• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں بی اے کا طالب علم تھا جب عمران خان صاحب کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ ڈاکٹر محمد فاروق خان جو میرے بھائی اور استاد تھے، کے ذریعے ان سے تعارف ہوا۔ ڈاکٹر صاحب تحریک انصاف کے بانی جنرل سیکرٹری اور ان لوگوں میں سے ایک تھے جو عمران خان صاحب کی سیاست میں آنے کے عمل میں مشاورت کا حصہ تھے۔ لاہور کے ماڈل ٹائون کے ای بلاک کے ایک چھوٹے سے گھر کے ایک چھوٹے سے ڈرائنگ روم میں ان نشستوں کا انعقاد ہوتا تھا۔ میں ڈاکٹر فاروق خان مرحوم کے ساتھ وہاں جاکر بیٹھ جاتا ۔ عمران خان صاحب اور جنرل حمید گل صاحب ڈاکٹر فاروق کا بھائی اور ایک طالب علم سمجھ کر وہاں میری موجودگی کا نوٹس نہیں لیتے تھے جبکہ میں ان دونوں کے ’’فین‘‘ کی حیثیت میں ان کی ہر بات اور ہر حرکت کو انہماک کے ساتھ نوٹ کرتا رہا ۔ ان نشستوں کے نتیجے میں محمد علی درانی اور میری رائے یہ بن گئی کہ خان صاحب ویسے ہیں نہیں جیسے دکھتے ہیں لیکن جنرل صاحب اور ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب خوش فہمی یا غلط فہمی کاشکار رہے ۔ بعدازاں جنرل حمید گل بھی پیچھے ہٹ گئے لیکن ڈاکٹر فاروق صاحب ہم لوگوں کی بھرپور مخالفت کے باوجود اپنا سب کچھ دائو پر لگا کر ان کے ہمسفر بن گئے ۔ پی ٹی آئی کا دستور بنیادی طور پر ڈاکٹر فاروق مرحوم کی تحریر اور تخلیق ہے اور بانی جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے خان صاحب اور پی ٹی آئی کے لئے انہو ں نے اور بھی بہت کچھ کیا لیکن محض دو سالہ رفاقت نے ان کو بھی اس نتیجے تک پہنچایا جس تک ہم پہنچے تھے ۔ یوں ایک باوقار انسان کی طرح انہوںنے خاموشی کے ساتھ اپنے راستے الگ کرلئے لیکن اس کے بعد بھی خان صاحب سے دعاسلام برقرار رکھی۔ اس بہادر اور محب وطن انسان کو جب طالبان نے اپنی سوچ کی مخالفت اورسوات کے بچوں کے لئے یونیورسٹی کے قیام کی کوششوں کے جرم میں شہید کیا تو خان صاحب نے ہماری التجائوں کے باوجود ان کے جنازہ یا فاتحہ پر جانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی ۔ یوں خان صاحب نے اپنے عمل سے مجھے ڈاکٹر فاروق خان ہی نہیں ان کے بچوں کی نظروں میں بھی سرخرو کیا۔
میری یہ رائے بن گئی تھی کہ یہ شخص اپنی ذات کے حصار میں اس قدر بند ہے کہ انہیں اس کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا لیکن ان کے چاہنے والے سمجھتے رہے کہ وہ ٹیم ورک پر یقین رکھتے ہیں تاہم جس طرح انہوں نے کرکٹ میں پوری ٹیم کی فتح کو صرف اپنے نام کرکے اسپتال اور پھراسپتال کے لئے کیش کرایا اور اب جس طرح اسپتال کو بری طرح ذات اور سیاست کے لئے استعمال کررہے ہیں ۔ا س سے حقیقت واضح ہوگئی۔ میری رائے بن گئی تھی کہ اس بندے کے پاس صرف عقل اور خواہش ہے لیکن ان کا دل نہیں ہے تاہم ان کے ساتھی ان کو صاحب دل باور کراتے رہے ۔ پھر جس تواترکے ساتھ انہوں نے ایک ایک کرکے اپنے ساتھیوں اور محسنوں کو چھوڑ دیا اور جس طرح دھرنے کے موقع پر دوسروں کے بچوں کو مروایا ، اس نے ثابت کردیا کہ میری رائے کچھ زیادہ غلط نہیں تھی۔اسی طرح ان کے چاہنے والے باور کراتے رہے کہ وہ بہت بہادر اور رسک لینے والے انسان ہیں لیکن میں ان سے عرض کرتا رہا کہ اتنے نہیں ہوں گے جتنے کہ آپ باور کرارہے ہیں ۔ پھر جس طرح وہ جنوبی وزیرستان کی طرف مارچ کے موقع پر دروازے سے واپس لوٹے اور جس طرح لاک ڈائون کے موقع پر گھر کے دروازے کے باہر بے چارے پختونوں کو اسلام آباد پولیس کے رحم و کرم پر چھوڑ کر خود بنی گالہ کے اندر پش اپس نکالتے رہے ، اس نے مجھے دنیا کی نظروں میں سرخرو کیا۔ ان کے حامی انہیں وفادار باور کراتے رہے لیکن اپنی رائے مختلف تھی لیکن جس طرح انہوں نے اپنی فیملی زندگی کے حوالے سے اقدامات اٹھائے (میں سب کچھ جانتے ہوئے بھی اس کی تفصیل میں نہیں جائوں گا کیونکہ میں خان صاحب کے زیرتربیت نہیں رہا اور لوگوں کی نجی زندگیوں کا تذکرہ مناسب نہیں سمجھتا) ان سے ثابت ہوگیا کہ وہ کتنے وفادار ہیں ۔ امریکہ اور ڈرون حملوں کے خلاف اور طالبان کے حق میں بیانات دے کر وہ باور کراتے رہے کہ ان سے بڑا مسلمانوں کا ہمدرد اور پاکستان کا سپاہی کوئی نہیں لیکن میں اس حوالے سے سوال اٹھاتا رہا ۔ تاہم جہاں وہ امریکہ کے خلاف بولتے ہیں وہاں ہر موقع پر اس کے سب سے بڑے اتحادی یعنی برطانیہ تک آکر ان کی زبان گنگ ہوجاتی ہے ۔ پھر جس طرح انہوں نے مسلمان پاکستانی کے مقابلے میں یہودی گولڈا سمتھ کے حق میں مہم چلائی ، ا س نے واضح کردیا کہ وہ مسلمانوں اور پاکستان کے کتنے بڑے ہمدرد ہیں ۔ وہ باورکراتے رہے کہ وہ ایک خود دار انسان ہیں لیکن جس طرح انہوں نے شروع میں پہلے پرویز مشرف سے وزارت عظمیٰ کی بھیک مانگی اور پھر جس طرح کسی اور کے اسکرپٹ میں دھرنوں اور لاک ڈائون کے ذریعے رنگ بھر کر وہ ایمپائر سے انگلی اٹھانے کی التجائیں کرتے رہے ، اس نے ثابت کردیا کہ وہ کتنے بڑے خوددار ہیں ۔ان کے ترجمان اور حامی دعویٰ کرتے رہے کہ وہ سیاست کا گند صاف کرنے کے لئے میدان میں ہیں لیکن میرا اصرار رہا کہ ان کی وجہ سے سیاست مزید گندی ہورہی ہے ۔ میں رائے کا اظہار کرتا رہے کہ پی ٹی آئی سے قبل سیاست کا سینہ صرف دل سے محروم تھا لیکن پی ٹی آئی کے میدان میں آنے سے اس کی آنکھ میں حیا نہیں رہی لیکن اب جس طرح سیاست میں بدتمیزی اور گالی کا کلچر عام ہوگیا ، وہ سب دیکھ رہے ہیں ۔ اب جاوید لطیف اور مراد سعید کے واقعہ نے تو اس حقیقت کو اظہر من الشمس کردیا کہ اس بندے کی برکت سے اب اس میدان سے شرم و حیا کا کوئی سروکار نہیں ۔سیاست اس سے زیادہ اور کیا غلیظ ہوسکتی ہے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے لوگ کیمروں کے سامنے گھر میں بیٹھی ہوئی عزت دار مائوں اور بہنوں کا غلیظ زبانوں سے ذکرکرنے لگیں ۔
بہر حال عمران خان صاحب پے درپے اپنے عمل سے مجھے سرخرو کرتے رہے اور میں ان کے احسانات کے بوجھ تلے آتا رہا لیکن ایک معاملے میں ہم جیسے لوگ غلط ثابت ہوتے رہے اور وہ تھا کرکٹ کا معاملہ ۔ کرکٹ ہی نے چونکہ انہیں عزت دی ہے ، شہرت دی ہے ، دولت دی ہے ۔ کرکٹ ہی ان کی سیاست میں آمد کا وسیلہ بنی ہے اور کرکٹ ہی کی وجہ سے لاکھوں پاکستانیوں نے انہیں اپنا لیڈر بنایا ہے تو سمجھ رہا تھا کہ شاید اسی ایک کام کے ساتھ وہ مخلص ہوں گے لیکن یہاں بھی ان کے تکبر نے انہیں الٹ سمت جانے پر مجبور کردیا ۔ ایسے عالم میں جبکہ پاکستان پر دنیا کے اعتماد کی بحالی اور پاکستانی قوم کی خوشیوں کی خاطر امیر جماعت اسلامی سراج الحق جیسے لوگ بھی کرکٹ اسٹیڈیم میں جانے اور ڈیرن سیمی اور شاہد آفریدی کے ساتھ سیلفیاں بنانے پر مجبورہوگئے ، وہ اپنے تکبر کی وجہ سے دوسری طرف کھڑے ہوگئے ۔ میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میں حالیہ پی ایس ایل سے قبل ڈیرین سیمی سے خاص واقف نہیں تھا ۔ میری ان سے ملاقات پی ایس ایل کے آغاز پر جاوید آفریدی بھائی کے توسط سے دبئی میں ہوئی ۔ لیکن پاکستان آنے کے معاملے میں اس بندے نے جس غیرت اور وفاداری کا مظاہرہ کیا ، اس کی وجہ سے میں ان کا گرویدہ ہوگیا۔
