• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دو تین یا تین چار برس قبل، ’’جنگ‘‘ کے انہی ادارتی صفحات پر منفرد ترقی پسند کالم نگار یاسر پیرزادہ کے ایک کالم کا اختتامیہ تھا:’’نجم سیٹھی تو پاکستان ہے!‘‘ پاکستان سپر لیگ کے فائنل نے یاسر کی یہ فیصلہ آمیز رائے اپنی تمام تر شدت اور حدت کے ساتھ یاد دلا دی ہے۔ فائنل نہیں تھا، پاکستانی قوم نے چاروں صوبوں سے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر، قدم سے قدم ملا کر، نعروں سے نعرے ملا کر نظریاتی، نفسانی اور نفسیاتی درندوں کی دہشت گردیوں کے سامنے فلک شگاف انکار کا سندیسہ دیا تھا۔
5مارچ 2017کو لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں پاکستانی ہی نہیں عالمی برادری بھی پاکستانی سپر لیگ (پی ایس ایل) کے اس فائنل میچ میں سرتاپا محو تھی، اک عالم بے خودی میں پاکستان کی دھرتی پہ مسرتوں کی چلبلاہٹیں اور چہچاہٹیں رقص کناں تھیں، چھ مارچ 2017 کو قومی پریس ہی نہیں غیر ملکی حتیٰ کہ بھارتی میڈیا بھی پاکستانیوں کے اس سندیسے کی صداقت کے سامنے سرتسلیم خم کر رہا تھا:وہ میڈیا، ملکی اور شاید کافی حد تک غیر ملکی بھی، جسے پاکستان کرکٹ بورڈ، کرکٹرز اور نجم سیٹھی کے ’’ٹرائل‘‘ سے کم ہی فرصت ملتی رہی، پاکستان کے قومی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں بیٹھے کرداروں میں سے ایک نہیں دسیوں نے اس ’’میڈیا ٹرائل‘‘ کے ذریعے پاکستانیوں میں ڈیپریشن، بدگمانی اور خوف کی فصلیں کاشت کرنے میں ایڑی چوٹی سے بھی کہیں زیادہ ایک اور ’’جسمانی‘‘ محاورے تک کا زور لگا دیا تھا، 6مارچ 2017ء کواسی قومی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی بھاری، بہت ہی بھاری اکثریت، پاکستانیوں کے پیغام زندگی کا اعلان کررہی تھی، اس بھاری اور بہت ہی بھاری اکثریت میں ان دسیوں کے چینل اور اخبارات بھی شامل تھے جنہوں نے ’’ڈیپریشن، بدگمانی اور خوف کی فصلیں کاشت کرنے میں ایڑی چوٹی سے بھی کہیں زیادہ ایک اور جسمانی محاورے تک کا زور لگا دیا تھا‘‘۔
ملک کے مستند، معتبر اور مقتدر دانشور اور تجزیہ نگار جناب نجم سیٹھی منتظر گھڑیوں اور سنسنی خیز تھرتھراہٹوں کے گرجتے بادلوں میں سے جھانکتے ایک اور حوالے سے بہت ہی خاص یاد آئے، ٹی وی اسکرین کا وہ منظر بھلائے نہیں بھولتا جب وہ ’’جیو‘‘ کے ایک پروگرام میں منیب فاروق سے کہہ رہے تھے ’’یار! دیکھو میری سیاسی کردار کشی کرنے والوں پر میری جانب سے دائر کردہ ہتک عزت کے مقدمات کی مدت ’’برسوں‘‘ کے ’’ہندسی دائرے‘‘ میں داخل ہو چکی مگر میری کوئی سن ہی نہیں رہا‘‘، مطلب یہ کہ وہ 35 پنکچروں والا اسی طرح چوکڑیاں بھررہا اور میں اسی طرح تلملا رہا ہوں، 5مارچ 2017ء البتہ وہ اترتی صبح و شام تھی جب پاکستانی قوم ان کے لئے ’’نجم سیٹھی تو پاکستان ہے!