• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہنسنے کے بہت سے مواقع سیاستدان پیدا کرتے ہیں، فنکار تو ایسے ہی مشہور ہیں۔ فنکاروں اور سیاستدانوں میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ فنکار ہمیشہ لکھی ہوئی باتیں بیان کرتے ہیں جبکہ ہمارے سیاستدان لکھنے پڑھنے کی تکلیف کئے بغیر بہت کچھ زبانی کہہ دیتے ہیں۔ اس کہے پر ہنسی کون روک سکتا ہے، مثلاًوزیر اعلیٰ شہباز شریف کا فرمانا ہے کہ .....’’امیروں نے قرضے ہڑپ کئے، کوئی پوچھنے والا نہیں....‘‘ پتہ نہیں چھوٹے میاں صاحب کن لوگوں کو امیر کہہ رہے ہیں اور وہ کون سے امیر لوگ ہیں جنہوں نے قرضے ہڑپ کئے۔ اچھا تو یہ تھا کہ وہ ایسے لوگوں کے نام بھی بتادیتے، انہوںنے نہلے پہ دہلا مارا ہے کہ کوئی پوچھنے والا بھی نہیں۔ قرضے ہڑپ کرنے والوں کو ہمیشہ حکومتیں ہی پوچھتی ہیں پتہ نہیں اپنی حکومت ہونے کے باوجود وہ کس سے مطالبہ کررہے ہیں کہ کوئی آکر ایسے لوگوں کے بارے میں پوچھے، کوئی ایسے لوگوں سے حساب لے۔ ویسے بینکنگ اور معیشت کی دنیا میں رہنے والے میرے ایک دوست سید عمار گیلانی کہتے ہیں کہ بنکوں نے کبھی کسی ضرورت مند کو ایک روپیہ نہیں دیا،ضرورت مند سے مراد حقیقی ضرورت مند ہے، بنک ہمیشہ تگڑے اور امیر بندوں کو قرضے دیتے ہیں اور وہی لوگ پھر قرضے ہڑپ کرجاتے ہیں ان میں سے اکثریت ایسے امیروں کی ہوتی ہے جن کا کوئی نہ کوئی اعلیٰ حکومتی پوزیشن میں ہوتا ہے۔ بنک قرضہ ہڑپ کرنے والوں کے بارے میں شکایات کرتے ہیں تو حکومتیں انہیں چپ کروا دیتی ہیں، اگر بنک مختلف اداروں کو بتائیں تو حکومتیں اداروں کو خاموش کروادیتی ہیں۔ اس ساری ہیرا پھیری میں حکومتوں ہی کا کردار ہوتا ہے۔ پوچھنا حکومتوں نے ہوتا ہے یا عام آدمی نے؟
ویسے تو لوگوں کوخادم اعلیٰ پر شاید زیادہ اعتبار اس لئے نہیں رہا کہ وہ جلسوں میں زرداری سے دولت واپس لینے کا اعلان کیا کرتے تھے، جوش خطابت میں گھسیٹنے کی باتیں بھی کرجاتے تھے۔ وہ علی بابا چالیس چور کا تذکرہ بھی کیا کرتے تھے۔ سمجھدار لوگ تو اس وقت بھی ہنستے تھے، آج بھی ہنستے ہیں۔ جب وہ حبیب جالبؔ کی نظمیں گا گا کر سنایا کرتے تھے، میرے کئی دوست کہتے تھے کہ میاں شہباز شریف کس کے خلاف نظمیں گا رہے ہیں۔ حالات نے سچائی کا رخ پھیرا تو زرداری کو گھسیٹتے گھسیٹتے حکمرانوں کا پورا خاندان پاناما کے چکر میں آگیا۔ اب انہیں پوری قوم پاناما میں گھسیٹ رہی ہے، اگر آپ کو یقین نہ آئے تو سوشل میڈیا کا طواف کرلیں، آپ کو پہلے چکر ہی میں بہت کچھ مل جائے گا۔
چونکہ خواجہ آصف نے کہا تھا....’’کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے‘‘۔ مجھے پتہ نہیں کیوں قومی اسمبلی میں خواجہ صاحب کے ادا کئے ہوئے جملے یاد آجاتے ہیں جب میں انہی کی پارٹی کے لوگوں کی ادائیں دیکھتا ہوں، مثلاً وزیر اعلیٰ پنجاب کا ایک بیان روزنامہ جنگ کی زینت بنا ہوا ہے جس میں موصوف فرمارہے ہیں کہ’’چار سو ارب کا قرضہ ہڑپ کرنے والے آج ایمانداری کا بھاشن دے رہے ہیں...‘‘۔میں ایک سادہ دیہاتی آدمی ہوں مجھے نہیں پتہ کہ انہوں نے کس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اس نے چار سو ارب ہڑپ کئےہیں۔ بہتر ہوتا کہ وہ قوم کو ایسی شخصیات کے بارے میں آگاہ کردیتے تاکہ قوم کو ایسی بابرکت کرشماتی شخصیات کا پتہ چل جاتا، فی الحال تو قوم کے سامنے انتظار کی گھڑیاں ہیں وہ ایک محفوظ کئے گئے فیصلے کا انتظار کررہی ہے۔ ویسے موجودہ حکومت میں شامل وزراء بھی قول کے پکے ہیں مثلاً حکومت بنتے ہی ایک ٹی وی پروگرام میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا تھا کہ....’’اگر ایک سال میں امن و امان بحال نہ ہوسکا، ہم معیشت ٹھیک نہ کرسکے، مسائل حل نہ کرسکے تو میں حکومت سے الگ ہوجائوں گا‘‘۔ امن وامان کے بارے میں قوم کو پتہ ہے کہ وہ گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں کتنا بحال ہوا، معیشت کے بارے میں بھی سب کو پتہ ہے کہ وہ کتنا عروج پاچکی ہے، ڈار صاحب نے قوم کو نیا لالی پاپ دیا ہے، انہوں نے خواتین ڈے کے موقع پر خواتین سے زیادہ کوریج لینے کی کوشش کی۔ انہوں نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ’’وہ سوئس حکومت سے ایک ایسا معاہدہ کرنے جارہے ہیں جس سے معیشت میں بہتری آئے گی کیونکہ سوئٹرز لینڈ میں پاکستانیوں کے80سے دو سو ارب ڈالرز موجود ہیں۔ سوئس حکومت معاہدے کے تحت معلومات فراہم کرے گی‘‘۔ یہ معاہدہ اسلام آباد میں ہوگا، جس پر سوئس وزیر اور اسحقٰ ڈار دستخط کریں گے مگر افسوس کہ اس کے باوجود اربوں ڈالرز واپسی کا خواب چکنا چور رہے گا، دولت پاکستان نہیں آئے گی، اس پر واجب الادا ٹیکس رقم ہی واپس ملے گی۔
خطرات کے مرحلے پر کوئی نہ کوئی ایسا بیان سامنے آتا ہے جسے پڑھ کر لگتا ہے کہ ان سے زیادہ ملک سے کوئی مخلص نہیں مگر حقیقت اس سے مختلف ہوتی ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ( ن) میں پل کا کردار ادا کرنے والے اسحقٰ ڈار کو وہی حیثیت حاصل ہے جو ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی میں رحمن ملک کو حاصل تھی۔ مجھے آج دو اور وزراء کے بیانات بھی یاد آرہے ہیں مثلاً احسن اقبال اور خواجہ سعد رفیق نے مشرف کے حوالے سے بلند و بانگ دعوے کئے تھے کہ اگر جنرل مشرف کو جانے دیا تو ہم سیاست ہی چھوڑ دیں گے۔ قوم اس کا بھی انتظار کرتی رہی مگر ایسا نہ ہوسکا۔ ایک اور شخصیت جس کا تعلق حکومتی پارٹی سے ہے وہ کہا کرتی تھی کہ...’’آپ کو پتہ ہے مجھے جھوٹ بولنا نہیں آتا‘‘ واضح رہے کہ وہ یہ بات بھرے جلسوں میں کرتے رہے پھر قوم نے منظر دیکھا کہ انہوں نے ٹی وی خطابات میں کچھ اور کہا اور پارلیمنٹ کے روبرو کچھ اور کہا اور پھر عدالت میں ان کا موقف بالکل ہی اور سامنے آیا۔
سچ پوچھئے کہ ان حالات میں مجھے ان سب سے بہتر حمزہ یوسف لگا جس نے ا سکاٹش وزیرکے طور پر اردو زبان میں حلف ا ٹھایا، اس نے بیرون ملک بھی وطن سے محبت کا اظہار کیا مگر ہمارے حکمران ابھی تک اردو کو نافذ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود اردو آج بھی دوسرے نمبر پر ہے کیونکہ ہمارے حکمران اردو سے مخلص ہی نہیں ہیں۔ وہ آج بھی بیرونی دوروں پر مغربی لباس پہن کر خوش ہوتے ہیں، ان کے نزدیک غلامی میں شا ہی ہے جبکہ قوم کے نزدیک ’’اپنا دیس، اپنا بھیس‘‘ ہی شاہی ہے۔ مقام فکر ہے مگر یہاں سوچتا کون ہے کیونکہ غلاموں کی سوچیں بھی غلام ہوتی ہیں بقول اقبالؒ ؎
کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پے رضامند
تاویل مسائل کو بناتے ہیں بہانہ

.
تازہ ترین