• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جدید جمہوریہ ترکی جو کہ ایک سیکولر ملک ہے اور جس کی آبادی کا ننانوے فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے کے 1923ء کے پہلے آئین میں ہیڈ اسکارف پر پابندی سے متعلق کوئی شق موجود نہیں ہے لیکن اتاترک نے ملک میں پردے پر پابندی اس وقت لگائی جب غیر ملکی قوتوں نے بعض پردہ نشین خواتین کو جاسوسی کرنے اور اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیااور مملکت کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا گیا۔ اس وقت سے اس پابندی کا سلسلہ جاری تھا لیکن اتاترک کی اس سوچ کا بعد میں آنے والے رہنماؤں نے غلط استعمال کیا ۔ 1960 میں فوج کی جانب سے تیارکردہ آئین میں پہلی تین شقوں جس میں تیسری شق مہذب اور جدید لباس سے متعلق تھی ان تین شقوں میں کسی قسم کی تبدیلی یا ترمیم کرنے کا حق پارلیمنٹ سے چھین لیا گیا 1982ء کے آئین میں جنرل کنعان ایورن نے اسے جوں کا توں برقرار رکھا اور ایردوان دور تک اس پر عمل درآمد کا سلسلہ جاری رہا۔آئین کی رو سے پارلیمنٹ میں کوئی بھی جماعت چاہے اسے کلی اکثریت ہی کیوں نہ حاصل ہو ان تین شقوں پر بحث و مباحثہ کرنے یا ترمیم کرنے کا کوئی اختیار نہیں رکھتی تھی۔ جنرل کنعان ایورن کے مارشل لا کے بعد ترگت اوزال حکومت نے ملک میں جمہوریت کو فروغ دینے اور عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے ہیڈ اسکارف کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے اس موضوع کو یونیورسٹیوں کے چانسلروں اور ریکٹرز پر چھوڑ دیا اور اس طرح کئی ایک یونیورسٹیوں میں طالبات نے ہیڈ اسکارف اوڑھے اعلیٰ تعلیم جاری رکھی لیکن ترگت اوزال کے بعد ملک میں بائیں بازو کی نام نہاد سیکولر جماعتوں کے برسراقتدار آنے کے بعد اس نظام پرعمل درآمد روک دیا گیا اوریہ اختیارہائر ایجوکیشن کمیشن کے سپردکر دیا گیا جس نے ایک بار پھر یونیورسٹیوں میں ہیڈ اسکارف پر پابندی عائد کردی جس پرملک بھر میں شدید ردِعمل آیا جس نے پورے ترکی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ان حالات میں ملک میں قائم ہونے والی نئی جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (آق پارٹی)نے ان طالبات کے مطالبے کی بھرپور حمایت کی اور پھر عوام کی بھرپور تائید کے بعد اس جماعت نے 2002ءمیں پہلی بار اقتدار حاصل کیا لیکن اپنے اقتدار کے پہلے آٹھ سالوں تک(قانونی مجبوریوں کے باعث) یہ حکومت طالبات کے مطالبات پورے نہ کر سکی۔وزیراعظم رجب طیب ایردوان اس بات سے پوری طرح واقف تھے کہ اس مسئلے کو اس وقت تک حل نہیں کیا جاسکتا جب تک ملک میں فوج اور عدلیہ کا دبائو جاری رہے گا۔ انہوں نے ملک میں عدلیہ اور فوج کے دبائو کو کم کرنے کے لئے سب سے پہلے ملک کو اقتصادی ترقی کے سفرپر گامزن کیا اور اسے یورپی ممالک کے معیار کےمطابق نہ صرف لاکھڑا کیا بلکہ عو ام کے معیار زندگی کو بھی بہتر بنایا۔ وزیراعظم ایردوان نےپارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل کرکے سب سے پہلے طالبات پر ہیڈ اسکارف پہن کر یونیورسٹیوںمیں داخل ہونےکی پابندی کو ختم کیا ۔ طالبات پر ہیڈ اسکارف کی پابندی ختم کرنے کے بعد ملک کے سرکاری اداروں میں ہیڈ اسکارف پہننے کی پابندی کو بھی ختم کرنے کے لئے ملک کے آئین میں ترامیم کرنے کی ضرورت تھی ، حکومت نے پارلیمنٹ میں اس بارے میں قوانین میں ترامیم کروائیں اور ہیڈ اسکارف پہننے والی خواتین پر ملک کی تاریخ میں پہلی بار سرکاری اداروں کی ملازمتوں کے دروازے کھول دئیے ۔ انہوں نے بڑی ذہانت اور خوش اسلوبی سے اس مسئلے کو ایک ایسے وقت میں حل کیا جب مارچ 2014 ء میں ملک میں بلدیاتی انتخابات ہونا تھے ۔