• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریک ِ انصاف کے سربراہ عمران خان فرماتے ہیں کہ پاکستان سپرلیگز کے لئے لائے گئے کھلاڑی ’’پھٹیچر‘‘ تھے اور اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ باہر سے جو کھلاڑی آئے ہم ان کے نام بھی نہیں جانتے۔ انصاف کی بات ہے اور انصاف کا تقاضا ہے کہ عالمی سطح پر کھیلنے والے کھلاڑیوں کے اگر عمران خان نام بھی نہیں جانتے تو پھر ’’پھٹیچر‘‘ کہلانے کا حق دار کون ہوگا؟ اپنے منہ سے عمران خان جیسے عالمی سطح کے کرکٹ کے سابق کھلاڑی کو ’’پھٹیچر‘‘ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ کوئی اچھا اور مہذب لفظ نہیں ہے۔دوسرے ملکوں سے آ کر پاکستان کرکٹ کے کھلاڑیوں کے ساتھ مل کر کرکٹ کی فتح اور دہشت گردی کی شکست کو یقینی بنانے میں مدد فراہم کرنے والے کھلاڑیوں کو اپنے مہمان سمجھتے ہوئے انہیں ’’پھٹیچر‘‘ قرار دینا پرلے درجے کی بدذوقی ہے جو کسی بھی حالت میں میزبان کی مہمان نوازی کے تقاضے پورے نہیں کرتی اور قومی سیاست کے تقاضے پورے کرنے میں ناکامی کا ثبوت دینے والے اس ناکامی کے بھی ذمہ دارہوسکتے ہیں۔بلاشبہ قومی سیاست کے میدان میں ذوالفقار علی بھٹو کے بعد عمران خان کے داخل ہونے سے یہ امید ابھری تھی کہ سیاست میں نیا خون داخل ہونے سے ہمارے سیاست کے قومی لب و لہجے میں مثبت تبدیلی اور جدید خیالات اور نظریات کی آمیزش ہوگی مگر عوام میں بے پناہ مقبولیت کے باوصف عمران خان قوم کی یہ توقع پوری نہیں کرسکے۔ وہ سیاست میں ’’دھرنوں‘‘ کے قدیم اور فرسودہ انداز ہی آزماتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی سیاسی جماعت سیاست کے تقاضے پورے کرتے ہوئے کوئی منشور بھی جاری نہیں کرسکی۔ ان کی سیاسی جماعت کاایک ہی منشور ہے کہ برسراقتدار سیاسی جماعت اقتدار چھوڑ دے۔ عمران خان کے حوالے کردے اور خوداپوزیشن میں چلی جائے۔ سیاست کا شعور رکھنے والے اگر عمران خان کی سطح کی زبان استعمال کرسکیں تو وہ ان کی سیاست کو بھی ’’پھٹیچر‘‘ قرار دینے پر مجبور ہوںگے۔زبانوں یا لسانیات کا شعور رکھنے والوں سے پوچھا جائے تو پتہ چلے گاکہ ’’پھٹیچر‘‘ کسی بھی زبان کا لفظ نہیں ہے۔ ہاں جاہل اور گنوار لوگ شاید اپنی زبان یا بیان میں اسے استعمال کرتے ہوں گے مگر یہ لفظ اتنا مہذب یا متمدن نہیں کہ کسی ڈکشنری یا لغت میں جگہ پاسکے۔ یہ معلومات جب عالمی سطح پر عام ہوتی ہوں گی تو دنیا کے مہذب لوگوں نے پاکستان کی قومی سیاست میں داخل ہونے والے نئے خون کے لب و لہجے کے بارے میں کیا اندازےلگائے ہوں گے اور عمران خان کے وطن عزیزکے بار ےمیں اور یہاں کے ارباب ِ سیاست کے بارے میں ان کی کیسی کیسی امیدیں اور اندیشے جاگے ہوں گے۔ اس کا اندازہ لگانا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہوگا۔اطمینان دلانے والی بات یہ ہے کہ دنیا کے لوگوں نے یہ بھی دیکھا ہوگا کہ پاکستان کے کرکٹ سے محبت کرنے والے عوام میں بھی کرکٹ کے عالمی سطح کے کھلاڑیوں کے لئے کس قدر احترام اور نیک جذبات پائے جاتے ہیں اور وہ عالمی سطح کے کرکٹ کے کھلاڑیوں کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے پاکستان کے کرکٹ کے کھلاڑیوں اورکرکٹ کا کھیل پسند کرنے والوں کے ساتھ مل کر ملک کے د شمن دہشت گردوں کے خلاف ایک زبردست محاذ قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ پاکستان کے کرکٹ کے کھلاڑی اکیلے یہ کام نہیں کرسکتے تھے۔ انہیں عالمی سپورٹ کی ضرورت تھی اوریہ سپورٹ انہیں مل گئی ہے۔ اس سے عمران خان کو خوشی نہیں ہوئی مگر اس صوبے کے لوگوں کو ضرور خوشی ہوئی ہوگی جس پر عمران خان کی سیاسی جماعت کی حکمرانی ہے۔

.
تازہ ترین