‘‘ کے سوا شاید کچھ جاننے یا سوچنے کی روادار نہیں تھی۔ جب 6مارچ 2017ء کی صبح کامیابی اور سلامتی کی نوید بن کر طلوع ہوئی تب یاسر کی اس فیصلہ آمیز رائے پر پاکستانیوں نے تصدیقی مہر ثبت کردی۔
ہاں تو! 6مارچ 2017ء کی صبح قومی میڈیا کے ڈھولوں کی تھاپوں سے یہ صدائیں ابھر رہیں (جنہیں اخباری زبان میں ’’سرخیاں اور کیچ لائنز‘‘ کہا جاتا ہے) تھیں۔
....oمشکلات اور خوف سے نکل آئے، دنیا پر ثابت کردیا ہماری تنہائی کے دن گئے! (نواز شریف)
....oکرکٹ بحال، پی ایس ایل فائنل تقریب میں رنگ و نور، عوا م کا جوش و جذبہ، پیراٹروپرز فنکاروں کا شاندار مظاہرہ، اسٹیڈیم میں پاکستان زندہ باد کے نعرے۔
....oدلہن کی طرح سجے قذافی اسٹیڈیم میں علی ظفر نے پی ایس ایل کا ترانہ ’’اب کھیل جمے گا‘‘ کا ترانہ گاکر دل موہ لئے، فاخر اور علی عظمت نے بھی خوب رنگ جمایا، سیکورٹی کے سخت ترین انتظامات، ہیلی کاپٹرز سے نگرانی،
....oپاکستان جیت گیا، ’’فسادیوں‘‘ کو شکست!
....oپاکستانی جیت گئے، دہشت گردی ہار گئی!
اور جب ٹی وی کا کوئی رپورٹر، کوئی اینکر پرسن قذافی اسٹیڈیم اور لاہور کی سڑکوں پر یا باقی تین صوبوں کے لوگوں سے یہ سوال پوچھتا دکھائی دیتا، ’’کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور پشاور زلمی میں سے کون جیتے گا؟ پورے ملک کی فضائوں سے انہیں ایک ہی جواب سنائی دیتا ’’کوئٹہ گلیڈی ایٹرز جیتے یا پشاور زلمی، دونوں صورتوں میں پاکستان ہی جیتے گا‘‘
پاکستان سپر لیگ کے اس فائنل میں پاکستانیوں نے اپنے وجود کی شہادت دینے میں اپنے ماضی کی تاریخ کے جھروکے کھول دیئے، "The Spectator index" گیلپ سروے کو کہنا پڑا :’’ملک کیلئے لڑنے والوںمیں پاکستانی نمبر ون قرار پائے ہیں۔ 89 فی صد پاکستانی ملک کے لئے لڑنے پر تیار ہیں، اس انڈیکس میں دوسرے نمبر پر بھارتی ہیں جن کی شرح 75 فیصد، ترکی کی عوامی شرح 73 فیصد، چینی 71فیصد، روسی 59فیصد، امریکی 44فیصد، برطانوی 27فیصد، جرمن 18فیصد اور جاپانی صرف 11فیصد ہیں‘‘ راقم کی حد تک یہ پہلا متاثر کن گیلپ سروے محسوس ہوا، لگتا ہے محنت کی گئی، ہر ملک کے پس منظر میں، متذکرہ شرحیں قریب قریب بالکل درست ہیں۔
