• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’یہ انداز گفتگو کیا ہے‘‘ سے مکا بازی تک
عمران خان کو اسمبلی میں غدار کہنے پر مراد سعید نے لیگی رکن اسمبلی کو مکا مار دیا۔ لیگی رکن نے اچھا نہیں کیا، تحریک انصاف کے رکن نے مکا مار کر مزید اچھا نہیں کیا، درست ہے کہ اب اسپیکر کارروائی کریں گے لیکن جو کارروائی پوری دنیا کو پہنچی اس کی واپسی ممکن نہیں، یہ ہے وہ غیر جمہوری اخلاقیات جس کا مظاہرہ اکثر ہمارے ایوانوں میں ہوتا رہتا ہے، غداری کا الزام لگانا اب ہمارے ہاں ہمارے گالم گلوچ سلسلے کی ایک کڑی بن گیا ہے، اگر لیگی رکن کو یہی الزام ثابت کرنا پڑا تو ان کے لئے بہت مشکل ہو گا کیونکہ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کو جو 30سے زیادہ سیٹیں لے کر اسمبلی میں داخل ہوئے ہیں، وہ غدار کیسے ہو گئے، اور تحریک انصاف کے مراد سعید کو یہ حق تو حاصل تھا کہ وہ اسپیکر کو اپنا احتجاج، مطالبہ ریکارڈ کراتے مگر انہوں نے قومی اسمبلی کو بازار کا چوراہا سمجھا اور لیگی رکن کو مکا رسید کر کے حساب خود ہی برابر کر دیا، اب اس کے بعد وہ مزید کچھ کرنے کہنے کی گنجائش نہیں رکھتے، وزیراعظم پاکستان اپنے ارکان اسمبلی کو سختی سے ہدایت کریں کہ وہ اپنی زبانوں کو اتنا بے لگام نہ چھوڑیں، اگر عمران خان کو ن لیگی ارکان دریدہ دہن سمجھتے ہیں، تو اب تحریک انصاف کے ارکان بھی ن لیگ کو دریدہ دہن کہنے کا جواز رکھتے ہیں، برسراقتدار پارٹی کو نہایت محتاط رہنا پڑتا ہے۔ قومی اسمبلی میں اخلاقیات کا دور دورہ نہ ہوا تو یہ عوامی مسائل حل کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھے گی، اب اس موقع پر یہ کہنا ناجائز کو جائز نہیں بنا سکتا کہ ایسا تو ساری دنیا میں ہوتا ہے۔
٭٭٭٭
انتقام کو راہ نہ دیں
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول زرداری نے کہا ہے: انتقام لینے کا اختیار عوام کے پاس ہے، ہم جانتے ہیں کہ عوامی انتقام ووٹ کے ذریعے ہوتا ہے، مگر کیا اسے انتقام کا نام دینا انتہا پسندی کی زبان نہیں؟ ایک بڑی سیاسی پارٹی کو زیب نہیں دیتا کہ وہ عوام کو منتقم مزاج بنانے کی تربیت دے، ایسے بیانات جن میں یک گونہ متشددانہ انداز اختیار کیا جائے جو کہ صاحب بیان کے لئے سیاسی خسارے کا موجب بن سکتا ہے، بلاول زرداری اگر اپنے مزاج میں تھوڑی سی برف بھی شامل کر لیں تو ان کے لہجے کی ٹھنڈک ان کے حق میں عوام کے دلوں کو گرما سکتی ہے، حسن بیان ایسا جادو ہے کہ سر چڑھ کر بولتا ہے، بشرطیکہ وہ اخلاقی حوالے سے معیار پر پورا اترے، اگر ہم اپنے 70برسوں پر نظر ڈالیں تو اس جذبہِ انتقام نے ہمارے جمہوری اخلاقی رویوں کو دشنام میں بدل دیا ہے، اور یہی وہ سخت گیر انداز ہائے سیاست ہیں کہ جو دہشت میں تبدیل ہو سکتے ہیں، اور دہشت کی گرد اسی طرح اڑائی جاتی رہے تو دہشت گردی اس سے دو قدم ہے، بلاول اگر سیاست میں ذوالفقار علی بھٹو کو اپنا آئیڈیل سمجھتے ہیں تو پھرصرف ان کی پیروی اس طرح سے کریں کہ ان کے اندر کے بلاول کو بھی شامل رکھیں اور بلاشبہ اپنے والد گرامی کی بھی سنیں مگر انداز حکیمانہ و کریمانہ رکھیں، کیونکہ خدمات کا سیلاب تباہی کے سوا کچھ نہیں لاتا۔
