• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قنوطی:نصف گلاس پانی سے خالی ہے۔
خوش بین:نصف گلاس پانی سے بھرا ہے۔
:Feminist گلاس کا ’’ریپ‘‘ کیا جا رہا ہے۔
پہلے تو قارئین نوٹ فرما لیں کہ اس لطیفے کے جملہ حقوق محفوظ نہیں ہیں، شان نزول کی وجہ بھی کوئی خاص نہیں ماسوائے اس کے کہ آج خواتین کا عالمی دن ہے، مگر یہ دلیل بھی کمزور ہے کیونکہ ہر feministعورت تو ہوتی ہے مگر ہر عورت نسائیت کی علمبردار نہیں ہوتی۔ سو لطیفے کو اس کے حال پر چھوڑیئے اور ایک حسب موقع خبرسنئے۔ برطانوی اداکارہ ایما واٹسن نے حال ہی میں ایک رسالے کے لئے ’’ٹاپ لیس‘‘ تصاویر بنوائی ہیں (انگریزی کے بہت سارے فوائد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انگریزی الفاظ کی وجہ سے اردو کا کالم قابل اشاعت بن جاتا ہے وگرنہ ٹاپ لیس کا ترجمہ خاصا شر انگیز بھی ثابت ہو سکتا تھا)، ان تصاویر کی اشاعت پر مس واٹسن کو تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اِس حرکت سے ایما واٹسن اپنے feministآدرشوں کے ساتھ خیانت کی مرتکب ہوئی ہیں۔ ایما واٹسن نے اس کا جواب کچھ یوں دیا ہے کہ ’’feminismکے بارے میں لوگوں میں خاصی غلط فہمی پائی جاتی ہے، نسائیت دراصل عورتوں کو آزادی، برابری اور اپنی مرضی سے جینے کا حق دیتی ہے، میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ میرے ٹاپ لیس ہونے سے اِن افکار کو کیا نقصان پہنچتا ہے!‘‘
حقوق نسواں کی یہ بحث نئی نہیں اور دلچسپی سے خالی بھی نہیں۔ نسائیت کی حامی خواتین کے عقائد کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ کوئی بھی شخص انہیں کسی قسم کا لباس پہننے یا نہ پہننے یا مردوں سے دوستی کرنے کا یا نہ کرنے یا کسی بھی معاملے میں اُن پر کوئی حکم مسلط نہیں کر سکتا، یہ زندگی اُن کی ہے، جیسے چاہیں گی جئیں گی۔ تاہم feminismکا یہ صرف ایک پہلو ہے، درحقیقت اس تحریک کا بنیادی مقصد خواتین کے لئے سیاسی، سماجی، ذاتی اور معاشی حقوق کا حصول اور اُن کے لئے ملازمت اور تعلیم کے یکساں مواقع کو یقینی بنانا ہے۔ کیا نسائیت کے ان نظریات سے کسی کو انکار ہو سکتا ہے؟ یقیناً نہیں۔ پھر بحث کس بات کی؟ بحث تب شروع ہوتی ہے جب بات مساوی حقوق سے نکل کر وہاں جا پہنچتی ہے جہاں عورت بے لباس ہو کر میگزین کے سرورق کی زینت بھی بنتی ہے اور پھر بطور feministاصرار بھی کرتی ہے کہ اسے عریاں نہ کہا جائے کہ یہ اُس کی توہین ہے، بس فن لطیف کی داد دی جائے۔ حالانکہ جسم کی نمائش کو جسم کی نمائش ہی کہا جائے گا، باڈی بلڈنگ کوئی نہیں کہے گا۔
Feminismکا سادہ سا مقدمہ یہ ہے کہ برسہا برس سے عورت پستی چلی آرہی ہے، مردوں کے اِس معاشرے میں وہ کمزور جنس ہے، اسے اپنے تحفظ کے لئے وہ تمام حقوق ملنے چاہئیں جو مردوں کو بن مانگے میسر ہیں۔ ایسے طاقتور مقدمے پر اختلاف کیونکر! جس طرح پاکستان میں لبرل ازم کا مقدمہ خود آزاد خیال دانشوروں نے یہ کہہ کر خراب کیا ہے کہ لبرل معاشرے میں شراب اور نائٹ کلبوں کی آزادی ہوتی ہے، اسی طرح feministsنے بھی اپنا مقدمہ یہ کہہ کر خراب کیا ہے کہ آزاد عورت وہی ہوتی ہے جو اپنی مرضی سے کپڑے پہنے۔ حالانکہ ایک لبرل معاشرہ سادہ الفاظ میں ایک روادار معاشرہ ہوتا ہے جہاں لوگ اپنے عقائد کے مطابق آزادی کے ساتھ زندگی گزار سکیں، جہاں اقلیتیں محفوظ ہوں، مزدور کا معاشی استحصال نہ ہو، عورتیں با اختیار ہوں، جبری مشقت کا تصور نہ ہو اور سوسائٹی کے ہر فرد کو اپنی خوشی کے حصول کے لئے مساوی مواقع میسر ہوں، یہی تو ہے لبرل ازم۔ اِسی طرح feminismکا مطلب بھی یہی ہے کہ عورتوں کو کمتر نہ سمجھا جائے، انہیں برابر کے حقوق دیئے جائیں، مملکت کی معاشی اور سماجی ترقی کے پورے ثمرات ان تک پہنچیں۔ لیکن بات پھر وہی ہے کہ feminismکی علمبردار عورتیں جب ایما واٹسن جیسا کوئی کام کرتی ہیں تو اُس پر تنقید برداشت نہیں کرتیں، الٹا اُس کا جواز تراشنے لگتی ہیں۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ ایک عورت کسی رسالے کے سرورق پر عریاں تصاویر چھپوانے سے با اختیار کیسے ہو جاتی ہے کیونکہ دوسری طرف اگر کوئی عورت اپنی مرضی سے دوپٹہ یا چادر اوڑھ لے تو اسے یہ feministsمجبور کا لقب دے ڈالتے ہیں کہ اس بیچاری کو اپنی آزادی سے لباس پہننے کی آزادی حاصل نہیں۔
نسائیت سے لے کر آزادی اظہار کے بیشتر تصورات چونکہ مغرب سے درآمد شدہ ہیں اس لئے ہمارے معاشرے کے بعض رجحانات سے متصادم بھی ہیں اور اسی لئے ہمیں آسانی سے ہضم نہیں ہوتے۔ کسی زمانے میں میری سوچ بھی یہی تھی کہ حقوق نسواں ایک ایسی بیکار تحریک ہے جس کے نتیجے میں مغرب کی عورت نے گھر کا سکون چھوڑا اور مرد کے برابر قطار میں کھڑی ہو کر نوکری کے لئے دھکے کھانے لگی۔ لیکن بات اتنی سادہ نہیں تھی۔ معاشروں میں عورت کا استحصال ہی تب ہوتا ہے جب عورت کی زندگی کا تمام تر دارومدار مرد پر ہو۔ خاص طور سے ہمارے جیسے ملک میں جہاں اچھی خاصی تعلیم یافتہ، ملازمت پیشہ اور بظاہر خودمختار نظر آنے والی خواتین بھی مرد کے ایک لفظ کی مار ہوتی ہیں ’’طلاق‘‘۔ اگر یہ ’’با اختیار‘‘ خواتین بھی مرد کے رحم و کرم پر ہیں تو اُن عورتوں کا اندازہ آپ خود لگا لیں جن کے پاس کوئی ہنر ہے نہ ملازمت، اگر انہیں اُن کا شوہر بیس سال کی رفاقت کے بعد طلاق دے کر فارغ کردے تو کوئی اُن کا پرسان حال نہ ہو، سو وہ اور اُن جیسی تمام عورتیں ساری عمر ظلم سہتی ہیں اور بے بس ہیں۔ یہ بے بسی اسی صورت دور ہو سکتی ہے اگر عورتیں خودمختار ہوں، ان کے پاس تعلیم ہو، ہنر ہو، تاکہ انہیں مرد کی محتاجی نہ ہو۔ لیکن یہ اس وقت ممکن ہے اگر feminismکے دعویدار اپنا مطمح نظر تبدیل کریں اور بے لباسی کو آزادی کے ساتھ مشروط نہ کریں۔ لباس ضرور اپنی مرضی کا پہنیں مگر خیال رہے کہ یہ دنیا ہے، یہاں ہر قسم کی باتیں سننے کو ملتی ہیں، اگر یہاں لوگ داڑھی والے کو تیکھی نظروں سے دیکھتے ہیں تو منی سکرٹ والی کو بھی گھور کے دیکھا جائے گا، حجاب والی پر اعتراض ہوتا ہے تو برہنہ ساحلوں میں بکنی میں ملبوس عورت بھی جملے بازی کی زد میں آئے گی۔ Feminismوہ نہیں جو ایما واٹسن نے کیا، feministپاکستان کی ہر وہ عورت ہے جو روزانہ مردوں کے اس سفاک معاشرے میں زندہ رہنے کی جدو جہد کرتی ہے۔والسلام۔



.
تازہ ترین