• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عمران خان نے تو negativity کی حد کر دی۔ سیاست کو دشمنی میں بدل دیا وہ بھی ایسی دشمنی کہ عوام اور ملک کے مفاد کو ہی بھول گئے۔پاکستان سپر لیگ کے فائنل میچ کے لاہور میں انعقاد کے فیصلے سے پورا پاکستان پرجوش تھا اور خوشی کی انتہا اُس وقت نہ رہی جب اللہ کے فضل و کرم سے یہ فائنل بہت اچھے انداز میں خیر و آفیت مکمل بھی ہوا۔ ملک بھر سے ہزاروں شائقین نے پر امن انداز میں قذافی اسٹیڈیم لاہور میں میچ دیکھا، لاکھوں کی خواہش تھی مگر وہ اسٹیڈیم میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے وہاں نہ پہنچ سکے جبکہ کروڑوں نے PSL کے اس فائنل کو گھروں میں یا جگہ جگہ سجائی بڑی ٹی وی ا سکرینوں کے ذریعے دیکھا۔اس فائنل مقابلہ میں موجود دونوں ٹیموں میں غیر ملکی کھلاڑی بھی شامل تھے۔ اُن کے علاوہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے ساتھ ساتھ کچھ دوسری غیر ملکی کرکٹ تنظیموں کے اہم نمائندوں نے بھی یہ فائنل میچ دیکھا۔ تماشائیوں، کھلاڑیوں اور غیر ملکی مہمانوں سمیت سب نے سیکورٹی انتظامات کی تعریف کی۔ انتظامات اتنے اچھے تھے کہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے اس سال ستمبر کے مہینہ میں انٹرنیشنل الیون اور پاکستان الیون کے درمیان چار T20 میچ کھیلنے کا ارادہ بھی ظاہر کیا۔ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کے لیے PSL کے اس فائنل کو یہاں ہر ایک نے بہت اہمیت دی لیکن خان صاحب نے ایسی ایسی باتیں کیں کہ سننے والے دنگ رہ گئے۔ پہلے تو کہا کہ فائنل میچ لاہور میں منعقد کروانا پاگل پن ہو گا۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ اُنہیں خطرہ تھا کہ کہیں کوئی دہشتگردی کا واقعہ نہ ہو جائے اور کسی کھلاڑی اور خصوصاً غیر ملکی کھلاڑی کو کوئی نقصان پہنچے لیکن خان صاحب نے تو کہہ دیا فوج اور سیکیورٹی کے ساتھ کرفیو لگا کر اگر میچ پاکستان میں کروانا ہے تو ایسا تو عراق اور شام میں بھی کیا جا سکتا ہے۔ یعنی خان صاحب چاہتے تھے کہ پی ایس ایل فائنل لاہور میں ہو ہی نا حالاں کہ کوئی ایک ہفتہ قبل خان صاحب پاکستان میں فائنل کرانے کے حق میں تھے۔ ایک طرف خان صاحب اکیلے تو دوسری طرف سارا پاکستان۔ ہر کوئی اس فائنل کو دیکھنا چاہتا تھا۔ سیاست دان، میڈیا، عوام سب اس خوشی میں شریک ہوئے۔ یہاں تک کہ شیخ رشید اور خان صاحب کی پارٹی کے کئی اراکین پارلیمنٹ اور کے پی کے حکومت کے وزراء تک اس خوشی میں شرکت کے لیے لاہور کےقذافی اسٹیڈیم پہنچ گئے۔ خان صاحب کو دعوت دی گئی لیکن انہوں نے فائنل دیکھنے کو ترجیح نہ دی۔ فائنل کامیابی سے مکمل ہواجس پر ہر کوئی خوش لیکن عمران خان نے وہ کچھ کہہ دیا جو انتہائی قابل اعتراض ہے۔ خان صاحب نے چند ایک کے علاوہ فائنل میں شرکت کرنے والے غیر ملکی کھلاڑیوں کو پھٹیچر اور ریلو کٹے کہہ دیا۔یعنی جو غیر ملکی کھلاڑی پاکستانیوں کی خوشی اور پاکستان کی اس کوشش میں کہ انٹرنیشنل کرکٹ واپس پاکستان میں آئے انہیں عزت دینے کی بجائے تضحیک کا نشانہ بنا دیا۔ ان غیر ملکی کھلاڑیوں کو تو جتنی عزت دی جائے وہ کم ہے۔ان کا تو پاکستانی قوم شکریہ ادا نہیں کر سکتی۔ ایسے پاکستان دوست غیر ملکیوں کو اگر دنیائے کرکٹ میں ایک عظیم پاکستانی نام عمران خان پھٹیچر اور ریلو کٹے کہہ کر پکارے گا تو پھر کل وہ یا اُن جیسے غیر ملکی کھلاڑی کرکٹ کھیلنے کیوں یہاں آئیںگے۔ خان صاحب کو تو انٹرنیشنل کرکٹ کی پاکستان میں بحالی کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ اور حکومت کے اچھے اقدامات کی نہ صرف تعریف کرنی چاہیے بلکہ اس میں بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ لیکن سیاست میں عمران خان ایسے رنگے گئے کہ اچھے بُرے کی تمیز ہی بھول گئے۔ حکومت پنجاب نے پولیس، فوج اور دوسرے اداروں کی مدد سے اتنے اچھے انداز میں پی ایس ایل فائنل کروایا کہ کوئی بھی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکا۔ اس فائنل نے دہشتگردی کے خوف کو بہترین انداز میں رد کیا اور ہر کوئی یہ کہہ اٹھا کہ فائنل میں مقابلہ تو کوئٹہ اور پشاور کی ٹیموں کے درمیان تھا لیکن کامیابی پاکستان کی ہوئی۔ بلوچستان، سندھ، پنجاب، خیبر پختون خوا، کشمیر گلگت بلتستان بلکہ دنیا بھر میں پھیلے پاکستانیوں کے دل ایک ساتھ دھڑکے اور سب نے ملک کی سلامتی اور امن کے لیے دعائیں کی۔ ایک خان صاحب ہیں کہ ن لیگ اور شریفوں کی مخالفت میں الٹے ہی چل پڑے۔ انہیں سوچنا چاہیے کہ کہیں ان منفی رویوں سے ہماری سیاست بھی پھٹیچر نہ ہو جائے۔

.
تازہ ترین