• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم کتنے بے وقوف ہیں۔ ہمیں سب کچھ یاد رہتا ہے بس اپنی موت یاد نہیں رہتی۔ کچھ دن پہلے سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناما کیس کی سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایک وزیر صاحب نے کہا کہ عمران خان کی طرف سے وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف ویسی ہی سازش کی جا رہی ہے جیسی پرویز مشرف اور سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے کی تھی۔ یہ بیان سن کر دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ شاہ صاحب کا انٹرویو کیا جائے اور اُن سے پوچھا جائے کہ آپ نے نواز شریف کے خلاف کیا سازش کی تھی؟ فوراً ہی یہ خیال آگے پیچھے ہو گیا کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ شاہ صاحب میرے سوالوں کا جواب دینے کی بجائے الٹا مجھے کہیں گے کہ تمہیں زیادہ پتہ ہے کہ میں نے نواز شریف کے خلاف کیا سازش کی اور نواز شریف نے میرے خلاف کیا سازش کی لہٰذا پہلے تم بتائو پھر میں بتائوں گا۔ کل رات سجاد علی شاہ صاحب کے انتقال کی خبر ملی تو 20سال پرانے بہت سے واقعات میری آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے جب مسلم لیگ (ن) نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا تھا اور حملے کے کچھ ہی دنوں بعد چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو اُن کے اپنے ہی ساتھی ججوں کے ہاتھوں فارغ کرا دیا گیا۔ چیف جسٹس کے خلاف بغاوت کرنے والوں میں جسٹس سعید الزمان صدیقی سب سے آگے آگے تھے جو بعد میں مسلم لیگ (ن) کے صدارتی امیدوار اور پھر سندھ کے گورنر بنائے گئے۔ سونے کیلئے بستر پر لیٹا تو سجاد علی شاہ صاحب کے ساتھ کراچی میں ہونے والی ایک طویل نشست یاد آگئی۔ میں نے اُن سے پوچھا تھا کہ سپریم کورٹ پر حملے کی ایف آئی آر درج ہوئی تھی، انکوائری بھی ہوئی تھی اور مسلم لیگ (ن) کے کچھ اراکین پارلیمنٹ کو نااہل بھی قرار دیا گیا لیکن ایف آئی آر کی روشنی میں جو انکوائری ایک ایس ایس پی نے شروع کی وہ آگے کیوں نہ بڑھی؟ شاہ صاحب مسکرائے اور کہا کہ جب 2012ءمیں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف سپریم کورٹ میں توہین عدالت کا مقدمہ چل رہا تھا تو پیپلز پارٹی نے مجھ سے رابطہ کیا اور سپریم کورٹ پر حملے کا مقدمہ ری اوپن کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ وہ چاہتے تھے میں اُن کی مدد کروں لیکن میں کسی سازش کا حصہ نہیں بننا چاہتا تھا حالانکہ اُس وقت کے وزیر داخلہ رحمان ملک نے سپریم کورٹ پر حملے کی سی سی ٹی وی فوٹیج نکال لی تھی اور مسلم لیگ (ن) کا ایک منحرف رکن قومی اسمبلی یہ بیان دینے کے لئے بھی تیار تھا کہ یہ حملہ نواز شریف کے حکم پر کیا گیا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اکرم شیخ نے کئی مرتبہ نواز شریف سے گزارش کی کہ سجاد علی شاہ کے ساتھ ماضی کی تلخیاں بھلا دی جائیں۔ کچھ سال پہلے اکرم شیخ نے سجاد علی شاہ کی بطور چیف جسٹس پنشن بحال کرنے کے لئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تو نواز شریف نے شیخ صاحب سے شکوہ کیا کہ آپ ابھی تک میرے خلاف سازش کرنے والوں کی پیروی کر رہے ہیں۔ شیخ صاحب نے جواباً عرض کیا تھا کہ سجاد علی شاہ صاحب نے توہین عدالت کے الزام میں آپ کو سپریم کورٹ میں طلب کرنے کی گستاخی ضرور کی تھی لیکن آپ کے خلاف کوئی سازش نہیں کی تھی۔
سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ صاحب اس دنیا میں نہیں رہے اور ایک دن ہم سب نے بھی یہ دنیا چھوڑ دینی ہے۔ ہم دنیا چھوڑ دیں گے لیکن ہمارا جھوٹ ہمیں نہیں چھوڑے گا۔ میں بہت گناہ گار بندہ ہوں۔ شاہ صاحب کے بارے میں کچھ حقائق ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں۔ میری ان کے ساتھ کوئی ذاتی نیازمندی نہیں تھی۔ جب وہ چیف جسٹس تھے تو میں نے کئی مرتبہ اُن پر تنقید کی۔ 1993ء میں سپریم کورٹ نے نواز شریف کی حکومت بحال کی تو جسٹس سجاد علی شاہ نے اپنے اختلافی فیصلے میں لکھا کہ سندھی وزیر اعظم کی حکومت بحال نہیں کی گئی اور پنجابی وزیر اعظم کی حکومت بحال کر دی گئی۔ کچھ عرصے بعد بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بن گئیں تو انہوں نے 1994ء میں تین سینئر ججوں کو نظرانداز کر کے سجاد علی شاہ کو چیف جسٹس بنا دیا۔ بے نظیر حکومت کا خیال تھا کہ اب اپنا چیف جسٹس آ گیا ہے تو عدلیہ ہماری غلامی کرے گی لیکن ایسا نہ ہوا۔ سجاد علی شاہ نے اعلیٰ عدلیہ میں ایڈہاک تقرریوں اور کچھ دیگر معاملات پر مزاحمت کی۔ 20مارچ 1996ء کو جسٹس سجاد علی شاہ نے الجہاد ٹرسٹ کیس میں کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تقرریاں میرٹ پر کی جائیں تو 21مارچ 1996ء کے کالم میں اس خاکسار نے گزارش کی تھی کہ چیف جسٹس کی اپنی تقرری میرٹ پر نہیں اس لئے وہ چیف جسٹس کا عہدہ چھوڑ دیں۔
ایک وکیل نے شاہ صاحب سے کہا کہ حامد میر کے خلاف توہین عدالت کے الزام میں کارروائی کی جائے لیکن شاہ صاحب نے یہ مشورہ نظرانداز کر دیا۔ میری تنقید جاری رہی اور شاہ صاحب اس تنقید کو نظرانداز کرتے رہے۔ جب بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف کر دی گئی تو اُن کا اپنا خیال تھا کہ سجاد علی شاہ اُنہیں بحال کر دیں گے کیونکہ صدر فاروق لغاری نے جن الزامات کی بنیاد پر حکومت برطرف کی اُن الزامات کا کوئی ثبوت عدالت میں پیش نہ کیا جا سکا۔ میں نے ایک کالم لکھا کہ بے نظیر حکومت بحال نہیں ہو گی اور کالم کا عنوان تھا ’’یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ انصاف ہوتا‘‘۔ حکومت بحال نہیں ہوئی اور نواز شریف نئے انتخابات میں دوتہائی اکثریت سے کامیاب ہو گئے۔ وزیر اعظم بن کر اُنہوں نے کرپشن کے خلاف مہم چلانے کے نام پر سرکاری افسران کو بغیر انکوائری سرعام ہتھکڑیاں لگوانی شروع کر دیں۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے ان سرکاری افسران کو رہا کرنے کے احکامات صادر کرنے شروع کر دیئے۔ وہ نواز شریف جو بطور اپوزیشن لیڈر شاہ صاحب کے بڑے مداح تھے اور قومی اسمبلی میں 20مارچ 1996ء کے عدالتی فیصلے کے حق میں تقریر کر چکے تھے انہیں شاہ صاحب سازشی نظر آنے لگے۔ محاذ آرائی اتنی بڑھی کہ چیف جسٹس نے پارلیمنٹ کی کچھ آئینی ترامیم کو مسترد کر دیا جس پر میں نے چیف جسٹس کے فیصلے پر تنقید کی۔ ایک دن وزیر اعظم صاحب نے مجھ سمیت کچھ اخبار نویسوں کو ملاقات کے لئے بلایا تو میں نے مشورہ دیا کہ حکومت چیف جسٹس کے ساتھ محاذ آرائی نہ کرے۔ وزیر اعظم بولے کہ آپ تو خود اُن پر تنقید کر رہے ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ میری تنقید علمی و آئینی نوعیت کی ہے جو آپ کرنے جا رہے ہیں وہ آپ کی سیاست پر ہمیشہ کیلئے ایک داغ بن جائے گا۔ پھر ایک سینئر اخبار نویس ساتھی نے نواز شریف کو پنجابی میں کہا ’’ایس چیف جسٹس نے تہانوں نئیں چھڈنا‘‘ شاید وہ یہی سننا چاہتے تھے اور اگلے دن سپریم کورٹ پر حملہ ہو گیا۔ اُس وقت کے اسپیکر قومی اسمبلی گوہر ایوب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ نواز شریف ہر قیمت پر سجاد علی شاہ کو گرفتار کرنا چاہتے تھے۔ گوہر ایوب نے انہیں چیف جسٹس کو گرفتار کرنے سے روکا۔ 24نومبر 1997ء کو چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے اصغر خان کی درخواست پر آئی ایس آئی کا سیکرٹ فنڈ سیاستدانوں میں تقسیم کرنے کے مقدمے کی سماعت شروع کی اور 27نومبر کو سپریم کورٹ پر حملہ ہو گیا۔ اصغر خان کیس کا فیصلہ 2012ء میں آ گیا لیکن فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ 1999ء میں حکومت ختم ہوئی تو نواز شریف کے بہت سے ساتھی اُنہیں چھوڑ کر مشرف سے جا ملے۔ اُنہوں نے اپنی کتابوں میں لکھا کہ ظالم نواز شریف ملک کے چیف جسٹس کو گرفتار کرنا چاہتے تھے۔ پھر یہ کتابیں لکھنے والے واپس مظلوم نواز شریف سے آ ملے۔ نواز شریف نے مشرف کو بھی بغاوت کا مقدمہ چلائے بغیر ملک چھوڑنے کی اجازت دیدی لیکن سجاد علی شاہ کو معاف نہیں کیا شاید اس لئے کہ وہ کمزور تھے۔ شاہ صاحب کمزور تھے لیکن سازشی نہیں تھے۔

.
تازہ ترین