• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کوئی بھی معاملہ یا مسئلہ اگر میڈیا میں آ جائے یعنی اس کی خبر کسی چینل پر چل جائے یا اخبار میں شائع ہو جائے تو وہ فوری حل ہو جاتا ہے۔ ایسا ہوتا بھی ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ سو فیصد معاملات یا مسائل حل ہو جائیں یا ان کی اہمیت ایسی ہو کہ ان کے شائع ہوتے ہی یا ٹی وی چینل پر چلتے ہی وہ حکومتی ایوانوں میں ہلچل مچا دے اور ہمارے حکمران یا بیورو کریسی فوری توجہ دے اور سارے کام چھوڑ چھاڑ کر اس کو حل کرنے میں نکل کھڑی ہو۔ اسی لئے میرے بہت سارے جاننے والے یا کالم کے قارئین عموماً میری توجہ ایسے چھوٹے چھوٹے لیکن اہم مسائل کی طرف دلاتے رہتے ہیں اور ساتھ ہی تاکید بھی کرتے ہیں کہ اگلا کالم اسی موضوع پر لکھا جانا چاہئے۔ مثلاً آلو، پیاز، ٹماٹر یا کوئی چیز مہنگی ہو جائے یا دستیاب نہ ہوں تو ان سب کا خیال ہوتا ہے کہ یہ ایک ظلم ہے اور اس ظلم کے خلاف کالم میں لکھی جانے والی سطور اسی سے متعلق ہونا چاہئیں پھر کسی ہسپتال میں ڈاکٹر نے ان کے مریض پر توجہ نہیں دی تو یا انہیں ہسپتال سے ادویات نہ مل سکیں تو وہ چاہتے ہیں کہ ڈاکٹروں کی اس زیادتی کو کالم میں جگہ دینا چاہئے۔ٹریفک کے مسائل ہوں یا ٹریفک پولیس کی زیادتی، سڑک پر کھڈے پڑے ہوں یا اس کی مرمت میں تاخیر ہو رہی ہو، بجلی کی بندش ہو یا گیس کی لوڈشیڈنگ، قومی کرکٹ ٹیم یا کسی دوسرے کھیل میں کارکردگی غیر متاثر کن ہو یا کسی کھلاڑی کی سلیکشن میں اس سے ناانصافی ہو رہی ہو تو میرے قارئین مجھے ان کی کارکردگی اورا سکور کارڈز سمیت یہ شکایت بھیج دیتے ہیں کہ اس زیادتی کو اپنے کالم میں جگہ دیں۔ پانامہ میں حکمرانوں کے ملوث ہونے کی بات ہو یا دھرنے کے خلاف ان کی رائے ان کا خیال ہوتا ہے کہ کسی اور موضوع کی بجائے اس کو موضوع کالم بنانا چاہئے۔ ایک صاحب نے تو مجھے ایک کالم اور اس پر دیا جانے والا عنوان بھی لکھ بھیجا اور جب میں آپ کو اس کا عنوان یا سرخی بتائوں گا تو آپ بھی مسکرائے بغیر نہ رہ سکیں گے۔ ان صاحب نے یہ سرخی لکھ کر بھیجی کہ ’’الحمدللہ یہ فلیٹ اس خادم کے ہیں‘‘۔ لیکن پاکستان سپر لیگ کے آغاز سے مجھے ان مائوں کے بہت سارے ایس ایم ایس اور پیغامات ملے جن کے بچوں کے سالانہ امتحانات شروع ہونے والے تھے اور دبئی شارجہ میں دوسری پاکستان کرکٹ سپر لیگ کا آغاز ہونے والا تھا اور ان والدین اور خصوصاً بچوں کی مائوں کی یہ شکایت تھی کہ پاکستان سپر لیگ کے میچز کے ہوتے ہوئے یہ بات بالکل ناممکن ہے کہ بچے کتابیں اٹھا کر سالانہ امتحانات کی تیاری کریں اس لئے ان کا کہنا تا کہ میں نہ صرف پاکستان سپر لیگ کے خلاف لکھوں بلکہ ان میچز کو اپنے کالم کے زور پر روک دوں اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے منتظمین کو اس بات پر مجبور کروں کہ پاکستان سپر لیگ کو مارچ کے بعد کرایا جائے۔ لیکن میں نے اس موضوع پر کالم لکھ سکا اور نہ ہی پاکستان سپر لیگ کو ملتوی کرا سکا کیونکہ یہ کام تقریباً ناممکن تھا کیونکہ اس قسم کے مقابلوں کا شیڈول بہت سوچ سمجھ کر یہ دیکھتے ہوئے بنایا جاتا ہے کہ وہ کون سا مناسب وقت ہے کہ کھلاڑیوں کی بین الاقوامی مصروفیت نہ ہوں اور وہ لیگ کے لئے دستیاب ہوں اور یہ ایک قومی ایونٹ تھا اور اس کا انعقاد بھی ضروری تھا۔ اب میں اگر پاکستان سپر لیگ کا ذکر کر لوں تو یہ واقعی ایک لاجواب ایونٹ تھا۔ جس نے پوری قوم کو نہ صرف چارج کر دیا بلکہ کرکٹ کے ذریعے قومی یکجہتی کی ایک ہی لڑی میں پرویا اور فائنل میچ میں عوام کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ اس میں یقیناً پاکستانی میڈیا کا بھی اہم کردار تھا کہ میڈیا نے شائقین کرکٹ کو چارج رکھا اور فائنل میچ کے لاہور میں انعقاد سے پاکستان اور کرکٹ کی جیت ہوئی ہے۔ دہشت گردی کو اور ان قوتوں کو بری طرح شکست ہوئی جو پاکستان کو بدامنی کا میدان بنانا چاہتے تھے اور میرا یہ ذاتی خیال ہے کہ اس ایونٹ کو کامیاب بنانے کے لئے پوری قوم اور سیاست دانوں نے بھی بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ اگر کسی نے اس کے خلاف بیان دیا بھی ہے تو اس پارٹی کے لوگوں نے میچ دیکھنے کے لئے سٹیڈیم جا کر اپنی انوالومنٹ شو کی ہے۔ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ایسے قومی ایونٹس میں بالکل بھی سیاسی مخالفت کا تڑکا نہیں لگانا چاہئے۔ اسی لئے میچ کے دوران کچھ نعرے مجھے ناخوشگوار گزرے۔ جب ہم پوری دنیا کو اور خاص طور پر اپنے دشمنوں کو ایک پیغام دے رہے تھے ایسے میں سیاسی نعرے بازی ایسا ہی تھا کہ جیسے کسی گھر کے خوبصورت ڈرائنگ روم سے کچن یا واش روم کا کام لینا شروع کر دیں۔ بحرحال یہ ایک کامیاب ایونٹ تھا جس میں پاکستان جیتا ہے۔ پرجوش عوام جیتے ہیں اور کرکٹ کی جیت ہوئی ہے۔ اس میں ان غیر ملکی کھلاڑی اور خاص طور پر پشاور زلمی کے کپتان ڈیرن سیمی کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔

.
تازہ ترین