• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برازیل میں ہونے والی اولمپکس گیمز 2016میں کل 88ہزار سیکورٹی اہلکاروں نے ڈیوٹی دی اسکے علاوہ اولمپک گیمز کے دوران ہر وقت فضائی اسکواڈ بھی کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے چوکس رہتا تھا ۔ یعنی امریکہ سمیت دنیا کے کسی بھی ملک میں جہاں بظاہر امن اور صورتحال کنٹرول میں ہے وہاں کھیلوں سمیت کوئی بھی عوامی اجتماع یا بین الاقوامی کھلاڑیوں یا مندوبین کا اجتماع ہو وہاں آج کل سیکورٹی کے غیر معمولی انتظامات کرنا پڑتے ہیں ۔پاکستان سپرلیگ کے لاہور میں کھیلے جانے والے فائنل کے دوران بھی غیر معمولی سیکورٹی کے انتظامات کئے گئے تھے ۔وہ پاکستان میں دہشت گردوں کی کارروائیوں کے پیش نظر بھی تھے اور ویسے بھی سانپ کا ڈسا رسی سے بھی ڈرتا ہے یا دودھ کا جلا چھاج کو بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے ۔ لاہور میں کھیلے جانے والے پاکستان سپرلیگ کے فائنل کے دوران سیکورٹی کے انتظامات کو کرفیو کہنا بالکل نا مناسب با ت ہے ۔ اور پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے جس طرح سیکورٹی کے انتظامات کو کرفیو قرار دیا یہ پھر بھی کوئی ایسی بات نہیں کہ اس پر کپتان کے لتے لینا شروع کردئے جائیں ۔لیکن انہوں نے کرکٹ کے عالمی کھلاڑیوں کو جس طرح پھٹیچر اور ریلو کٹے قرار دیا ہے وہ قا بل اعترا ض ہے اور اس سے پہلی بار نہ صرف پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کو گزشتہ دو تین روز سے وہی ندامت بھری دفاعی پالیسی اپنانی پڑ رہی ہے جو پانامہ لیکس پر حکمران جماعت کے لیڈروں کو میڈیا پر جا کر کمزور دفاعی پالیسی اپنانا پڑی تھی ۔ اور میں نے دیکھا ہے کہ عمران خان کے وہ حمایتی بھی جو ذرا سی تنقید پر بھی آستینیں چڑھا کر گالیوں کی گردان شروع کر دیتے تھے وہ بھی کپتان کے عالمی کھلاڑیوں کے بارے میں ریمارکس کو نا پسند کرتے ہوئے اپنے کپتان پر تنقید کرتے نظر آرہے ہیں ۔کپتان کا کھلا ڑیو ں کو پھٹیچر اور ریلوکٹے قرار دینا افسوسناک ہے اور خاص طور پر ان مہمان کھلا ڑیو ں کو جو عالمی میڈیا اور پاکستان دشمن لوگوں کی ان باتوں کو نظر انداز کرکے پاکستان سپرلیگ کا فائنل کھیلنے آئے ہیں کہ پاکستان میں امن و امان کی صورتحال بہت خراب ہے اور وہاں جا کر فائنل میں حصہ لینا جان کو خطرے میں ڈالنا ہے ۔ بلکہ ان کھلاڑیوں کے اپنے ملک بھی وقتا فوقتا جاری کی جانے والی سفری رہنمائی میں اپنے کھلاڑیوں کو یا شہریوں کو یہ کہتے ہیں کہ فلاں فلاں ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے سے سفر سے گریز کریں ۔ ایسے میں چاہے کسی کو جتنی بھی رقم دی جائے یا ا ٓفر کی جائے اور وہ پاکستان کھیلنے پر تیار ہوجائے یقناً ان کھلاڑیوں کی قابل تعریف کوشش اور قربانی ہے ۔ ایسے میں ان مہمان کھلاڑیوں کو پھٹیچر یا ریلو کٹے کہنا مہمان نوازی اور ادب آداب کے بالکل منافی ہے اور خاص طور پر عمران خان جو ایک سیاسی رہنما ہی نہیں بلکہ ایک عالمی شہرت رکھنے والے کھلاڑی بھی رہ چکے ہیں اس لئے ان کے منہ سے ایسے الفاظ نکلنا بہت تکلیف دہ ہے ۔ ایسے میں اس کا جوازپیش کرنا اور بھی کھسیانا اور بھدہ پن ہے ۔عمران خان کو چاہئے کہ وہ اور اُ ن کے رہنما اسکا جواز پیش کرنے کی بجائے عوام اور خاص طور پر کرکٹ شائقین جس میں انکی اپنی پارٹی کے کارکن بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں سے معافی مانگیں اور سر ویوین رچرڈ جو دنیائے کرکٹ کا ایک بہت بڑا نام ہیں اُن کا پاکستان آنا اور اپنی ٹیم کو ئٹہ کے لئے جوش اور جذبات کا مظاہرہ کرنا بہت ہی شاندار رہا کو فون کرکے نہ صرف انکی آمد پر انکا شکریہ ادا کریں بلکہ انہیں یہ بھی باور کروائیں کہ انکے ریمارکس انکے لئے نہیں تھے اسکے علاوہ ڈیرن سمی جسکی کپتانی میں پشاورزلمی نےچیمپئن ہونے کا اعزاز حاصل کیا ہے اُن سمیت دیگر کھلاڑیوں کو بھی فرداًفرداً فون کرکے انکا شکریہ ادا کریں جس سے نہ صرف کپتان کے دیئے جانے والے بیان کا زہر نکل جائے گا بلکہ آئندہ کھیلوں کے حوالے سے دیگر کھلاڑیوں کے دلوں میں بھی پاکستان کے لئے نرم گوشہ پیدا ہوگا ۔عمران خان صاحب غلطی کا اعترا ف اور معذرت کرنے سے آپ کا قد چھوٹا نہیں بڑا ہوگا اور آپکو یہ اس لئے بھی کرنا چاہئے کہ عوام آپ کو متبادل قیاد ت کے طور پر دیکھتے ہیں اور پاکستان میں ایک بڑی تعداد آپکے چاہنے والوں میں شامل ہے انہیں ناراض مت کریں ۔

.
تازہ ترین