• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ عنوان دراصل ہے اختر وقار عظیم کی کتاب کا، مگر میں اس کو استعمال کررہی ہوں، ریختہ کانفرنس دہلی کا ہولناک انجام تو آپ سب نے اخباروں میں پڑھ لیا ہوگا، ہولناک میں نے کیوں کہا، اس لئے کہ کانفرنس تو اردو کے نام پر تھی، مجھے جب بار ہا کہا گیا کہ آپ ضرور آئیں تو میں نے کہا ٹکٹ بھیجو اور بتائو کہاں ٹھہروں گی، یہ بھی کہا پروگرام بتائیں، آپ آئیں گی تو پروگرام آپ کو مل جائیگا، میں چلی گئی، اصل میں ہم دونوں ملکوں میں کہا تو جاتا ہے ادبی کانفرنس، مگر اس میں ادب کا چھینٹا کم اور سیاست کا قورمہ زیادہ ہوتا ہے، باقی مزے کے لئے فلمی شخصیات کو اور وہ بھی فلمی لوگ جو ہر اول دستے کے طور پر نہیں بلکہ ’’بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں، تنہائی جنہیں دہراتی ہے‘‘ والا واقعہ ہوتا ہے، اس لئے بہت مجمع لگا جب گلزار صاحب نے اپنی نظمیں سنائیں، چاہے سمجھ میں آئیں کہ نہیں، جب شرمیلا ٹیگور آئیں اور جب جاوید صدیقی نے بتایا کہ انہوں نے سو سے زائدفلمیں لکھی ہیں تو ایک دم تالیاں بجیں، البتہ ڈاکٹر نارنگ نے جب خسرو کی شاعری کا احاطہ کیا اور ڈاکٹر شمیم حنفی نے فراق صاحب کی غزلیں کم اور رباعیات پہ اور ان کی ذاتی زندگی پر باتیں کہیں تو ان دونوں سیشن میں ہم سب ادیب یعنی قاضی افضال، انیس اشفاق، شیخ عشائی، قدوائی صاحب، اکھٹے بیٹھے بھی اور آپس میں باتیں بھی کیں، بے چارے جون ایلیا پربہت برا وقت آیا تھا کہ سیاسی نوجوان شری واستو نے جون کا کلام گایا اور پڑھا بھی ۔
لندن سے لیکر ٹورنٹو اورآسٹریلیا تک، اردو کو طرح طرح سے فروخت کیا جارہا ہے، اپنے ملک میں بھی فیکٹری مالکان کو ٹیکس بچانے کی خاطر، ایسے منڈوے لگانے میں بہت مزا آتا ہے، خیر چلو اس طرح ہمارے بہت سے شاعروں اور ادیبوں کو غیر ممالک دیکھنے اور بعد میں آکر سفرنامہ لکھنے کے بعد، اہل کتاب ہونے کا شرف مل جاتا ہے، انڈیا میں مشاعرے بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں، اب تو وہاں مشاعرہ اور کوی سمیلن اکھٹا ہوتا ہے، ایسے پروگراموں میں ہندی کے ممتاز شاعر ہیں، اکثر لطیفہ گو اور اردو کے ترنم پہ تالیاں، بجوانے والے شاعرشریک ہوتے ہیں، ویسے بھی شہریار کے بعد، اردو کے قابل ذکر شاعر، وہاں ہیں بھی نہیں، مظفر ابدالی ہوکہ عبید صدیقی، یہ سنجیدہ شاعر ہیں، مگر مشاعروں میں کم بلوائے جاتے ہیں، ریختہ کے مشاعرے میں بھی ان لوگوں کے نام نہیں تھے۔
انڈین ٹی وی لگانےکا کوئی بھی چینل ہو کوئی فائدہ نہیں تھا کہ الیکشن کا موسم ہے اور ہر طرف شکوہ، جواب شکوہ کے طور پر الیکشن لڑوانے والے اپنی اپنی بولیاں بول رہے تھے، انڈیا کے اینکر، ہمارے ملک کے ابوالفضل اور فیفی جیسے خود اعتماد لوگ جتنا بس چلتا، پاکستان کو مغلظات سنارہے تھے، البتہ انڈین نیشنل ٹیلی وژن پر خوبصورت کلاسیکی موسیقی، کبھی شاعروں خاص کہ فیض صاحب کی جیل کی زندگی پر دستاویزی فلم اور دیگر ادبی تحاریک پر مذاکرے اورکلاسیکی رقص دکھا رہے تھے۔