جب وہ لاہور پہنچ رہے تھے تو رات گئے خوش آمدید کہنے کے لئے میں بھی جاوید آفریدی کے ساتھ موجودتھا اور جاوید گواہ ہیں کہ میں نے اس بندے کے ہاتھ تک چومے ۔ تاہم اس بندے کی خودپسندی اور تکبر نے انہیں اس ڈیرن سیمی کو بھی پھٹیچر کہنے پر مجبور کردیا۔ اس تکبرنے ان کے منہ سے یہ الفاظ بھی نکالے کہ ’’پتہ نہیں یہ پی ایس ایل ہے یا پی سی ایل ہے اور میں نے تو ایک گیند بھی نہیں دیکھی‘‘۔ حالانکہ مجھ جیسے لوگ جنہوں نے پچھلے دس سالوں میں کبھی کرکٹ کا ایک میچ نہیں دیکھا تھا، بھی اس پی ایس ایل میں دلچسپی لیتے رہے ۔ وہ خود ایک بار ورلڈ کپ جیتنے کو پچیس سال بعدبھی نہیں بھولے ۔ مسجد میں تقریر کررہے ہوں تو بھی گفتگو کا آغاز اور اختتام اس ورلڈ کپ کے تذکرے سے کررہے ہیں اور کسی اور کارنامے کی بنیاد پر نہیں بلکہ اسی کرکٹ ورلڈکپ کی بنیاد پر آج وزارت عظمیٰ بھی مانگ رہے ہیں لیکن دوسری طرف دو مرتبہ ورلڈ کپ جیتنے والے ڈیرین سیمی کو پھٹیچر کہہ رہے ہیں ۔
اس متکبر بندے کے بارے میں مذکورہ آرا کا اظہار کوئی آسان کام نہیں تھا۔ جب میں ان آرا کا اظہا ر کرتا رہا تو ان کے چاہنے والوں نے جواب میں میرا جینا حرام کردیا ۔ مجھ پر الزامات لگائے جاتے رہے ۔ خود خان صاحب نجی محافل میں مجھے گالیوں سے نوازتے رہے ۔ کئی مرتبہ انہوں نے اپنی سوشل میڈیا ٹیم کو مجھ پر حملوں کا حکم دیا ۔سوشل میڈیا پر میری ماں تک کو گالیاں دی گئیں۔ وہ پارٹی اجلاسوں میں اپنے ترجمانوں کو ڈانٹتے رہے کہ تم لوگ سلیم صافی کو سیدھا نہیں کرسکتے۔ عاطف خان جیسے ان کے بعض حمایتیوں نے میرے سوشل بائیکاٹ کی تحریک چلائی ۔فردوس عاشق اعوان کے دست راست رہنے والے اور ان کے ساتھ کئی وارداتوں میں شریک افتخار درانی کو انہوں نے تنخواہ پر اس لئے اپنے ساتھ میڈیا کوآرڈنیٹر رکھا کہ وہ ہم جیسوں کی عزتوں سے کھیلیں ۔ درمیان میں دھرنوں کا وقت بھی آیا جب اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے حمایتی مل کر ہماری عزتوں کے درپے ہوگئے ۔ کئی ماہ ہم نے ایسے گزارے کہ گارڈ کے ساتھ ساتھ اپنی عزت کی خاطر خود بھی اسلحہ لئے پھرتے رہے ۔ لیکن اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ جوں جوں وقت گزرتا ہے خود خان صاحب اپنے عمل سے مجھے سرخرو کررہے ہیں ۔ پی ایس ایل کے معاملے میں تو انہوں نے گویا چھکا لگا کر ایک ہی جست میں بہت فاصلہ طے کیا ۔ دھیرے دھیرے لوگ ان کی اصلیت سے واقف ہورہے ہیں ۔ تبھی تو میں اللہ کا شکر گزار ہوں کہ اس معاملے میں کبھی کسی غلط فہمی کا شکار نہیں رہا اور تبھی تو میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ شکریہ عمران خان ۔بہت دیر بعد لیکن ماشاء اللہ آپ وقت کے ساتھ ساتھ اپنے چاہنے والوں کی نظروں میں ہم جیسوں کو سرخرو کررہے ہیں ۔ شکریہ ۔ خان صاحب شکریہ ۔

.
تازہ ترین