• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ذرا ذہنی پستی اور اخلاقی گراوٹ کا حال تو دیکھئے کہ امام الانبیاء حضرت محمدﷺکے امتی ہو کر اور کائنات کے آخری انسان تک کی ہدایت کاذریعہ قرآن مجید کے ہوتے ہوئے بھی اپنا موازنہ غیر مسلموں سے کرتے وقت شرم آ جائے، مگر کیا کریں، یہی حقیقت اور حقیقت کو بھلا کون جھٹلا سکے!
یہ نکتہ ذہن میں رکھتے ہوئے کہ آج کے امریکی صدر کی طاقت اور اختیارات وہی جو گزرے کل اسکندر اعظم کے، اب یہ سنئے کہ سیاست میں آنے سے پہلے شکاگو یونیورسٹی میں کانسٹیٹیوشن لاء پڑھانے اور بحیثیت سول رائٹس وکیل کام کرنے، 2004میں سینیٹر اور 2008میں پہلے سیاہ فام امریکی صدر منتخب ہونے والے باراک اوباما جب 20جنوری 2017کو دنیا کی واحد سپر پاور پر 8سالہ حکمرانی کے بعد رخصت ہوئے تو 28ٹریلین ڈالر سے زائد کا صرف وفاقی بجٹ پیش کرنے اور امریکی جی ڈی پی میں 2.1ٹریلین ڈالر کا اضافہ کرنیوالے اوباما اپنی اہلیہ کا ہاتھ تھامے وائٹ ہاؤس سے نکل کر 90سال پرانے 82سو مربع فٹ کرائے کے گھر میں منتقل ہو ئے، یعنی دنیا پر 8سال راج کرنے والے کے پاس واشنگٹن میں اپنا ایک گھر بھی نہ تھا، حضورِ والا! ا گر اوباما چاہتا تو اپنے 96ماہ کے اقتدار میں بڑی آسانی سے امریکہ کیا درجنوں ممالک میں بیسیوں گھر بنا سکتا تھا اور اربوں کما سکتا تھا، اگر اوباما چاہتا تو اس کے بھی سوئس اکاوئنٹس کھل سکتے تھے اور اس کے بھی سرے محل اور مے فیئر فلیٹس ہو سکتے تھے، اگر اوباما چاہتا تو ایفیڈرین اسکینڈل سے رینٹل پاور گھپلے تک یہاں کے150 میگا کرپشن کیسوں کی رقم سے زیادہ Sideپر کر سکتا تھا اور اگر اوباما چاہتا تو بڑی آسانی سے اپنے رشتہ داروں، دوستوں اور ملازموں کو دنیا بھر میں ٹھیکے دلوا اور طرح طرح کے کاروبار کروا کر بے نامی جائیدادوں کے انبار لگا سکتا تھا مگر باراک اوباما نے ملکی مفاد کو ذاتی مفاد سے مقدم جانا، پیسہ بنانے کی بجائے عزت کمانے کو ترجیح دی اور یہی وجہ ہےکہ آج وہ کرائے کے گھر میں ہی سہی مگر بڑی عزت اور بڑے سکون سے!
حضورِ والا! جہاں اہم بات یہ بھی کہ اس وقت 55سالہ اوباما کے 12.2ملین ڈالر کل اثاثوں کی انٹرنیٹ پر بھی منی ٹریل اتنی واضح کہ کسی قطری شہزادے کی ضرورت ہی نہ پڑے، وہاں لمحہ بھر کیلئے ذرا رک کر دیکھئے کہ جس امریکہ کو ہم روز گالیاں دیں، اسی امریکی نظام کی خوبصورتی یہ کہ پوری دنیا کو ہانکنے والا اوباما رخصتی سے چند روز قبل وائٹ ہاؤس کے ڈرائنگ روم میں کھڑا صحافی کو بڑے فخر سے بتا رہا تھا کہ ’’ایوانِ صدر میں کھانے پینے کے تمام اخراجات، ہماری چھٹیوں پر آنے والا سارا خرچہ، حتیٰ کہ ٹوائلٹ پیپرز تک ہم اپنی جیب سے اداکریں‘‘، مطلب ایک طرف اتنے اختیارات اور دوسری طرف اتنی بے اختیاری، خیر یہ تو تھا صدر، اب ذرا نائب صدر جوبائیڈن پر بھی ایک نظر مار لیں، 44سالہ سیاسی زندگی میں 36سال سینیٹر اور 8سال نائب صدر رہ کر 20جنوری کو اقتدار اگلے نائب صدر کے حوالے کرنے کے بعد اپنی گاڑیوں کے لاؤ لشکر میں یا کسی بزنس ٹائیکون دوست کے جہاز پر جانے کی بجائے بیگم کے ساتھ واشنگٹن کے یونین اسٹیشن سے لوکل ٹرین میں آبائی علاقے ڈیلاوئیر جاتے ہوئے جوبائیڈن اپنے ساتھ سفر کرتے صحافی کو اطمینان بھر ے لہجے میں بتا رہا تھا کہ ’’میں جس عہدے پر بھی رہا، میں نے سفر عوامی ٹرین پر ہی کیا اور یوں واشنگٹن سے 8ہزار مرتبہ گھر جاتے اور واپس آتے ہوئے میں نے ٹرین پر تقریباً 21ملین میل سفر طے کیا‘‘، بائیڈن کہے کہ ’’مجھے عوامی ٹرین پر سفر کرنا اس لئے اچھا لگے کہ اس طرح عوام سے رابطہ رہے اور عوامی مسائل بہتر انداز میں سمجھنے کا موقع ملے‘‘، مستقبل