اس دور میں حج پر جانے والی آق پارٹی کی چار خواتین اراکینِ پارلیمنٹ نے فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد اپناسر ہمیشہ ہیڈ اسکارف سے ڈھانپنےکا فیصلہ کیا اور اپنے اس فیصلے سے وزیراعظم ایردوان کو آگاہ کیا۔ ان چاروں خواتین کو ہیڈ اسکارف پہننے پر وزیراعظم کی بھی حمایت حاصل ہوچکی تھی ۔ آق پارٹی کی ان چار خواتین کے ہیڈ اسکارف پہننے کے عمل کی پارلیمنٹ میں موجود دیگر تین سیاسی جماعتوں نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی اور پیس اینڈ ڈیمو کریٹک پارٹی نے حمایت کا اعلان کردیا جس پرپارلیمنٹ میں موجود حزبِ اختلاف کی جماعت ریپبلکن پیپلز پارٹی نے مرحوم بلنت ایجوت جیسی صورتِ حال سے بچنے کے لئے اس بار پارٹی کے طور پر کھل کر مخالفت نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور پارٹی اراکین کو اس بارے میں اپنی رائے دینے کی مکمل آزادی دے دی اور یوںایردوان نے پارلیمنٹ کے اس ظلم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئےختم کردیا۔ اس کے بعد ترکی کی تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون جج نےہیڈ اسکارف پہن کر ایک عدالتی کارروائی کی صدارت کی اور ہیڈ اسکارف پہننے والی وکیلوں اور ججوں کے لئے عدلیہ کے دروازے کھول دئیے۔ اور پھر وزیراعظم احمد داؤد اولو کے دور میں 15 اگست 2015ء میں تشکیل پانے والی نئی حکومت میں "عائشین گیورجان"جو کہ ہیڈ اسکارف پہنتی تھیں کو وزیر مقرر کیا گیا اور ترکی کی تاریخ میں پہلی بار ہیڈ اسکارف پہننے والی خاتون وزیر مقرر ہوئیں اور یوں ملک میں ہیڈ اسکارف پہننے والی خواتین اراکینِ پارلیمنٹ کے وزیر بننے کی بھی راہ ہموار ہوگئی۔ترکی میں عوامی زندگی کے مختلف شعبوں میں خواتین کے ہیڈ اسکارف پہننے کے حق میں کئےجانے والے متعدد قانونی اور حکومتی فیصلوں کے باوجود ملکی فوج اور سیکورٹی فورسز کے شعبوں میں خدمات انجام دینے والی خواتین کو ہیڈ اسکارف پہننےکی اجازت حاصل نہ تھی لیکن یکم مارچ 2017ءکو ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے دورہ پاکستان سے وطن واپسی پر طیارے میں صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے واضح کردیا کہ غیر ممالک جن میں امریکہ اور برطانیہ پیش پیش ہیں میں فوج میں خواتین کو ہیڈ اسکارف پہن کر کام کرنے کی اجازت حاصل ہے تو پھر ترکی جس کی ننانوے فیصد آبادی مسلمان ہے وہاں فوج میں ہیڈ اسکارف پہن کر فرائض سرانجام دینے کی اجازت کیوں نہیں ہوسکتی؟ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال ہم نے پو لیس میں ہیڈ اسکارف پہن کر فرائض سرانجام دینے کی پابندی کو ختم کرایا تھا اور اب فوج میں عملی اصلاحات کا باضابطہ حکم جاری کر تے ہوئے ہیڈ اسکارف کی پابندی ختم کرادی گئی ہے۔ اس پابندی کے خاتمے کا اطلاق ترک مسلح افواج میں جنرل اسٹاف، کمانڈ ہیڈکوارٹرز اور ان کے جملہ ذیلی شعبوں میں فرائض انجام دینے والی تمام خواتین افسران اور فوجیوں پر ہو گا اور یوں صدر ایردوان نے فوج میں ہیڈ اسکارف پر پابندی ختم کراکر مذہبی اور ہیڈ اسکارف والی خواتین کے لئے فوج کے دروازے کھول دئیے ہیں ۔ماہرین کے مطابق انقرہ میں وزارت دفاع کا یہ اقدام اس لئے بھی بہت زیادہ علامتی اہمیت کا حامل ہے کہ ترکی میں مسلح افواج ہی وہ قومی ادارہ ہے، جو موجودہ جمہوریہ ترکی کے سیکولر کردار کا ضامن اور اس کردار کے دفاع کا پابند سمجھا جاتا ہے۔اس طرح ترک فوج جو ہمیشہ ہی سرکاری اداروں میں ہیڈ اسکارف پہننے کو سیکولرازم کی خلاف ورزی سمجھتی رہی ہے اب اس ادارے میں بھی ہیڈ اسکارف پہن کر فرائض سرانجام دینے کی اجازت دینے سے ہیڈ اسکارف پہننے والی خواتین کے لئے ترکی کے تمام اداروں کے دروازے پوری طرح کھل گئے ہیں جو کہ صدر ایردوان کی بہت بڑی کامیابی ہے جسے وہ صدارتی ریفرنڈم میں لازمی طور پر کیش کروائیں گے۔



.
تازہ ترین