• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
2009 ء کا موسم گرما تھا۔ سوات کے گرین چوک میں معصوم شہریوں، محنت کش عورتوں اور بہادر سپاہیوں کی لاشیں اس تواتر سے گرائی جا رہی تھیں کہ اسے ’خونی چوک‘ کا نام دے دیا گیا۔ جنگ کا ایک سادہ اصول مخالف فوج کی اپنے مورچوں اور منصوبوں تک رسائی روکنا ہے۔ طالبان نہیں چاہتے تھے کہ ان کے ٹھکانوں تک کسی کی پہنچ ہو۔ چنانچہ وہ بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے والوں پر حملے کرتے تھے۔ سوات میں طالبان کے ترجمان مسلم خان سے پولیو کے قطرے پلانے پر سوال کیا گیا۔ مسلم خان کئی برس مغرب میں رہے تھے۔ پشتو، اردو، انگریزی، عربی سمیت کئی زبانیں روانی سے بولتے تھے۔ صحافی کے سوال پر مسلم خان نے جامع و مانع جواب دیا۔ ’میں پچاس برس کا ہوں۔ مجھے کبھی پولیو نہیں ہوا‘۔ مسلم خان ستمبر 2009ء میں گرفتار ہو ئے۔ دسمبر 2016ء میں فوجی عدالت نے انہیں 31 افراد کو شہید کرنے کے جرم میں سزائے موت سنائی۔ مسلم خان کا ذکر آج اس لئے چلا آیا کہ ایک قابل احترام منصب دار نے اسلام آباد میں فرمایا ہے کہ سوشل میڈیا سے پہلے بھی ہم لوگ زندہ رہتے تھے۔ استاذی مختار صدیقی نے شاید کچھ اسی طرح کی بات کہی تھی، ’دل زدگاں کے دور سے پہلے دنیا ہنستی بستی تھی‘۔ استاذی سجاد باقر رضوی نے لکھا، ’تیرے بعد ایسی ایسی ہوائیں چلیں،منزلوں منزلوں راہ تاریک تھی‘۔ اہل درد کے بادشاہ بلھے شاہ نے فرمایا تھا، الٹے ہور زمانے آئے، تاں میں بھید سجن دے پائے…
سیکھنے کے لئے ضروری ہے کہ اپنی رائے میں غلطی کا احتمال باقی رکھا جائے۔ دوسروں کی رائے میں سچائی کا امکان مدنظر رکھا جائے۔ ساجن کا بھید پانے کے لئے زمانے کی گردش سے گزرنا پڑتا ہے۔ حالیہ دنوں میں مسلم لیگ نواز کے رہنمائوں نے پے در پے ایسا لب و لہجہ اختیار کیا جس سے اتفاق کرنا ممکن نہیں۔ شیخ رشید کے بارے میں پنجاب کے وزیر قانون نے کچھ سبک بات کہی۔ محترم عابد شیر علی نے فرمایا کہ پختونخوا کی صوبائی حکومت بھیک میں دی گئی ہے۔ صاحب، جمہوری حکومت بھیک میں نہیں دی جاتی، عوام کے ووٹ سے قائم ہوتی ہے۔ ایک طرف ایاز صادق اور زعیم قادری کی معاملہ فہمی ہے، دوسری طرف میاں جاوید لطیف کا قابل اعتراض لہجہ۔ عرض یہ ہے کہ مئی 2013 ء سے اب تک جمہوری مکالمے کا جو ڈھنگ اپنایا گیا، جس طرح آئینی حکومت کو دھرنے اور لاک ڈائون میں جکڑا گیا، اس سے منفی نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ آئین پسند حلقے جمہوری حکومت کا استحکام چاہتے ہیں۔ چنانچہ غیر آئینی مداخلت کی بھنک پاتے ہی بلبلا کر جمہوریت کا دامن تھام لیتے ہیں۔ اگست 2014ء میں پیپلز پارٹی اور محترم جاوید ہاشمی نے قومی اسمبلی میں یہی فرض پورا کیا تھا۔ قوم خوش قسمت ہے کہ بہت نازک مرحلوں سے عہدہ برا ہوئی ہے۔ نقصان یہ ہوا ہے کہ حقیقی جمہوری احتساب کی روایت کمزور ہوئی ہے۔ الطاف گوہر نے صدر بھٹو سے کہا تھا کہ آپ نے ووٹ لئے ہیں، پاکستان کو فتح نہیں کیا۔ اب مسلم لیگ نواز کو یاد دلانا چاہیے کہ شہریوں نے اپنے ووٹ سے حکومت کی امانت آپ کے سپرد کی تھی۔ 2018ء میں اس امانت کا احتساب کیا جائے گا۔ ازراہ کرم جان لیجئے کہ جمہوری بندوبست میں سیاسی وابستگی غیر مشروط وفاداری نہیں ہوتی۔
