• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سوشل میڈیا پر ہر ایک کے پاس اپنے مخالفین کے خلاف گند اچھالنے کا لائسنس ہے نہ کوئی چیک ہے اور نہ کوئی روک ٹوک یہاں تک کہ توہین رسالتؐ بھی کی جاتی ہے اور ان گستاخوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے والا کوئی نہیں۔ ہماری اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوگی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے حکم دیا ہے کہ سوشل میڈیا سے گستاخانہ مواد فوراً ہٹایا جائے اور ایسا گناہ کرنے والوں کے نام ای سی ایل پر ڈالے جائیں۔ یہ بہت ہی مستحسن حکم ہے۔ اب متعلقہ حکام کے پاس کوئی چارہ نہیں کہ وہ اس پر عملدرآمد نہ کرے ورنہ وہ سزا کے مستحق ہوںگے۔ اس حکم سے قبل بھی حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ اس سنگین مسئلے پر توجہ دیتی مگر ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے فرائض تو صحیح طور پر نبھاتے نہیں ہیں اور دوسروں پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بجا طور پرکہا ہے کہ سوشل میڈیا آزادی اظہار رائے نہیں جھوٹ کے تحت کام کر رہا ہے سوشل میڈیا پر جعلی تصویر کے ذریعے ملک کی اعلیٰ عدالتی شخصیت کو متنازع بنانے کے معاملے پر ایف آئی اے نے اپنی رپورٹ ان کو پیش کر دی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ فیس بک انتظامیہ نے اس کردار کشی سے متعلق مطلوبہ ریکارڈ کی فراہمی سے انکار کردیا ہے اور امریکی حکومت نے بھی تعاون سے معذرت کر لی ہے۔ پچھلے سال ہونے والے امریکہ میں صدارتی انتخاب کے دوران بھی تین بڑی جعلی خبروں نے کافی شہرت حاصل کی جس کا مقصد ہیلری کلنٹن کو نقصان اور ڈونلڈ ٹرمپ کو فائدہ پہنچانا تھا۔ اس کے بعد امریکی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بڑے زور شور سے بحث شروع ہوئی کہ فیس بک انتظامیہ کو جعلی خبریں روکنے کیلئے فلٹر لگانا چاہئے۔
جب سے پاکستان میں سوشل میڈیا کا استعمال عام ہوا ہے یہاں بھی بہت جھوٹ پھیلایا جارہا ہے۔ کسی کی عزت محفوظ نہیں اور جو جس کے دل میں آتا ہے وہ دوسرے کے خلاف فیس بک اور ٹوئٹر پر پوسٹ کر دیتا ہے۔ اس میڈیا کے ذریعے پاکستان کے بہت سے اہم اداروں اور شخصیات کے خلاف بھی بے بنیاد زہریلا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ کم ہی ہوا ہے کہ ایسے افراد پر قانون کا لمبا ہاتھ پہنچ سکے۔ ہتک عزت اور توہین عدالت کا قانون بھی صحیح طور پر استعمال نہیں کیا جارہا۔ جس دن یہ قوانین استعمال ہونا شروع ہوگئے بہت سے ایسے منفی عناصر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔ نہ صرف کئی اشخاص اپنی انفرادی حیثیت میں سوشل میڈیا کامنفی استعمال کر رہے ہیں بلکہ کچھ سیاسی جماعتیں بھی اس میں اپنا حصہ ڈالتی رہتی ہیں۔ یہ نہ صرف اپنے مخالفین کے خلاف بہتان تراشی کرتی ہیں بلکہ یہ ان افراد کو بھی نہیں بخشتیں جو کہ ان کے ناقد ہوتے ہیں۔ یہ تو رہی اس میڈیا کی منفی سائیڈ تاہم اس کے بہت سے مثبت پہلو بھی ہیں۔ سوشل میڈیا پر انتہائی سستے ریٹس پر اپنا پیغام دیا جاتا ہے اور سیاستدان اور سیاسی جماعتیں اپنے منشور، پالیسیوں اور سرگرمیوں کو اجاگر کرتی ہیں۔ یہ سب سے تیز میڈیا ہے جس کے ذریعے چند سیکنڈز میں ہزاروں ، لاکھوں افراد تک اپنا پیغام پہنچایا جاسکتا ہے۔ تاہم اس کا منفی استعمال بہت ہی خطرناک ہے کیونکہ اس سے بے شمار افواہیں، سازشیں اور جعلی خبریں پھیلائی جاتی ہیں جن کا مقصد لوگوں کو گمراہ کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان میں سائبرلا تو بن گیا ہے مگر دوسرے قوانین کی طرح اس پر بھی عملدرآمد کم ہی ہو رہا ہے۔ جب جھوٹ پھیلانے اور کردار کشی کرنے والے عناصر کو یہ علم ہو جائے گا کہ ان کے غلط اقدام فوراً قانون کے شکنجے میں آجائیں گے تو سوشل میڈیا کے استعمال میں کافی بہتری آجائے گی۔
