• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے ہاںدو معاملات پر وسیع تر اتفاق ِ رائے پایا جاتا ہے۔ ایک یہ کہ ہمارا جسٹس سسٹم شکستہ اور کمزور ہے ، چنانچہ اگر کسی کے ساتھ ریاست یا معاشرے کی طرف سے زیادتی ہوتی ہے اور وہ اس کی داد رسی چاہتا ہے تو تاخیر سے ملنے والے انصاف، یا اس کی عدم دستیابی کی صورت میں وہ مزید محرومی کا شکار ہوجاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ تنازعات کو حل کرنے سے قاصر ایک نظام اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا۔ ایک ریاست جو ایسانظام قائم کرنے میں ناکام رہے جو کم ا ز کم شہریوں کی قانونی مساوات کا بھرم ہی رکھ لے ، میں ہر کوئی ذاتی تحفظ کے لئے طاقت حاصل کرنا چاہے گا۔ ایسا نظام قانون کی حکمرانی کے تصور کے منافی ہوتا ہے۔
نظام کی اصلاح کے لئے معقول تصورات تک رسائی کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ وہ مسائل جن کا تعلق اس کے ساختی اجزا اور فعالی ڈھانچے سے ہو، اُن کا عام فہم حل دستیاب ہوتا ہے۔ حقیقی چیلنج طاقتور اشرافیہ اور افسران کے رویے میں تبدیلی کی تحریک پیدا کرنا ہے۔ ہم میں سے جو افراد (وکلا اور جج حضرات) جسٹس سسٹم سے بطور ثالث وابستہ ہیں، وہ اس نظام کی بوسیدگی کے اسی طرح عادی ہوچکے ہیں جس طرح ٹریفک سگنل پر بھیک مانگنے والے بچوں سے سماجی نظا م کی بے اعتناعی۔ عام شہریوں کو انصاف کی عدم فراہمی ہماری راتوں کی نیند ہر گزخراب نہیں کرتی۔ اور پھراس گلے سڑے نظام سے کچھ مفادات بھی وابستہ ہیں۔ تمام شہریوں کو میسر قانونی مساوات اشرافیہ کو سماجی، سیاسی اورمعاشی ناہمواری سے حاصل ہونے والے فائدے کا مداوہ کرسکتی ہے ، لیکن جہاں ایسی مساوات قائم کرنے والا نظام ہی موجود نہ ہو ،وہاں جس کسی کے پاس بھی دولت یا طاقت ہوگی، وہ اسے استعمال کرتے ہوئے ان میں اضافہ کرتا چلا جائے گا۔ یہ صورت ِحال امیر اور غریب کے درمیان حائل معاشی خلیج کوزیادہ وسیع اور گہراکرتی ہے ۔ اس کے نتیجے میںمعاشی طور پر پسے ہوئے طبقات میں مزید اشتعال پیدا ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک ایسے نظام کا حصہ بننے پر مجبور ہوتے ہیں جو ان کی سماجی اورمعاشی ترقی میں معاون ثابت ہونے کی بجائے رکاوٹیں پیدا کرتا ہے ۔ چنانچہ اُن کی غربت او ر پسماندگی کی زنجیریں نہیں ٹوٹتیں۔
چنانچہ طاقتور اشرافیہ انصاف اور معاشی ہمواری کے اصولوں کو لاگوکرنے کی کوشش کیوں کرے جبکہ وہ اس مسخ شدہ نظام سے مستفید ہوتے ہیں؟اس کا جواب یہ ہے کہ اُنہیں کم ا ز کم اپنے درمیانی مدت کے مفادات کے لئے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ معاشی ناہمواری، ناانصافی اور ناخواندہ آبادی کا جم ِ غفیر ایک دھماکہ خیز صورت ِحال کو جنم دیتا ہے ۔