مملکت خداداد پاکستان کے قومی افق پر ایک حوصلہ افزا نام جناب مجیب الرحمٰن شامی ہیں، اس پی ایس ایل فائنل کے تناظر میں، انہوں نے عام پاکستانیوں کو ’’ڈیپریشن‘‘ بدگمانی اور خوف‘‘ میں مبتلا کرنے والوں کو، اپنے فیصلہ کن تنبیہی مگر متوازن انداز میں خبردار کیا، شامی صاحب کا کہنا تھا:’’اب جبکہ سب تیاریاں مکمل ہیں تو منفی نکتے اٹھانے اور شوشے چھوڑنے کی ضرورت نہیں، اب تو دعا کرنی چاہئے کہ یہ گھڑی بخیروخوبی گزر جائے کہ قومیں خوف کی کال کوٹھڑی میں قید ہو کر زندہ نہیں رہ سکتیں، انہیں کھلے آسمان اور کھلی زمین پر خطروں کا سامنا کرنا اور دشمن پر جھپٹنا پڑتا ہے۔ اسے لہو گرم رکھنے کا بہانہ ہی سمجھ لیجئے۔
اور جناب شامی صاحب! وہ گھڑی، بفضل تعالیٰ، بخیر و خوبی گزر گئی، یہ وہ لمحہ بھی ہے جب ہمیں اس آدمی کا تذکرہ کرنا چاہئے جس نے اس موقع پر لکھا تھا ’’ہمیں فائنل کو لاہور کی طرف موڑنے سے قبل کھلاڑیوں کی رائے ضرور لینی چاہئے تھی، یہ اگر راضی ہو جائے تو ہم فائنل لاہور میں کرا لیتے اور اگر یہ حامی نہ بھرتے تو ہم باقی میچز کی طرح فائنل بھی دبئی میں کرا لیتے، کیا فرق پڑ جاتا، قوم فائنل بھی ٹیلی وژن پر دیکھ لیتی، ہمیں اپنے منہ پر خود تھپڑ مارنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ کوئی ہے جو اس شخص سے جس نے پوری قوم کی توہین کا ارتکاب کیا، ایک جرات رندانہ سے جواب طلبی کرسکے، بتائو! اب تھپڑ کے لئے کس کے رخسار یا رخساروں کا انتخاب بنتا ہے؟
پاکستان سپر لیگ کے چیئرمین جناب نجم سیٹھی نے پاکستانیوں کے بے خوف طرز فکر اور طرز زندگی کے اس تسلسل پر تاریخ ساز خطاب کیا۔ چیئرمین نے پی ایس ایل کی اختتامی تقریب میں وزیراعظم پاکستان، چیف منسٹر پنجاب، پاکستان کرکٹ بورڈ، پنجاب انتظامیہ، پاکستان کرکٹ بورڈ کے عہدیداران اور پاکستانی عوام کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا! ’’یہ آپ ہیں جن کے عزم کی بدولت آج ہم قذافی اسٹیڈیم میں انسانیت دشمنوں کو اپنی ان مٹ مزاحمت کا ثبوت پیش کررہے ہیں۔ آج یہاں خیبرپختونخوا، گلگت، بلتستان اور پاکستان کے ہر حصے کے پاکستانی موجود ہیں، یہ اتحاد و یکجہتی کا عظیم مظاہرہ ہے، آج عالمی برادری کو دہشت گردی کے خلاف پاکستانیوں کے ناقابل شکست اور ناقابل تغیر ذہنی عقیدے اور عمل کو تسلیم کرنا ہوگا‘‘۔
رہ گئیں خامیاں، نقائص، کمیاں، ایک تھا مصور، اس نے بنائی تصویر، لوگوں میں سے وہاں بھی ’’دسیوں اور بیسیوں‘‘ نے تصویر کے ہر رنگ میں نقص کا رونا رویا، مصور آیا، اس نے نیچے لکھ دیا، ’’آپ ناقدین میں سے کوئی دیوار کے ساتھ دوسری تصویر بنا دے، ‘‘ دوسرے روز وہ شام کو دیکھنے آیا، نہ وہاں کوئی متبادل تصویر تھی نہ ان ’’دسیوں بیسیوں‘‘ میں سے کوئی ایک بھی!



.
تازہ ترین