کئی سالوں سے یہ بات بار بار دہرائی جارہی ہے کہ بے شمار دولت مند پاکستانیوں نے دو سو ارب ڈالر کے لگ بھگ اپنے ملک سے غیر قانونی طور پر لے جا کر سوئس بینکوں میں جمع کرائے ہوئے ہیں۔ یا تو یہ کرپشن منی ہے یا یہ ایسی دولت ہے جس پر ٹیکس اد انہیں کیے گئے اور اسے غیر قانونی طریقے سے حوالہ یا ہنڈی کے ذریعے پاکستان سے باہر منتقل کیا گیا ہے۔ اب یہ صحیح طور پر معلوم ہو سکے گا کہ اس میں کتنی سچائی ہے۔ 21 مارچ کو پاکستان اور سوئٹزرلینڈ ایک معاہدے پر دستخط کریں گے جس کے مطابق سوئٹزرلینڈ پاکستان کو لوٹی دولت کی معلومات دینے کا پابند ہوگا۔ کئی سالوں سے وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار اس پر کام کر رہے تھے اور بالآخر انہوں نے یہ معرکہ سر کر لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی شرائط پر یہ معاہدہ کیا ہے اور سوئٹزرلینڈ کی شرائط بشمول ٹیکسوں کی شرح میں کمی اور اسے پسندیدہ ترین ملک قرار دینے، نہیں مانیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان معلومات کا تبادلہ اگلے سال شروع ہو جائے گا۔ اس پر عملدرآمد کے فوراً بعد حکومت کو چاہئے کہ وہ سوئٹزرلینڈ سے مکمل معلومات لے کہ کون سے پاکستانیوں نے کتنی دولت سوئس بینک میں جمع کروائی ہے اور اس کے علاوہ ان کے وہاں کیا کیا اثاثے ہیں۔ اس کے بعد حکومت کو مکمل تحقیقات کرنی چاہئے کہ کیا یہ دولت جائز یا ناجائز طریقے سے پاکستان سے باہر منتقل کی گئی اور کیا یہ رشوت سے حاصل کی گئی تھی یا نہیں۔
اس سارے معاملے کو شفاف رکھنا چاہئے اور عام لوگوں کو ان افراد کے چہرے ضرور دکھانے چاہئیں جنہوں نے غیر قانونی کام کیا ورنہ یہ پروپیگنڈا ہوتا ہی رہے گا کہ پاکستان سے دو سو ارب ڈالر سے زائد کے اثاثے غیر قانونی طور پر باہر منتقل کئے گئے ہیں اور یہ ساراسیاستدانوں کا کیا دھرا ہے۔ جب پاناما پیپرز کے آف شور کمپنیوں کے بارے میں انکشافات سامنے آئے تو کئی سو پاکستانیوں کے نام بھی اس میں ظاہر ہوئے۔ تاہم اس لسٹ پر غور کرنے سے معلوم ہوا کہ اس میں سیاستدانوں کی تعداد انتہائی کم ہے اور اس میں سب سے زیادہ بزنس مین تھے۔ گند اچھلا تو صرف سیاستدانوں پر اور بزنس مینوں کا کسی نے نام بھی نہیں لیا۔ وہ سیاستدان جو حکومت میں ہیں یا رہے ہیں کا کڑا احتساب ضرور ہونا چاہئے کیونکہ ٹیکس پیئرز منی کا سوال آتا ہے مگر غیر قانونی کام تو غیر قانونی ہے چاہئے وہ کوئی سیاستدان کرے یا بزنس مین۔ پانامہ پیپرز کے بارے میں تحقیقات کا فوکس صرف اور صرف وزیراعظم نوازشریف کے بچوں کی آف شور کمپنیوں پر ہے اور جب فیصلہ آجائے گاتو پانامہ لیکس کا سارا مسئلہ سرے سے ختم ہی جائے گا یعنی باقی جو سینکڑوں نام پانامہ پیپرز میں تھے ان کے بارے میں کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔ خود چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور ان کے دست راست جہانگیر ترین اور علیم خان بھی آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں مگر ان سب کا احتساب پیچھے رہ گیا ہے اور اس کا ذکر کم ہی ہو رہا ہے جبکہ سارا شوروغوغا وزیراعظم کے خلاف رہا ہے۔ ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ ہم دوسروں کیلئے تو ہر میدان میں بڑے اعلیٰ اسٹینڈرز کا مطالبہ کرتے ہیں اور خود ان پر پورا اترنے پر تیار نہیں ہوتے۔

.
تازہ ترین