• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اعلیٰ تعلیم ‘ وفاق صوبوں کو اختیارات دینے کی بجائے نئی ٹاسک فورم بنائیگا

کراچی (محمد عسکری) اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں صوبوں کو اختیارات منتقل کرنے اور  18ویں ترمیم پر عمل کی بجائے وفاقی حکومت نے ایک نئی ٹاسک فورس قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وفاقی وزارت برائے وفاقی تعلیم و وپیشہ وارانہ تربیت کی جانب سے بھیجے گئے مراسلے کے مطابق 16مارچ 2017کو اسلام آباد میں اعلی تعلیم کے شعبہ میں درپیش مسائل کے حوالہ سے اجلاس طلب کیا گیا ہے جس میں صو بائی حکو متوں کے نمائندے شرکت کریں گے جبکہ منسلک شدہ ٹرم آف ریفر نس کے مطابق صو بوں کی آراء نئی قائم کردہ ٹاسک فورس کے روبرو پیش کی جائیں گی۔ نئی ٹاسک فورس وفاقی وزیر منصو بہ بندی واصلاحات احسن اقبال تشکیل دینگے۔ یہ ٹاسک فورس صو بوں کے نقطہ نظر کا جائزہ لیکر رپورٹ مرتب کرے گی جو وفاقی وزیر احسن اقبال کو پیش کی جائے گی۔ آئینی ماہرین کے مطابق ٹاسک فورس کا قیام 18ویں ترمیم پر عمل میں تاخیری حربے استعمال کرنے کے مترادف ہے جبکہ صوبائی اختیارات ٹاسک فورس کے حوالے کرنا آئین اور صوبائی خودمختاری کیخلاف ہے۔ 20؍ اپریل 2010ء کو 18ویں آئینی ترمیم کو پارلیمنٹ کی متفقہ منظوری کے بعد گزیٹ پاکستان کاحصہ بنا دیا گیا تھا۔ اس ترمیم کی منظوری کے بعد 48؍ وفاقی قوانین بشمول ایچ ای سی ایکٹ مجریہ 2002ء میں ترمیم کرنا تھی لیکن ایسا اب تک نہیں کیا گیا۔ 6؍ سال گزر گئے لیکن وفاقی مقننہ کی فہرست دوم (کنکرنٹ لسٹ 2) کے تحت کمیشن برائے اسٹینڈرڈز اِن ہائر ایجوکیشن کے نام سے نیا ادارہ تاحال قائم نہیں کیا گیا۔ 18ویں ترمیم کی روشنی میں اختیارات کی متفرق لسٹ کے خاتمے کے بعد تعلیم اور صحت صوبائی معاملہ بن چکے ہیں۔ سندھ  اور پنجاب کی صوبائی حکومتوں نے اپنی آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے صوبائی کابینہ اور صوبائی اسمبلیوں کی منظوری کے بعد قانون سازی کے ذریعے صوبائی ہائر ایجو کیشن کمیشن قائم کر دیئے ہیں۔ اس سلسلے میں پنجاب حکومت نے پنجاب ایچ ای  سی کے مختلف منصوبوں کیلئے خطیر رقم مختص کر دی ہے۔ سندھ حکومت نے دو سال قبل مارچ 2015ء میں مشترکہ مفادات کی کونسل میں ایچ ای سی کے اختیارات صوبوں کو منتقل کرنے کا معاملہ اٹھایا تھا۔ سندھ حکومت کا موقف ہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد جامعات سمیت تعلیم کے تمام شعبے صوبائی حکومت کی انتظامی اور قانونی ذمہ داری میں آتے ہیں اور موجودہ چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کی قیادت میں 18ویں ترمیم پر عملدرآمد کیلئے قائم کردہ کمیشن نے بھی یہ فیصلہ دیا تھا کہ وفاقی ایچ ای سی کا آرڈیننس 2002ء آئین کی بنیادی شقوں سے متصادم اور صوبائی خود مختاری کے راستے میں رکاوٹ ہے کیونکہ صوبائی جامعات کا قیام اور وائس چانسلرز کا تقرر صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے، لہٰذا مالی امور کی ذمہ داری بھی صوبائی حکومتوں کے پاس ہونی چاہئے جبکہ وفاقی حکومت فیڈرل لسٹ 2؍ کے مطابق اپنا کردار اعلیٰ تعلیم کے شعبہ میں معیار قائم کرنے تک محدود رکھے۔ سندھ حکومت کے موقف کے مطابق عمل در آمد کمیشن نے واضح طور پر فیصلہ سنایا تھا کہ کوئی بھی وفاقی ادارہ صوبائی جامعات جو خود مختار ادارے ہیں  انکے امور کی نگرانی نہیں کر سکتا۔ عملدرآمد کمیشن نے وفاقی ایچ ای سی کے اختیا رات کا بغور جائزہ لینے کے بعد انہیں محدود کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن 6؍ سال گزرنے کے با وجود ان سفارشات پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ کینیڈا کے معروف بین الاقوامی ادارے فورم آف فیڈریشن کی رپورٹ کے مطابق 12؍ میں سے 10؍ وفاقی ممالک میں اعلیٰ تعلیم کے شعبہ میں انتظامی، مالیاتی معاملات سمیت اکیڈمک پروگرامز کی منظوری کی ذمہ داری وفاقی اکائیوں کے پاس ہے جبکہ وفاقی حکومت کا ان معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن پاکستان میں صوبائی حکومتیں آئینی اختیار ملنے کے باوجود اب تک اعلیٰ تعلیم کے شعبہ میں اپنا فعال کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ دریں اثناء وفاقی حکومت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹاسک فورس کے قیام کا مقصد دراصل آئینی ترامیم پر اتفاق رائے سے عملدرآمد کرانا ہے۔ ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ وفاقی حکومت اعلی تعلیم میں صوبوں کو اختیارات دینے کیلئے تیار ہے اور اس فورس کے قیام کا مقصد بھی یہ ہی ہے۔
تازہ ترین