• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
5مارچ کا پورا دن اور پوری شب ہماری تاریخ میں ایک یادگار حیثیت اختیار کر گئے ہیں کہ ان عظیم لمحات میں پورا ملک ایک تھا اور پوری قوم یک جہتی کی لڑی میں پروئی ہوئی نظر آئی۔ عوام کے اندر ایک عجب جوش و خروش اور خوف و دہشت کے ماحول سے نجات پانے کا ایک ناقابلِ شکست عزم پایا جا رہا تھا۔ سیاسی اور عسکری قیادت نے مشاورت اور عملی تعاون سے ایسے فول پروف انتظامات کیے کہ ایک دنیا دنگ رہ گئی۔ لاہور میں پی ایل ایس فائنل کھیلنے کی تجویز جناب نجم سیٹھی کی طرف سے آئی۔ وزیراعظم نوازشریف اس تصور کے زبردست حامی تھے، مگر آرمی چیف اور انہوں نے فرنٹ لائن پر آنے سے اجتناب کیا اور بڑی دانائی اور اچھی حکمتِ عملی سے کرکٹ میچ کا جو شاندار اہتمام کیا، اس نے قوم کے اندر ایک نئی رُوح پھونک دی۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنے تہنیتی پیغام میں اپنی بہادر قوم کو سلام پیش کرنے کے ساتھ ساتھ یہ مژدہ بھی سنایا کہ ہم نے دہشت گردی کو شکست دے دی ہے۔ بلاشبہ اُن کی انتظامیہ نے غیر معمولی مستعدی اور فرض شناسی کا ثبوت دیا اور سی سی پی او لاہور جناب امین وینس کی قیادت میں پولیس نے اپنے فرائض بڑی خوش اسلوبی سے ادا کیے، مگر یہ دعویٰ خلافِ حقیقت معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردی کو مکمل طور پر شکست دی جا چکی ہے۔
دراصل ملک میں جو فساد برپا ہے، اس کے اسباب نہایت گہرے اور پیچیدہ ہیں۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی کو پھلنے پھولنے کے مواقع ملتے رہے جن کی جڑیں مذہب کی چند غلط تعبیرات سے جڑی ہوئی ہیں۔ ان کا محض طاقت کے ذریعے تدارک نہیں کیا جا سکتا۔ مجھے یاد ہے کہ جب جون 2014ء میں آپریشن ضربِ عضب شروع ہوا، تو ڈی جی آئی ایس پی آر نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ چند مہینوں کے اندر اندر دہشت گردوں کا مکمل صفایا کر دیا جائے گا۔ اس آپریشن سے تقریباً نو دس ماہ پہلے کراچی میں آپریشن شروع ہو چکا تھا جس نے کراچی کا امن امان بحال کرنے میں قابلِ تحسین کردار ادا کیا، مگر ساڑھے تین سال گزر جانے کے بعد ’ردالفساد‘ آپریشن کی ضرورت محسوس ہوئی اور پنجاب میں بھی رینجرز فورس کو خصوصی اختیارات دینا پڑے، کیونکہ دہشت گردوں نے چاروں طرف سے پاکستان پر یلغار کر دی اور دیکھتے ہی دیکھتے لاشیں گرنے لگیں اور فوج اور پولیس کے اعلیٰ افسر اور جوان جامِ شہادت نوش کرتے رہے۔ تب یہ سوال بار بار پوچھا گیا کہ متعلقہ اداروں کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جاتا رہا کہ دہشت گردی کی کمر توڑ دی گئی ہے اور ان کے ٹھکانے مسمار کر دیے گئے ہیں، تو پھر اس قدر خوفناک یلغار کہاں سے ہو رہی ہے۔ غالباً حقیقت یہ ہے کہ حکومت اور عسکری قیادت کے اعلانات میں بہت زیادہ مبالغے سے کام لیا جاتا رہا، چنانچہ عوام اور فوج کی قوتِ مزاحمت میں کمی آئی اور دہشت گردوں کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع مل گیا۔
بدقسمتی سے بھارت جو ہمارا ہمسایہ ہے، اِس میں وہ انتہاپسند عناصر اقتدار میں ہیں جو پاکستان کو غیر مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسے اب امریکہ کی بھی اشیرباد حاصل ہے جو چین کے خلاف بھارت کو جنوبی ایشیا میں ایک عالمی طاقت کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے اور اسے جدید ترین اسلحے کے علاوہ عالمی حمایت فراہم کر رہا ہے۔ امریکی شہ پا کر بھارت نے افغانستان کے ذریعے پاکستان میں تخریبی سرگرمیوں کا ایک جال بچھا دیا ہے اور آئے دن پاکستان کی فوجی چوکیوں پر حملے ہو رہے ہیں، جبکہ دوسری طرف پورے خطے میں پاکستان کو تنہا کرنے کی مذموم کارروائیاں جاری ہیں۔ سارک سربراہ کانفرنس جس کا اجلاس پاکستان میں ہونے والا تھا، اس میں عدم شرکت کا اعلان کر کے بھارت نے ناکام بنا دیا۔ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس جو بھارت میں منعقد ہوئی، اسے پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی پوری کوشش کی گئی جو روسی قیادت نے ناکام بنا دی۔ پاکستان نے اسی ماہ اقتصادی تعاون تنظیم کا سربراہ اجلاس اسلام آباد میں نہایت قرینے سے منعقد کر کے بھارت کے برے عزائم بڑی حد تک خاک میں ملا دیے ہیں۔ دس میں سے نو ممالک کے سربراہ اجلاس میں شریک ہوئے، جبکہ مبصر کی حیثیت سے چین کو دعوت دی گئی تھی۔ اس کانفرنس میں تجارت، توانائی اور ٹرانسپورٹ میں باہمی تعاون بڑھانے اور چین پاک اقتصادی راہداری سے فائدہ اُٹھانے پر اتفاق ہوا جس سے ماہرین کے مطابق اس پورے خطے کا چہرہ دمک اُٹھے گا۔
پاکستان کی فتوحات یقیناً قابلِ فخر ہیں، مگر اسے دہشت گردی سے نجات حاصل کرنے کے لیے بہت سارے کام سرانجام دینا ہوں گے۔ اس کے سول ادارے بہت کمزور ہیں اور اس کا انتظامی اور سماجی ڈھانچہ حددرجہ بوسیدہ اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اس کا تعلیمی نظام فکری ابتری کا شکار ہے۔ اس کی معیشت یقیناً بہتر ہو رہی ہے، مگر اس کا عدالتی، معاشی اور پولیس کا نظام ناانصافیوں اور نفرتوں کو جنم دے رہا ہے۔ دینی روح کمزور پڑ جانے سے مذہبی شدت پسندی پروان چڑھ رہی ہے۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ کہ پورا معاشرہ اخلاقی طور پر زوال پذیر ہے۔ کتاب سے ہمارا رشتہ بہت کمزور پڑ چکا ہے جو ذہن کو اعلیٰ تخیلات اور جذبات سے روشناس کرتی اور زندگی میں توازن لاتی اور انسانی قدروں کے ساتھ گہری وابستگی قائم رکھتی ہے۔
ہمیں پچھلے دنوں ایک نہایت بیش قیمت کتاب ’اخلاقیات، اخلاقی قدریں اور تعمیرِ شخصیت‘ خود مصنف دینے کے لیے تشریف لائے۔ یہ بیش بہا تصنیف زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ چھ سو صفحات پر مشتمل اس ضخیم کتاب میں انسانی حقوق کا نہایت عمدگی سے احاطہ کیا گیا ہے۔ اس میں دفتری اخلاقیات پر بھی بحث ہوئی ہے اور تعزیت کی اخلاقی قدریں بھی صراحت سے بیان کی گئی ہیں۔ اس کے مؤلف مسرور اختر قریشی پیشے کے اعتبار سے انجینئر، مگر اصلاحی تحریک کے عظیم جذبوں سے سرشار ہیں۔ ہماری نظر میں یہ کتاب ہر گھر میں ہونی چاہیے تاکہ اخلاقی تربیت کا عمل بروئے کار آسکے۔
کراچی سے جناب طاہر مسعود کی ’اوراقِ ناخواندہ‘ موصول ہوئی اور قلب و نگاہ کو منور کر گئی۔ ڈاکٹر صاحب کراچی یونیورسٹی سے شعبۂ ابلاغیات کے چیئرمین کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ہیں اور ادب و صحافت پر گہرے نقوش ثبت کر گئے ہیں۔ ان کی اس تصنیف میں بڑی بڑی دینی، سماجی، علمی، فنونِ لطیفہ اور دفاع سے وابستہ شخصیتوں کے خاکے شامل ہیں جو فکروخیال کو تازگی عطا کرتے ہیں۔ زبان کوثروتسنیم میں دھلی ہوئی اور شگفتگی اور لطافت قدم قدم پر دامنِ دل اپنی طرف کھینچتی ہے۔ ان شخصی خاکوں سے باہمی انسانی رشتوں اور زندگی کی بوقلمیوں کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ بڑی بڑی شخصیتوں میں سید ابوالاعلیٰ مودودی، پروفیسر خورشید احمد، مولانا شاہ احمد نورانی، عبدالستار ایدھی، ڈاکٹر اشتیاق حسن قریشی، مجید نظامی، میر خلیل الرحمٰن، فرہاد زیدی، ضمیر نیازی، پیرزادہ قاسم، زاہدہ حنا، انور شعور، ڈاکٹر اسلم فرخی، ایس ایچ ہاشمی اور ایئر مارشل (ر) محمود اختر شامل ہیں۔ جناب مشتاق احمد یوسفی کا خاکہ خاص طور پر پڑھنے کے قابل ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنا ہی ایک مکتبہ کراچی میں قائم کیا ہے۔
اور اگر آپ گردشِ ایام کی رعنائیوں، آزمائشوں اور بھول بھلیوں سے لطف اندوز ہونا چاہیں، تو جناب محمد فاروق چوہان کی تازہ تصنیف ’گردشِ ایام‘ ضرور پڑھیے۔ اس میں پاکستانی سیاست اور عالمی مسائل پر چشم کشا تجزیے شامل ہیں۔

.
تازہ ترین