یاد رکھیں، آج عام لوگ اپنے مصائب کو خاموشی سے برداشت کرتے ہوئے اپنے سامنے کچھ افراد کو زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹتے دیکھ کر خوش نہیں ہوتے ۔ اس ملک کے لوگ دولت مندوں سے اس لئے نفرت نہیں کرتے کہ اُنہیں دولت سے نفرت ہوتی ہے ، بلکہ اس لئے کہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ دولت صرف اپنے اختیارات کا ناجائزفائدہ اٹھا کر ہی کمائی جاسکتی ہے۔ اس سوچ کے ہوتے ہوئے جسٹس سسٹم میں درستی نہیں لائی جاسکتی۔ دولت مند اشرافیہ کو سمجھ لینا چاہئے کہ قانون کی عملی حکمرانی قائم کیے بغیر وہ اُن اسباب کا تحفظ نہیں کرپائیں گے جو وہ حاصل کرچکے ہیں۔ یقینا رویے اور سوچ میں تبدیلی لانا کبھی بھی آسان یا دل خوش کن نہیں ہوتا لیکن اُن کے پا س کوئی متبادل موجود نہیں۔ ایک ریاست اور معاشرے میں جو بھی خرابیاں پنپتی ہیں، اُس کی جڑیں ناقص نظام ِ انصاف میں گڑی ہوتی ہیں۔ اس صورت ِحال سے بچنے اور اپنے اثاثے محفوظ رکھنے کے لئے ہمیں ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جس میں تنازعات کا موثر اور منصفانہ حل موجود ہو۔
اب عام فہم حل کا جائزہ لیتے ہیں۔ ہم اصلاح کے عمل کو تین فرضی دائروں کے تصور سے سمجھ سکتے ہیں۔ ان میں سے سب سے اندرونی دائرہ عدالتی نظام ہے ۔ یہ دائر ہ ایک بڑے دائرے کے اندر ہے جو نظام ِ انصاف ہے اور عدالتیں اس کا صرف ایک حصہ ہیں۔ اس کے دیگر اجزا میں پولیس، تفتیش، وکلا، جیل کا نظام اورتنازعات کے حل کے متبادل نظام شامل ہیں۔ یہ دوسرا دائرہ ایک اور بہت بڑے دائرے کے محیط کے اندر ہے جو گورننس ہے ۔ اس کی خرابیاں تمام اندرونی نظام کو باہم ٹکرائو سے دوچار کردیتی ہیں۔ ترجیحی بنیادوں پر آئیے پہلے اندرونی دائرے کو درست کرنے کی اصلاح کا آغاز کرتے ہیں۔ اس میں کیسز کے التوا کا شکار ہونے کے مسئلے کا تدارک دوطریقوں سے کیا جاسکتا ہے ۔ ایک یہ کہ کیسز کی تعداد کم ہوجائے تاکہ اُن کی بڑی تعداد ہمارے نظام کو جمودسے دوچار کرکے غیر فعال نہ بنا دے ۔ دوسرا یہ کہ ساختی اور فعالی ڈھانچے میں موجود نقائص کو درست کرتے ہوئے ایسا نظام وضع کریں جس میں کیسز کو جلد اور موثر طریقے سے نمٹایا جاسکے ۔ ہم بیرونی دائروں پر توجہ دئیے بغیر مقدمات کی تعداد میں کمی لاسکتے ہیں۔ اس کے لئے فوری جائزہ لینے والا قانون بے معانی مقدمات کے اندراج کا تدارک کرسکتا ہے ۔ چند سال پہلے اشتر اوصاف علی (موجودہ اٹارنی جنرل )نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر کھڑے وکلا کے ایک گروپ سے پوچھا کہ ہمیں کسی شخص کی وفات کے بعد اس کے ورثا کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لئے عدالت جانے کی کیا ضرورت ہے ، کیا یہ کام نادرا نہیں کرسکتا کیونکہ اس کے پاس تمام ریکارڈ موجود ہے ۔ اور جہاں کوئی تنازع ہو، وہاں متاثرہ فریق عدالت سے رجوع کرسکتا ہے ۔ ہم اس سادہ لیکن باسہولت تصور کو نافذکیوں نہیں کرتے ؟لیکن بات یہ ہے کہ ہم ایک ایسے نظام کے ساتھ کام کرنا بہتر سمجھتے ہیں جس میں فیصلوں کے التو ا کا فائدہ کسی اہم فریق کو پہنچے ۔ بعض صورتوں میں جائزورثا کا تعین ہونے اور جائیداد کی تقسیم میں کئی برس لگ جاتے ہیں۔ ہم بعض ایسے مقدمات میں دلائل دینے میں بہت زیادہ وقت گزار دیتے ہیں جو ایک آدھ پیشی میں طے ہوسکتے ہیں۔ ہم سہ مرحلہ نظام انصاف کیوں نہیں اپناتے ، جیسا کہ مقدمہ، اپیل اور حتمی اپیل۔ اس کے ذریعے فوری انصاف کی فراہمی ممکن ہوسکتی ہے ۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارے قوانین خراب ہیں اور وہ لوگوں کو بے ایمانی پر اکساتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے کرائے داری کے قوانین کرائے داروں کو ترغیب دیتے ہیں کہ وہ حلفیہ وعدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جائیداد کا قبضہ اپنے پاس رکھیں جبکہ اسے خالی کرانے کے لئے کیا گیا کیس برس ہا برس تک چلتا رہے ۔ زمین کی ملکیت کے درست قوانین کی غیر موجودگی میں لینڈ مافیا وجود میں آتی ہے اور جھوٹے مقدمات شروع ہوجاتے ہیں۔ابھی تک ہم زمین کا غیر متنازع ریکارڈ طے کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں مینجمنٹ نام کی کوئی چیز نہیں۔ اسپیشلائزیشن کے اس دور میں ایک جج صاحب بیک وقت بہت سے کام کیوں کرتے ہیں؟کیا وہ ایک ضمانت کی اپیل سننے کے بعد پھر اگلے کیس میں کسی ارضی تنازع کی سماعت کرنے ، یا کسی معاہدے کی خلاف ورزی کا کیس سننے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں؟ کیا کیسز کی گروپنگ نہیں ہونی چاہئے ؟ اگر آپ نے ایک سو کیسز کا فیصلہ کرنا ہے ، تو کیا آپ تمام کی سماعت بیک وقت شروع کرسکتے ہیں ؟یقینا ایسا نہیں ہوسکتا ہے ۔
تو یہی وجہ ہے کہ مقدمات برس ہا برس تک چلتے رہتے ہیں۔ اور پھر اگر دلائل مکمل نہیں ہیںاور اگر وکلا نے اس کی تیار ی کے لئے وقت مانگا ہے تو پھر اسے عدالت میں کیوں لگادلئےیا جاتا ہے ؟
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب اور دیگر جج صاحبان کو ملک کے بہترین منصف تصور کیا جاتا ہے۔ وہ سول اور کریمنل لاز کے ماہرہوتے ہیں۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے اپنے جوڈیشل کیرئیر کا اہم دور اصلاحات کے لئے کام کرتے ہوئے گزارا ہے۔ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ ضلعی عدلیہ کی مینجمنٹ میں بہتری لانے کے لئے کوشاں ہیں۔اسی طرح ہمارے وزیر قانون اور اٹارنی جنرل بھی اصلاحات لانا چاہتے ہیں۔ سینیٹ میں محترم رضا ربانی چیئرمین ہیں،اور وہ بھی جوڈیشل ریفارمز پر ایک جامع رپورٹ تیار کرچکے ہیں۔ تو کیا پھر یہ شرمناک بات نہیں الئےگر عدالت عام سائل کو بروقت انصاف فراہم کرنے سے قاصر ہو؟

.
تازہ ترین