• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پھٹیچر اخلاقیات
جہاں ہماری اور کئی چیزیں پھٹی پرانی ہیں وہاں اخلاقیات کی قبا بھی چاک چاک ہے، ایک حدیث ہے کہ شخصیت کا دارومدار اس پر ہے کہ اس کے پاس کہنے کو کیا ہے، ہم اپنے آپ کو اپنی زبان سے نکلے الفاظ کے ذریعے ظاہر کرتے ہیں، سچا وہ ہے جسے سچ کہنے کا سلیقہ بھی آئے، ہم نے جو پیرا میٹرز پیش کر دیئے ہیں اگر ان پر پرکھتے جائیں تو کئی عمران خان سامنے آ جائیں گے، آف دی ریکارڈ یا غیر رسمی گفتگو کا یہ مطلب نہیں کہ بقول حافظ شیرازیؔ
واعظاں کیں جلوہ بَر محراب و منبر می کنند
چوں نجلوت می روند آں کارے دیگر میکنند
(واعظان خوش بیان محراب و منبر پر بیٹھ کر کیا کیا جلوہ نمایاں کرتے ہیں مگر جونہی خلوت میں جاتے ہیں وہ دوسرا کام شروع کر دیتے ہیں)
خوش گفتار وہ ہے جو جلوت خلوت میں اچھی بات کہے۔ عمران خان کی یہ پہلی ’’خوش نوائی‘‘ نہیں تاہم یہ ان کے مخصوص تمام انداز ہائے گفتگو کو کاٹ گئی ہے، کیونکہ یہ ہماری مثالی مہمان نوازی کو داغدار کر گئی ہے، چوتھے خلیفہ راشد حضرت علی المرتضیٰ کا ایک شعر ہے؎
جراحات السنان لہا التیام
ولا یلتام ماجرح اللسان
(نیزے کی انی سے جو زخم لگتے ہیں وہ تو بھر جاتے ہیں، مگر زبان کی نوک سے جو زخم پہنچتے ہیں وہ کبھی مندمل نہیں ہوتے) اگر ہماری اخلاقیات ہی ’’پھٹیچر‘‘ ہو گی تو ہماری سیاسیات ’’ریلو کٹا‘‘ ہی ہو گی، جب بھی خان صاحب لب کشائی فرماتے ہیں ہمارے قلم سے یہ الفاظ نکلتے ہیں ’’ایں گل دیگر شگفت‘‘ (لو ایک اور گل کھِلا دیا) قوم کی اجتماعی خوشی کا واسطہ ہے خان صاحب ببانگِ دہل معذرت کر لیں، حقوق العباد کی پامالی کا ازالہ کرنے کا اب ان کے پاس یہی ایک راستہ ہے اختیار کر لیں اسی میں عظمت ہے۔
٭٭٭٭
سچ پہنچانے کے راستے پلید نہ کریں!
سوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں سے گستاخی کرنے والوں کے خلاف عدم کارروائی پر چوہدری نثار کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے طلب کر لیا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہر نعمت سے نوازا ہے لیکن افسوس کہ بالعموم ہم اسے اپنے لئے زحمت بنا لیتے ہیں، سوشل میڈیا انسانوں کے ایک دوسرے سے قریب آنے اور حق سچ کا پرچار کرنے کا تیز ترین ذریعہ ہے، لیکن اسے کس نجس انداز میں استعمال کیا جا رہا ہے اس کے نتیجے میں دل آزاری کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا، اور اب جبکہ یہ وسیلہ خبر و اشاعت حق مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کے لئے استعمال کیا جانے لگا ہے، تو وزارت داخلہ نے جانتے ہوئے بھی اس کا کوئی نوٹس تک نہ لیا کارروائی کیا خاک کرتی، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان ایک زیرک اور صالح انسان ہیں، ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ سوشل میڈیا کو ’’کھوچل‘‘ میڈیا نہ بننے دیں اور جو کوئی بھی اس کا غلط، غیر اخلاقی، غیر قانونی استعمال کرے اسے نشان عبرت بنائیں، وہ یہاں بھی اور ’’وہاں‘‘ بھی جوابدہ ہوں گے، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایک ایسے مکروہ فعل کا قلع قمع کرنے کے لئے وزیر داخلہ کو طلب کیا ہے جو کسی بھی مسلمان کے ایمان سے خارج ہونے کے لئے