میں نے ادیبوں کے علاوہ بزنس سے متعلق اصحاب خاص کر کپڑے کے تاجروں سے پوچھا کہ ایکدم ہزار اور پانچ سو کے نوٹ منسوخ ہونے اور اے ٹی ایم سے بس دوہزار روپے نکالنے کی بندش نے آپ پر کیا اثرات چھوڑے، انہوں نے ہاتھ جوڑ کر کہا ’’خدا کسی پر ایسا برا وقت نہ لائے، ہمارے تو کاروبار ٹھپ ہوگئے تھے، سردیوں کے نئے کپڑے خریدنے کوئی آیا ہی نہیں، شادیوں میں پانچ پانچ تقریبات کی جگہ، ایک تقریب اور وہ بھی مشترکہ ہوتی رہی، گھر والی خواتین سے پوچھا کہ گھر میں ہنڈیا کیسے پکتی رہی، سبزی، مصالحے اور آٹا کیسے آتا رہا، انہوں نے کانوں کو ہاتھ لگاکرکہا‘‘ کبھی بنا پیاز تو کبھی گھر میں موجود دالوں سے گزارہ کیا، کبھی ایک دوسرے سے مانگ تانگ کر گھرکا ایندھن چلایا، پوچھا ’’اور اب، بھئی بنک سے جاکر آپ پیسے نہیں نکال سکتے ہیں، اے ٹی ایم سے وہ بھی بس دوہزار، میں نے کہا یہ تو اچھا ہے، لوگوں کو یوں بچت کی عادت پڑ جائیگی، یہ بات جاکے پوچھیں ہمارے گائوں کے اور ان پڑھ لوگوں سے، ویسے یعنی اے ٹی ایم میں کبھی پیسے ہوتے ہیں، کبھی نہیں، مجھے یاد آیا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں بھی تو اے ٹی ایم کو استعمال کرنے کا شور مچا تھا، وہاں بھی غریبوں کو اے ٹی ایم استعمال کرنا نہیں آرہا تھا۔
جب میں انڈین چینلز سے بیزار ہوکر بمشکل بی بی سی، تلاش کرسکی تو ایسی خبر سنی کہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی، قلندرشاہ کے مزار کے احاطے میں ہر جمعرات کو دھمال پڑتی ہے، یہ وہاں کےلوگوں کے یقین کا حصہ ہے کہ دھمال ڈالتے ہوئے شاہ کے مزار پر منت مانو تو پوری ہوجاتی ہے، بھلا کس نے منت مانی ہوگی کہ مجھے موت آجائے، میں اس ملال میں کمرے میں چپ بیٹھی تھی کہ رنجیت اور پرویز کے ساتھ دوسرے صحافی بھی آگئے، اس وقت کشمیری پروفیسرز بھی آگئے، موضوع بدلنے کے لئے میں نے ان سے وہاں کے حالات پوچھے تو ان کی آنکھوں سے بھی آنسو ٹپکنے لگے، میں نے کہا، بتائو تو سہی کشمیری چاہتے کیا ہیں، بولے، ایک گروپ چاہتا ہے کہ ریفرنڈم ہو، مگر دونوں کشمیر کے حصوں کو ملاکر، جس پر پاکستانی کشمیر والے راضی نہیں، ایک گروپ دونوں کشمیر کو ملا کر آٰزاد ریاست بنانا چاہتا ہے، میں نے کہا اس پر بھی، دونوں حکومتیں راضی نہیں ہونگی، مختصر یہ کہ دونوں ممالک تعصب کا جنون اور دہشت گردی چھوڑیں تو سوفٹ بارڈر کردیئے جائیں اور ایٹم بم کی دھمکیاں بند ہوں، شاید یہ دھمکیاں ہی تھیں کہ مجھے ریختہ میں پڑھنے ہی نہیں دیا گیا۔

.
تازہ ترین