اگلے روز مغرب میں مقیم ایک پاکستانی طالبہ سے مکالمہ ہوا۔ ذکر یہ تھا کہ مغرب میں بھی الٹی ہوا چل رہی ہے۔ سوال یہ اٹھ کھڑا ہے کہ اظہار کی آزادی کی حدود کیا ہیں؟ یونیورسٹی میں قدامت پسند اور لبرل دانشوروں میں زور کی بحث چل رہی ہے۔ کچھ اساتذہ بائیں بازو کے رجحانات میں بہت دور نکل گئے ہیں اور کچھ کا جھکائو دائیں بازو کی طرف بہت زیادہ ہے۔ ایک استاد پوچھتے ہیں کہ سفید فام شہریوں کو ’این‘ لفظ استعمال کرنے کی اجازت کیوں نہیں ہونی چاہیے۔ واضح رہے کہ روادار افراد افریقی نژاد باشندوں کے لئے ’نیگرو‘ یا ’نیگرڈ‘ کا لفظ استعمال کرنا درست نہیں سمجھتے۔ اسے اصطلاحاً ’این ورڈ‘ کہا جاتا ہے۔ اتفاق سے ہمارے ملک میں بھی اظہار کی آزادی کی بحث ہو رہی ہے۔ ہمارے وزیر داخلہ فرماتے ہیں کہ اظہار کی آزادی کی آڑ میں جھوٹ کی آزادی استعمال کی جا رہی ہے۔ وزیر داخلہ جیسے زیرک اور فہیم رہنما سے اختلاف کا یارا نہیں۔ ہم اپنی رہنمائی کے لئے پاکستانی طالبہ سے گفتگو کا ایک اقتباس پڑھ لیتے ہیں۔
صحافی : آپ قدیم چینی فلسفی کنفیوشس کو پڑھئے۔ ہم بحیرہ قلزم کے ساحلوں پر جنم لینے والی دوٹوک منطق کی روایت میں الجھے ہوئے ہیں۔ چیزوں کو سیاہ اور سفید میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم نئے سرے سے پہیہ ایجاد کرنا چاہتے ہیں۔ استخراج کے لئے اتائولے ہو رہے ہیں۔ خالص پن کی نفسیات ہم پر بری طرح سوار ہے اور ہم دوسروں کی اصلاح اپنی نظر سے کرنے کے درپے ہیں۔ کنفیوشس کہتا ہے کہ دریا کے دو کنارے اتنے اہم نہیں، اصل چیز دریا ہے اور دریا انسانی تجربے کا عظیم بہائو ہے۔ ہمیں دوسروں کو ہمدردی سے سمجھنے، اپنی نظر کو وسعت دینے اور اپنے رویوں میں زیادہ جگہ دینے کی ضرورت ہے۔
طالبہ : لیکن پروفیسر صاحب پوچھتے ہیں کہ ہم ’این لفظ‘ استعمال کرنے کی آزادی کیوں استعمال نہ کریں۔
صحافی : لفظ صحیح یا غلط نہیں ہوتا۔ اس کا تاریخی تناظر معنی متعین کرتا ہے۔ مارٹن لوتھر کنگ نے بھی’این لفظ‘ استعمال کیا تھا مگر وہ اگست 1963ء تھا۔ 2017 ء میں ڈونلڈ ٹرمپ ’این لفظ‘ استعمال کریں گے تو یہ منافرت، تفرقے اور امتیاز کی علامت ہو گی۔ انگریزی زبان میں انڈسٹری کا لفظ محنت کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ مشین آئی تو یہ لفظ صنعت کا معنی اختیار کر گیا۔ حیاتیات کے استاد علم انواع میں درجہ بندی کیا کرتے تھے۔ کارل مارکس نے ’کلاس ‘ کے لفظ کو طبقاتی مفہوم بخشا۔
طالبہ : سوال مگر یہی ہے کہ اظہار کی آزادی اور درست لب و لہجے میں حد فاصل کہاں ہے؟
صحافی : اظہار کی آزادی اور سماجی رواداری میں کوئی تضاد نہیں۔ رواداری کا مطلب سچائی کے بیان کو روکنا نہیں بلکہ دوسروں کی آزادیوں اور اقدار کا ایسا احترام کرنا ہے جس سے انسانوں کے درمیان زیادہ امن پیدا ہو۔ معاشرتی رویے زیادہ شفاف ہو سکیں اور علم کو زیاد ہ مستند کیا جا سکے۔
طالبہ : یہ تو اظہار کی آزادی کا مقصد ہوا۔ عملی طور پر اس کی صورت کیا ہو گی؟
صحافی : ہمیں ایک دوسرے کے باہمی مفاد میں زبان استعمال کرتے ہوئے احتیاط کرنی چاہیے تاکہ امتیاز اور استحصال کی بجائے مساوات اور انصاف کو فروغ دیا جا سکے۔ دیکھئے یوسف کمبل پوش اپنے سفر نامے میں ’رنڈی‘ کو عورت کے معنوں میں استعمال کرتے تھے۔ عبدالحلیم شرر کے لکھنو میں اس لفظ کا مطلب کچھ اور تھا۔ پنجاب میں بیوہ عورت کو رنڈی کہتے ہیں۔
طالبہ :مشکل یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں امریکہ کی تاریخ بیان کرنے پر اجارہ قائم کر لیا ہے۔
صحافی : محترمہ، امریکہ کی تاریخ انسانوں کی اجتماعی میراث سے الگ نہیں۔ ہم جنوبی ایشیا کے رہنے والے ٹھیک ٹھیک جانتے ہیں کہ مغرب کی نقالی کا طعنہ کیسے دیا جاتا ہے۔ برائون صاحب کون ہوتا ہے۔ اینگلو محمڈن کسے کہا جاتا تھا۔ بات یہ ہے کہ انسانوں کی میراث کسی ایک قوم یا گروہ کی تنگ نظر تعبیر سے آگے کی چیز ہے۔ گلیلیو کی دوربین کو پاپائے روم نہیں روک سکتا۔ سوشل میڈیا پر پابندی لگانے کی بات محض پرانے لوگوں کا نئے آدمی سے خوف ہے۔ ووٹ کی جمہوریت عورت کا احترام قائم کئے بغیر ممکن نہیں… اور مسلم خان کے بچوں کو پولیو سے بچانے کے لئے حفاظتی قطرے پلانا پڑتے ہیں۔

.
تازہ ترین