• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب اپنے پلے کچھ نہ رہے تو بندہ نقلچو سا بن کر ہی رہ جاتا ہے۔ جیسے ہم کبھی ویلنٹائنز ڈے مناتے ہیں، کبھی فادرزڈے، کبھی مدرز ڈے اور آج کل ہمیں عورتوں کے دن کاد ورہ پڑا ہوا ہے حالانکہ جس معاشرہ میں مرد بھی غلام اور بے عزت ہو وہاں عورت آزاد اورباوقار کیسے ہوسکتی ہے؟یہاںیہ وضاحت ضروری ہے کہ ہمارے ہاں بیگمات اور عورت میں خاصا فرق ہے۔ یہ دونوں مختلف بلکہ کئی معنوں میں متضاد قسم کی مخلوق ہیں۔ بیگمات کافی پارٹیز کرتی ہیں، برج وغیرہ کھیلتی، پولو میچز دیکھتی ہیں اور اسمبلیوں میں عورتوں کی نمائندگی وغیرہ کرتی ہیں کیونکہ عورتوں کے پاس اپنی نمائندگی کرنے کا ٹائم نہیں ہوتا۔ وہ صبح سے شام تک بہت مصروف ہوتی ہیں۔ انہوں نے سورج سے پہلے بیدار ہو کر چولہا چوکا کرنا ہوتاہے، ڈنگروں کو چارہ ڈالنا ہوتا ہے،دودھ دوہنا ہوتا ہے اور روٹیوں کے علاوہ گوبر کے گول گول اُپلے بھی تھپنے ہوتے ہیں جنہیں پنجاب میں پیار سے ’’پاتھیاں‘‘ کہا جاتا ہے جو حقے کی چلم سے چولہے تک ’’انرجی‘‘ فراہم کرنے کے کام آتی ہیں ۔ عورتوں نے اپنے پسینے کے قیمتی پرفیوم میں نہاتے ہوئے کپاس بھی چننی ہوتی ہے اور حبس کے عالم میں مونجی کی پنیری بھی لگانی ہوتی ہے اور ونی، کالی، کاری کے علاوہ گندم بھی کاٹنی اور چھڑنی ہوتی ہے۔ وٹے سٹے کے ساتھ ساتھ اسے کئی مقامات پر فالسہ بھی توڑنا ہوتا ہے جس کے عوض اسے مزدوری کے طور پر رقم کی بجائے فالسے کے پودے کی لچکیلی شاخیں ملتی ہیں جن سے وہ مختلف قسم کی ٹوکریاں اور چھابڑیاں بناتی ہیں۔ شوہر سےمار پھٹکار کے علاوہ عورت کو کبھی کبھی غیرت کے نام پر قتل ہو کر ملک کا نام بھی روشن کرنا پڑتا ہے۔چند پرانے عرب قبائل میں عورت کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کردیا جاتا تھا لیکن ہمارے معاشرہ میں اس سفاکی کا رواج نہیں۔ ہم کاکی کو مارتے نہیں،زندہ رہنے کی اجازت دیتے ہیں۔ ہم اپنی مائوں، بہنوں اوربیٹیوں سے بہت پیار کرتے ہیں اور غالباً اسی مثالی پیار کو بیان کرتے ہوئے منیر نیازی نے کہا تھا؎میں جس سے پیار کرتا ہوں اسی کو مار دیتا ہوںمنیر نیازی نے عورتوں کا عالمی دن مناتے ہوئے کہا تھا کہ ہماری آدھی آبادی یعنی مردوں نے باقی آدھی آبادی یعنی عورتوںکو گھروں میں قید نہیں ’’محفوظ‘‘ کرکے خود گھروں کے باہر ڈانگ پکڑ کران کی حفاظت کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ ہماری اپنی عورتوں سے محبت دیکھ کر ہی کسی نے لکھا ہوگا؎عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی بہل جائےاب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائےعورت کسی بھی روپ میں ہو، ہم اسے تحفظ کے نام پر اتنا ’’گھٹ‘‘ کے ، اتنا بھینچ کے رکھتے ہیں کہ اکثر اوقات اس بیچاری کا دم نکل جاتا ہے لیکن "Protective" ہونا بھی تو بہت ضروری ہے۔ خلیل جبران نےکہیں لکھا ہے کہ ’’عورت تو نام ہی انتظار کاہے۔ وہ بیٹی ہو تو باپ کا انتظارکرتی ہے، بیوی ہو تو شوہر کا انتظارکرتی ہے۔ ماں ہو تو بچوں کا انتظار کرتی ہے۔‘‘ ساحر لدھیانوی نے بھی یہ نظم لکھ کر مردوں کے خلاف ’’سازش‘‘ کی تھی۔’’یہ کوچے یہ نیلام گھر دلکشی کے‘‘نظم کا عنوان غالباً ’’چکلے‘‘ تھا جس پر مرد شرمندہ تو بہت ہوئے لیکن اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے حالانکہ ساحرؔ یہاں تک بھی گیا؎عورت نے جنم دیا مردوں کو، مردوں نے اسے بازار دیاجس کوکھ سے اس نے جنم دیا اس کوکھ کا کاروبار کیاچلتے چلتے یہ بھی سن لیں کہ انسانوں میں ٹوٹل 46 کروموسومز 23جوڑوں (Pairs) کی صورت میں ہوتے ہیں جن میں سے صرف 23واں جوڑا (Pair) عورت اور مرد میں مختلف ہوتا ہے لیکن عورت اور مرد کے درمیان ہم جیسے ان گھڑ معاشروں میں جتنا فرق رکھا جاتا ہے اس سے محسوس ہوتاہے کہ دونوں میں 46کے 46کروموسومز ہی مختلف ہیں یعنی ایک نکتے کے فرق سے مجرم محرم اور محرم مجرم تو ایسے مجہول ماحول میں عورت کیا اور اس کی ترقی کیا..... البتہ بیگمات کی بات دوسری ہے کیونکہ جیسا میں نےشروع میں عرض کیا کہ بیگمات عورتوں سے مختلف ’’آئٹمز‘‘ ہوتی ہیں۔ثقہ ترین ڈکشنریوں میں عورت کچھ یوں بیان کی گئی ہے۔"An adult human being"یا عورت کو یوں Define کرتے ہیں۔"A man considered as having female characteristic such as meekness."یاد رہے کہ ہر مرد میں تھوڑی بہت عورت اور ہر عورت میں تھوڑا بہت مرد موجود ہوتا ہے اوراکثر ایک معمولی سی سرجری سے جنس بدل جاتی ہے۔مختصراً یہ کہ عورت کے حقوق پر بات کرنا فضول ہے کیونکہ جہاں مرد صحیح معنوں میں آزاد نہ ہو وہاں بیچاری عورت کیا بیچتی ہے لیکن نقالوں کی طرح مختلف ’’یوم‘‘منانے میں کیا حرج ہے۔ ویسے کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ ہمیں بھی کوئی یوم ’’ایجاد‘‘ کرنا چاہئے۔پاناما کہ فیصلہ آ جائے (چاہے کچھ بھی ہو) تو ہمیں ’’یوم کرپشن‘‘ منانا چاہئے۔

.
تازہ ترین