میں یونیورسٹی آف پنسلوانیا اور یونیورسٹی آف ڈیلاویئر میں پڑھا کر اپنا تجربہ اگلی نسل کو منتقل کرکے انہیں مستقبل کے چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے تیار کرنے کا عزم رکھنے والے بائیڈن نے صحافی کو بتایا کہ ’’میری خواہش تھی کہ میں ریٹائر ہونے کے بعد بھی عوامی ٹرین پر ہی گھر جاؤں اور آج میں بڑے جوش وجذبے سے واپس اپنے علاقے، اپنے لوگوں اور اپنے گھر جا رہا‘‘، حضورِ والا! یہ وہی بائیڈن کہ جس کی سیاسی امانت و دیانت کا حال یہ کہ ایک طرف اس کے دستخطوں سے 840ارب ڈالر خرچے گئے، اور دوسری طرف اپنے کینسر زدہ بیٹے کے علاج کیلئے اسے پیسے ادھار لینے پڑے اور پھر یہاں ایک اہم نکتہ یہ بھی کہ اب آپ کو کبھی بھولے سے بھی اوباما یا بائیڈن دوبارہ اقتدار کے لئے کوششیں کرتے یا کسی اور عہدے کیلئے سازشیں اور جوڑ توڑ کرتے نہیں ملیں گے، یہ کیا ان سے پہلے صدارت سے فارغ ہوئے بش سینئر اور بش جونیئر نے کبھی پلٹ کر بھی وائٹ ہاؤس کی طرف نہ دیکھا، دونوں باپ بیٹا بڑے مزے سے اپنی آئل کمپنیاں چلاتے اور اپنی زمینوں پر فارمنگ کر رہے، یہی نہیں اپنی آٹھ سالہ صدارت کے بعد سے بل کلنٹن سیاست کی بجائے دنیا بھر میں انسانی فلاح وبہبود کے کاموں میں لگا ہوا، اسی طرح سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر اور گورڈن براؤن سیاست سے ریٹائر ہو کر اقوام متحدہ کے مشیر بن کر اور لیکچرز دے کر زندگیاں گزار رہے اور پھر ابھی پچھلے ہفتے استعفیٰ دے کر عملی سیاست چھوڑ چکے سابق برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو بڑے مزے سے ایک ریسٹورنٹ کے باہر فش اینڈ چپس کیلئے لائن میں لگے سب نے دیکھا۔
اب ذرا اپنے ہاں د یکھ لیں، یہاں ایک آدھ کے علاوہ آج تک کوئی حکمراں یا سیاستدان ریٹائر نہ ہوا، یہاں ہر کوئی مرتے دم تک عہدوں کیلئے جوڑ توڑ میں لگا رہے، یہاں اگر کسی کو اقتدار کا ایک دن بھی نصیب ہو جائے تو وہ ان چند گھنٹوں میں اتنا کما لے کہ باقی دنیا میں اتنا سالوں میں بھی نہ کمایا جا سکے اور یہاں صورتحال یہ کہ وزیراعظموں سے لیکر میونسپل کمیٹی کے ممبران تک، وفاقی سیکرٹریوں سے کلرکوں تک اور فیکٹری مالکان سے ٹھیلے والوں تک، چند ایک کے علاوہ ہر کوئی ’’ھذا من فضل ربی‘‘ کی تختی لگائے ہر لمحے، ہر پل اور ہر گھڑی یوں مال بنارہا کہ جیسے کسی نے مرنا ہی نہیں، اور تو اور یہاں تو کرپشن اور لوٹ مار روکنے والے خود ہی کرپشن اور لوٹ مار کر رہے، یہاں دو نمبریوں پر نظر رکھنے والے خود ’دس نمبری‘ ہو چکے اور یہاں کے تو شریف زادے بھی پاناما زدہ نکلیں، آپ ہی بتائیں بھلا دنیا میں کوئی ایسا ملک ہو گا کہ جہاں ’جیک اور جگاڑ‘ ایسا کام دکھائے کہ سبزیاں بیچنے والے کی 15سالوں میں دو درجن فیکٹریاں ہو جائیں، بال بنانے اور کپڑے دھونے والا چند سالوں میں ارب پتی ہو جائے، نالیوں اور گٹروں کے ڈھکنوں کے سرکاری ٹھیکیدار کے بچے ولایت میں پڑھ رہے ہوں، وفاقی دارالحکومت کے صرف ایک سرکاری محکمے کے کلرکوں کے شہر میں 4چار گھر ہوں اور ایک مالشئے کی جائیداد 3ملکوں میں ہو، صاحبو! کہنے کو تو اپنا ملک وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کہ جس کی نظریاتی بنیاد یہ کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الا اللہ‘‘ مگر اصل میں یہاں ذہنی پستی اور اخلاقی گراوٹ کا حال یہ کہ امام الانبیاء حضرت محمدﷺ کے امتی ہو کر اور کائنات کے آخری انسان تک کی ہدایت کا ذریعہ قرآن مجید کے ہوتے ہوئے اپنا موزانہ غیر مسلموں سے کرتے ہوئے بھی شرم آئے، مگر کیا کریں، یہی حقیقت اور حقیقت کو بھلا کون جھٹلا سکے!

.
تازہ ترین