٭٭٭٭
جمہوریت کے تقاضے
جمہوریت بلا تفریق تمام انسانوں کے حقوق کے تحفظ کا نام ہے، جمہوری حکومت لوگوں کے لئے وقف ہوتی ہے، اگر ایسا نہ ہو تو جمہوریت اشرافیہ کے استحصال کا شکار ہو جاتی ہے، اور اسے مخصوص مفادات رکھنے والے طبقات اپنے لئے بطور ڈھال استعمال کرتے ہیں، بدقسمتی سے پاکستان میں جمہوریت کے ساتھ 70برس سے کھلواڑ ہو رہا ہے، تمام جمہوری ایوان اور ادارے فقط ہاتھی کے دکھانے کے دانت ہیں اور اس کی چھتری تلے غیر جمہوری کارروائیاں زور شور سے جاری ہیں، مولانا فضل الرحمٰن کہتے ہیں کہ اگر مذہبی جماعتیں نظام مصطفیٰ ﷺ کا نفاذ چاہتی ہیں تو انہیں جمہوری سیاست کا حصہ بننا ہو گا، سوال یہ ہے کہ کیا جمہوریت غیر اسلامی نظام کا نام ہے، اور یہ فرد کے حقوق کی پاسداری نہیں کرتی، ظاہر ہے کہ ایسا نہیں بشرطیکہ اسے اس کی پوری روح کے ساتھ نافذ العمل کیا جائے، جمہوریت کو سب سے بڑھ کر عدلیہ ہی اجاگر کرتی اور اس کی عملداری کو عام کرتی ہے، اگر عدلیہ ایسا نہ کر سکے تو سمجھ لیں کہ جمہوریت صرف نام کی حد تک ہے، اور مطلق العنانی کسی نہ کسی ملفوف انداز میں عملاً نافذ ہے، اگر ہمارے ہاں 50برس بھی جمہوریت کے تقاضے پورے کئے گئے ہوتے تو آج بہت سے ایسے مسائل درپیش نہ ہوتے جن کے باعث حکومت حکمرانوں کے ذاتی مفادات کے لئے وقف ہو کر رہ گئی ہے، اسلام کا باہمی مشاورت سے معاملات نمٹانے کا حکم جمہوری تصور کا آغاز ہے، مگر ہم نے اسلام کے جمہوری مزاج کو سمجھا ہی نہیں، قرآن حکیم میں عوام الناس ہی کو جا بجا مخاطب کیا گیا ہے، ہم یہاں جمہوری تقاضوں کی تفصیل میں نہیں جا سکتے لیکن اتنا ضرور کہیں گے کہ ابھی یہاں جمہوریت شرمندئہ تعبیر و تکمیل ہے۔
٭٭٭٭
بہت نمی ہے پھر بھی اخلاق کی کمی ہے
....Oفوجی عدالتیں:پی پی 2سالہ مدت پر مان گئی:اسحٰق ڈار، نہیں مانے: فرحت بابر
مان گئے ہیں بس اپنا مان رکھنے کی بات ہے۔
....Oعمران خان:مراد سعید نے صرف مکا مارا میں ہوتا تو بہت آگے جاتا،
آگے تو کھائی ہے!
....Oپرویز الٰہی:پاناما کیس کا جو فیصلہ آئے حکمران رسوا ہو چکے۔
کسی کی رسوائی سے کسی کی اپنی رسوائی چھپ نہیں سکتی۔
....Oوفاقی حکومت نے کہا ہے آئندہ مارچ تک لوڈ شیڈنگ ختم کر دیں گے۔
یوں نہ کریں ورنہ پھر کسی سے کہیں گے
وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوا
....Oہمارے ہاں یوں تو بہت سی چیزوں کی کمی ہے،
لیکن حسن اخلاق کی کمی نے ہر کمی کو محسوس کرا دیا۔

.
تازہ ترین