• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک دن پہلے اخبارات کے مطابق ایم کیو ایم کا ایک گروپ جو خود کو ایم کیو ایم پاکستان کہتا ہے کی طرف سے ڈاکٹر فاروق ستار، خواجہ اظہار اور ان کے چند اور ساتھیوں نے ہونے والی مردم شماری ان کے مفادات کے مطابق ’’شفاف‘‘ کرانے کے لئے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن داخل کی ہے جس میں کئی ایسے نکات اٹھائے گئے ہیں اور کئی ایسے ریمارکس پاس کیے گئے ہیں جن کے نتیجے میں سندھ بھر میں ایک ایسا تاثر پیدا ہورہا ہے جو بہرحال کسی طور پر بھی سندھ کی مختلف برادریوں کی یک جہتی کے حق میں نہیں ہے‘ اس پٹیشن کے بارے میںمجھے سندھ بھر سے کئی سندھی نوجوانوں کے ٹیلی فون آئے جو کافی غم و غصے سے بھرے ہوئے محسوس ہورہے تھے، اسی دوران اس قسم کی بھی اطلاعات آرہی ہیں کہ سندھ کے کچھ ممتاز وکیل اور کچھ سیاسی پارٹیاں بھی شاید سپریم کورٹ میں درخواستیں دیکر اس پٹیشن میں فریق بننے کی کوشش کریں، مزید پریشان کن بات یہ ہے کہ اسی دوران مجھ سے ایک سندھی نوجوان ملنے آئے اور ان کے پاس ایک اخبار کا تراشہ تھا جس میں ایم کیو ایم پاکستان کے انہی رہنمائوں کا ایک بیان شائع ہوا تھا جس میں اعلان کیا گیا تھا کہ اگر سندھ میں مردم شماری شفاف طریقے سے ہوئی تو کراچی میں ایم کیو ایم کی صوبائی نشستوں میں اتنا اضافہ ہوگا کہ سندھ میں حکومت ہم بنائیں گے۔ یعنی اگر ان کے کہنے کے مطابق اس طرح شفاف مردم شماری ہوئی تو کراچی میں تو ایم کیو ایم پاکستان کی حکومت ہوگی مگر ہوسکتا ہے کہ سندھ صوبہ بھی ایم کیو ایم کی دسترس میں آجائے ۔ مجھے یہ خبر دکھاتے ہوئے اس سندھی نوجوان نے انتہائی غصے اور دکھ کے ساتھ کہا کہ ہمارے یہ دوست تو پتہ نہیں کس کے کندھے پر چڑھے ہوئے ہیں اور کسی طور پر بھی بشمول کراچی سارے سندھ کو اپنی تحویل میں لانا چاہتے ہیں! یہ کہہ کر اس نوجوان نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ سندھ کے کالونی بننے اور سندھیوں کے ریڈ انڈین بننے کے دن قریب آگئے ہیں۔ میں ابھی ان کو سمجھا رہا تھا کہ اس خبر کا اثر قبول کرنے کی ضرورت نہیں‘ کراچی شہر اور سارےسندھ کے اردو بولنے والوں کی اکثریت مثبت سوچ رکھتی ہے اور باقی سندھی‘ بلوچ و دیگر برادریوں کے بھائیوں کے ساتھ امن سے رہنا چاہتے ہیں‘ ابھی ہماری یہ گفتگو ہورہی تھی کہ چھ نوجوانوں کا ایک گروپ وہاں آکر رکا ان کے ہاتھ میں جمعرات 16فروری کا سندھی اخبار عوامی آواز تھا اور انہوں نے وہ اخبار میرے سامنے رکھ کر اس اخبار کی ’’سپر لیڈ‘‘ خبر کی طرف اشارہ کیا، ان کے چہرے خوشی سے مہک رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے کراچی کی سول سوسائٹی کے اردو بولنے والے بھائی تو ہم سندھیوں سے بھی بڑھ کر سندھی ہیں، وہ اتنے پرجوش تھے کہ مجھے وہ خبر بھی پڑھنے نہیں دے رہے تھے‘ ان کا مطالبہ تھا کہ ہم ان سندھ کے اصل سپوت‘ جو اردو بولنے والے ہیں سے فوری طور پر ملنا چاہتے ہیں‘ بہرحال بعد میں انہوں نے مجھے یہ خبر پڑھنے کا موقع فراہم کیا‘ میں اس خبر کا مکمل متن یہاں پیش کررہا ہوں جو اس طرح ہے : پاکستان آرٹس کونسل کراچی کے سیکرٹری سید احمد شاہ‘ مشہور مزدور رہنما اور این جی او ’’پائلر‘‘ کے کرامت علی‘ سندھ لیبر کمیٹی کے حبیب جنیدی‘ عورت فائونڈیشن کی مہناز الرحمان‘ مقتدا منصور‘ ڈاکٹر جعفر احمد‘ شیما کرمانی اور دیگر نے بدھ کو آرٹس کونسل میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں پنجاب کی بالادستی ختم کرنے کے لئے پنجاب کی نشستیں 45فیصد کرنے کی تجویز دی۔ انہوں نے کہا کہ انتخابی اصلاحات وقت کی ضرورت ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ملکی سلامتی کی خاطر ملک کی ساری وحدتوں کو اقتدار میں مساوی نمائندگی دی جائے اور ساتھ ہی یہ بھی مطالبہ کیا کہ اقلیتوں‘ خواتین‘ مزدوروں‘ ہاریوں اور فن ثقافت سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو بھی اقتدار میں حصہ اور اسمبلیوں میں نمائندگی دی جائے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سماج میں ان لوگوں کے ساتھ ناانصافی اور مساوی حقوق نہ ملنے اور اسمبلیوں میں ورکنگ کلاس کی نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے معاشرہ ترقی نہیں کرسکے گا۔ انہوں نے کہا کہ 2014ء میں پارلیمنٹ نے انتخابی اصلاحات کے بارے میں تجاویز مانگی تھیں ان کے ردعمل میں سول سوسائٹی کے کچھ نمائندوں نے اپنی تجاویز ان کو ارسال کی تھیں مگر ان میں سے ایک تجویز کو بھی ان اصلاحات میں شامل نہیں کیا گیا اور بل پارلیمنٹ نے پاس کردیا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت قومی اسمبلی میں نشستوں کی تعداد 342ہے۔ 50فیصد نشستوں پر بیشک حلقہ بندیوں کی بنیاد پر انتخابات کرائے جائیں جبکہ باقی 50 فیصد نشستوں پر سیاسی پارٹیوں کی متناسب نمائندگی کی بنیاد پر مزدوروں، ہاریوں، خواتین، اقلیتوں اور ثقافت کے شعبے سے تعلق رکھنے والوں کو نامزد کیا جائے۔ انہوں نے خاص طور پر تجویز دی کہ خواتین اور اقلیتوں کے لئے 33,33فیصد نشستیں مخصوص کی جائیں۔ سول سوسائٹی کے ان اردو بولنے والے دانشوروں نے مطالبہ کیا کہ سندھ کے اصل باشندوں کے لئے سندھ اسمبلی میں 55فیصد نشستیں مخصوص کی جائیں اور قومی اسمبلی میں پنجاب کی نشستیں 45فیصد کی جائیں تاکہ سارے پاکستان پر پنجاب کی بالادستی ختم ہوسکے کیونکہ تینوں صوبوں کی نشستیں ملاکر بھی پنجاب کی نشستوں سے کم ہوتی ہیں۔ انہوں نے خاص طور پر یہ مطالبہ دہرایا کہ سندھ اور بلوچستان کی نشستوں میں مطلوبہ اضافہ کیا جائے۔ انہوں نے زور دیکر کہا کہ کراچی میں دوسرے صوبوں سے بڑی تعداد میں لوگ آکر آباد ہوئے ہیں اس وجہ سے کراچی میں سندھیوں کی تعداد اقلیت میں تبدیل ہونے کا خطرہ ہے لہذا سندھ اسمبلی میں سندھ کے اصل باشندوں کے نمائندوں کی نشستیں 55 فیصد مخصوص ہونی چاہئیں اور قومی اسمبلی میں بھی ان کے لئے اسی انداز میں نشستوں کا اضافہ ہونا چاہئے‘ میں فی الحال ان تجاویز کے بارے میں اپنی رائے محفوظ رکھتا ہوں اور خاص طور پر گجراتی میمن ڈاکٹر فاروق ستار‘ خواجہ اظہار اور ان کی جماعت کے دیگر ممبران سے درخواست کروں گا کہ وہ انتہائی خلوص سے کراچی کی سول سوسائٹی کے ان اردو دانشوروں کی تجاویز کا گہرائی سے جائزہ لیں اور اپنے موقف کو درست رخ دیں‘ اس میں سب کا بھلا ہے۔ میں سندھ کے پرجوش نوجوانوں سے اپیل کروں گا کہ وہ ایم کیو ایم کے ان رہنمائوں کے بیان پر کوئی شدید ردعمل ظاہر نہ کریں اور انتظار کریں۔ ہوسکتا ہے کہ ایم کیو ایم کے یہ رہنما اپنے رویے تبدیل کردیں، ورنہ ان کے لئے راستہ کھلا ہے کہ وہ کراچی کی سول سوسائٹی کے لبرل اور ترقی پسند اردو دان دانشوروں سے مل کر کوئی مشترکہ لائحہ عمل تیار کریں۔

.
تازہ ترین