاں ہر سال 30,000 بچے پیدا ہوتے تھے۔ رش کا یہ عالم تھا کہ بچوں کو انفیکشن ہونے کا خدشہ لاحق رہتا تھا اس دوران ڈاکٹر REYنے کینگرو کے بارے میں ایک آرٹیکل پڑھا جس میں بتایا گیا کہ پیدائش کے وقت کینگرو کا بچہ مونگ پھلی کے برابر ہوتا ہے اور وہ گنجا ہوتا ہے۔ وہ انسانی PREMATURE بچے کی مانند IMMATURE ہوتا ہے۔ پیدائش کے بعد کینگرو ماں بچے کو اپنے پائوچ میں رکھتی ہے۔ اس میں بچے کو ماں کی جلد سے حرارت ملتی ہے اور ماں سے دودھ بھی حاصل کرتا ہے جو اس کی جسمانی نشو ونما کرتا ہے۔ یہ تب تک اس پائوچ میں رہتا ہے جب تک اس کا وزن ماں کے چوتھائی وزن کے برابر نہیں ہوجاتا۔ اس کے بعد وہ نارمل زندگی گزارتا ہے۔ اس سے REY کو ایسا کرنے کا خیال آیااور واپس اپنے ادارے میں جا کر مائوں کو بچوں کو ایسے اٹھانے کی ٹریننگ دی جیسے کہ کینگرو اپنے بچوں کے لئے کرتی ہےجب ایسا کرنا شروع ہوگیا تو بچوں کی شرح اموات میں، انفیکشن میں بہت زیادہ کمی واقع ہوئی اوراسپتالوں کی نرسری میں بھی رش کم ہوگیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سرکاری ا سپتالوں میں کینگرو مدر کیئر کے یونٹ بنائے جائیں۔
لاہور پولیس میں جب سے کیپٹن امین وینس (سی سی پی او) اور رانا ایاز سلیم شامل ہوئے ہیں تب سے لاہور شہر میں پولیس شہریوں کے مسائل کو حل کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ یہ درست ہے کہ عوام کو کبھی کبھی پولیس سے شکایات پیدا ہوجاتی ہیں مگر ہمیں اس بات پر بھی توجہ دینی چاہئے کہ پولیس عوام کو بہتر اور جدید کمیونیکیشن سسٹم کے ذریعے رابطے کو بھی مضبوط بنانے میں مصروف ہے۔
پچھلے ہفتے لاہور پولیس نے عوامی نمائندوں، عوام اور پولیس کے درمیان مسائل کے حوالے سے رابطے اور بروقت شکایات کو ایک ایس ایچ او سے لے کر سی سی پی او تک براہ راست پہنچانے کے لئے ’’لوکل آئی‘‘ کے نام سے جدید ترین ایپلکیشن متعارف کرائی ہے۔ لاہور کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ پورے ملک میں یہ پہلا شہر ہے جہاں اسمارٹ فون کے ذریعے اب ہر شہری اور عوامی نمائندے کا پولیس کے ساتھ رابطہ رہے گا۔ پھر اس میں سو کے قریب ایسے اشارات اور مخصوص نشانات ہیں جن کے ذریعے کوئی شہری کسی بھی جگہ مشکوک سرگرمیوں کی اطلاع دے سکے گا یا پھر اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی اور مسئلے کو بیان کرسکے گا۔ اس جدید ایپ کو ہر شہری اپنے اسمارٹ فون میں لوڈ کرسکتا ہے۔ دوسرے یہ اردو انگریزی دوسری زبانوں میں ہوگی یعنی آپ کسی بھی زبان کا انتخاب کرکے اپنی شکایت پولیس،مئیر اور ڈپٹی میئرز تک پہنچا سکتے ہیں۔یہ دہشت گردی کے خاتمے میں بڑی مفید ثابت ہوگی، وزیر اعلیٰ کے مشیر سلمان صوفی کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ پچھلے کئی ماہ سے کئی ایسے اقدامات کرنے میں مصروف ہیں جن کو عوامی حلقوں میں پسند کیا جارہا ہے، مثلاً حقوق نسواں بل، قبرستانوں کو جدید بنانا، آئی ٹی کی مددسے مختلف محکموں کی کارکردگی کو بہتر بنانا وغیرہ۔
پولیس کے اندر بھی جو اصلاحات ہورہی ہیں یہ بھی شہباز شریف کے وژن کا حصہ ہے۔ اس وقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ خصوصی طور پر صحت، تعلیم، صاف پانی و صفائی اور پولیس کے سیکٹرز کو فوکس کئے ہوئے ہیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ پولیس کے نظام کو جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ منسلک کردیا گیا ہے۔ اس ایپ کا سب سے بڑا فائدہ ہوگا جب تک شکایت کنندہ کا مسئلہ نہیں ہوگا۔ سی سی پی او کے آفس میںموجود عملہ اس شکایت کنندہ کے ساتھ رابطے میں رہے گا ہم تمام توقعات پولیس سے لگا کے رکھتے ہیں لیکن کیا کبھی ہم نے خود بطور شہری کوئی ذمہ داری پوری کی ؟ایس ایس پی رانا ایاز سلیم نے بالکل درست کہا کہ لاہور کے چیئرنگ کراس کے واقعہ میں اگر اس علاقے کے لوگ بھی اس شخص پر نظر رکھتےجہاں پر وہ رہائش پذیر تھا اور تھوڑا بہت اس سے پوچھتے رہتے کہ تم کون ہو، کہاں سے آئے اور پولیس کو بھی اطلاع کرتے تو شاید یہ افسوسناک واقعہ پیش نہ آتا۔ بہرحال یہ ایک اچھی کاوش ہے اور اس کے نتائج یقیناً مثبت آئیں گے۔

.
تازہ ترین