کافی ہے، اگر گستاخانہ خبر رسانی کا یہ سلسلہ نہ تھما تو دین اسلام سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے، جب اسلام ایک عام آدمی کی گستاخی پر گرفت کرتا ہے تو مقدس ہستیوں کی توہین کی اجازت کیسے دے سکتا ہے، پاکستان کا سافٹ امیج خراب کرنے کے لئے سوشل میڈیا کو نہایت مکروہ انداز میں بروئے کار لایا جانا وزارت داخلہ کے مدارالمہام کے لئے لمحہ فکریہ اور پوری قوم کے لئے المیہ ہے، اخلاقی پستی، اخلاقی دہشت گردی ہے اسے راہ دینا دہشت گرد پیدا کرنے کا سبب، ہم خود ہی اپنے دامن کو داغدار کر کے کسی اور سے کیا گلہ کرسکتے ہیں، حکمرانوں کو کیا محتسبِ محشر کا بھی ڈر نہ رہا؟ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے عدل کا ترازو عطا فرمایا ہے وہ بروقت ایکشن لیتے ہیں، مگر عملدرآمد ندارد کے باعث ہمارے ہاں مجرمانہ گستاخانہ ظالمانہ طرز عمل بڑھتا جا رہا ہے خدا خیر کرے اور ہمیں راہ راست پر آنے کی توفیق دے۔
٭٭٭٭
لنگڑا بہانہ
عذر لنگ کا لفظ تو اکثر لوگوں نے پڑھا ہو گا مگر یہ ترکیب ذرا سہل نہیں اس لئے اس کا ترجمہ لنگڑا بہانہ کر کے ہم نے بہانہ بازوں کی پہچان آسان تر کر دی ہے، ہم کسی خاص طبقے یا فرد کا ذکر نہیں کر رہے لیکن کچھ عرصے من حیث القوم ہم سے ہماری غلطی بارے پوچھا جائے تو کہتے ہیں فلاں آدمی فلاں طبقہ فلاں ملک بھی تو ایسا کرتا ہے، بات یہ ہے کہ اگر سارے فلانے بھی وہی کرتے ہیں جو ہم کرتے ہیں تو وہ بھی غلط ہی کرتے ہیں، اکثریت کے غلط ہونے سے غلط، صحیح نہیں ہو جاتا ہمارے ایک بینکر شاعر اظہر سلیم کا شعر حسب حال ہے؎
وہ بھی کھاتا ہے یہاں مجھ کو بھی کچھ کھانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
اچھائی میں تو ہم کسی کو مثال بنا کر اس کی تقلید کر سکتے ہیں مگر برائی میں ایسا کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا، کیونکہ غلط کام قابل پیروی نہیں ہوتا، اگر حکمرانوں کو کسی برائی کے اعدادوشمار پیش کئے جاتے ہیں تو وہ دوسرے ممالک کے اعدادوشمار بیان کر کے خود کو کم بُرا قرار دے کر ڈھٹائی کا ریکارڈ قائم کرتے ہیں، یہ رویہ ایک عام گھر سے تابہ قصرِ سلطانی با افراط پایا جاتا ہے، برائی کے جواز کے لئے برائی کو دلیل بنانا بھی برائی ہے، ایک بڑی خرابی اپنی ذات کے حصار سے نہ نکلنا ہے، اپنی شخصیت میں گڑھوں کے باوجود خود کو ایک ہموار معتدل انسان ثابت کرنا اور دوسروں کے عیب بیان کرے اپنے عیب کو جائز سمجھنا، جہل مرکب ہے، بہادر شاہ ظفر نے لگ بھگ یہی شعر کہا تھا؎
رہے اپنے عیبوں سے جو بے خبر رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنے عیبوں پر جو نظر تو نظر میں کوئی بُرا نہ رہا
٭٭٭٭
کنج تنہائی ہے اور مراقبہ ہے
....Oاکثر چنگ چی کو دیکھ کے خدا یاد آتا تھا
آج ایک چینل کو دیکھ کے خدا یاد آیا
....Oپاکستان آنے والے غیر ملکی کھلاڑیوں کو ’’پھٹیچر‘‘ کہنا عمران کو مہنگا پڑ گیا۔
مہنگائی کے اس دور میں خان صاحب کو مہنگی رسوائی خریدنے کا بڑا شوق ہے،
....Oآج کل تصوف کا بڑا چرچا ہے، دل چاہا کہ کسی صوفی سے شرف ملاقات حاصل ہو جائے۔
بسیار کوشش کی مگر دل نے آواز دی؎
ان سے ملنے کی بات کرتا ہے
دل نے آسان سمجھ رکھا ہے
خود ہی کنج تنہائی میں بیٹھ کر مراقبہ شروع کر دیا۔

.
تازہ ترین