• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پی ٹی آئی کے جو لوگ پریشان و افسردہ ہیں کہ خان صاحب نے غیر ملکی کھلاڑیوں کو پھٹیچر اور ریلو کٹا کہہ کر ساری دنیا میں اس ملک کی بھد اڑا دی انکے لئے یہ مشورہ ہے کہ اتنی چھوٹی سی بات کو دل پر نہ لیں۔ یہ خان صاحب کا انداز تخاطب ہے، گفتگو کا شوق ہے، جذباتی پن ہے۔ اتنی سی بات پر آزردہ نہ ہوں۔ اگر آپ ان باتوں پر پریشان ہونا شروع ہو گئے تو ماضی بھی یاد آئے گا اور مستقبل بھی آپ کو ڈرائے گا۔گفتار کا یہ سلسلہ پینتیس پنکچر سے شروع ہوا، پھر حلقوں کے ثبوت تک بات پہنچی ، پھر دھرنا دیا گیا، پھر دھرنا کھجل خوار ہوا، پھر کے پی کی حکومت کے ارکان استعفی پر تقسیم ہو گئے، پھر لاک ڈائون کا اعلان ہوا، پھر خود بنی گالہ سے نہیں نکلے، پھر پارلیمنٹ کو ہی دھوکہ کہہ دیا، پھر جمہوریت کے مقابلے میں مارشل لاکی تعریف کر دی،پھر ایک صوبے اور دوسرے صوبے میں جنگ کا سماں برپا ہوا، پھر پی ایس ایل کی مخالفت ہوئی ، پھر غیر ملکی مہمانوں کی تضحیک کی گئی ۔ پھر اب الیکشن کمیشن کا فساد برپا کیا جا رہا ہے، کبھی عدلیہ پر تہمت لگا دی ، کبھی اداروں کا تمسخر اڑا دیا ، کبھی سر پر دوپٹہ ڈال کر سیاستدانوں کی نقل اتار دی، کبھی بیان سے مکر گئے اور کبھی بلاضرورت کچھ کہہ گئے۔
تو اے پی ٹی آئی کے دوستو اس میں چنداں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔یہ ابھی آغاز ہے اس ہذیان کا جو سر چڑھ کر بول رہا ہے، یہ ابھی ابتدا ہے ان حسرتوں کی جو نا تمام رہ گئی ہیں، اقتدار کے سنگھاسن کے خواب جب تعبیر نہیں ہوتے تو ایسے ہی المناک منظر دیکھنے میں آتے ہیں۔جاوید لطیف کی واہیات گفتگو اور مراد سعید کی مکہ بازی بھی اسی تربیت کا نتیجہ ہے۔ پھٹیچر والی وڈیو منظر عام پر لانے والی باصلاحیت رپورٹرعفت رضوی کی خانگی زندگی کے حوالے سے بولا گیا جھوٹ بھی اسی سلسلے کی ایک ہولناک کڑی ہے۔ابھی تو بہت کچھ ہونا ہے۔کچھ بعید نہیں کسی دن خاں صاحب حکم دے دیں کہ ہر مخالف کو سرعام پتھر مارے جائیں تو لوگ یہ سنگ پاشی شروع کر دیں گے، کوئی پتہ نہیں کسی دن خان صاحب جوش خطابت میں ہر دوسرے صوبے کو غدار کہہ دیں،کوئی بعید نہیں کہ کسی ایک جماعت کو کافر قرار دے دیں۔ممکن ہے کسی دن اس بات پر دھرنا دے دیں کہ پاناما کیس کو سلیبس کا حصہ بنائیں،کسی دن اسمبلی کی چھت پر چڑھ کر کہیں میں تو تب اتروں گا اگر وزیر اعظم استعفی دے دیں، پارلیمنٹ توڑ دی جائے، عدلیہ مستعفی ہوجائے، ادارے فارغ کر دیئے جائیں۔ جمہوریت کوسرکاری سطح پر گالی قرار دے دیا جائے تو تب میں اس چھت سے اتروں گا۔ ا بھی آگے آگے دیکھئے کیا ہوتا ہے۔ ابھی تو ابتدا عشق ہے۔تو پیش گوئی نمبر ایک تو یہ ہو گئی کہ یہ انداز گفتار مزید شدت اختیار کر ے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خان صاحب کی مقبولیت میں دن بہ دن کمی ہوتی جا رہی ہے۔ قریبی ساتھی چھوڑ کر جا رہے ہیں، جماعت کا شیرازہ بکھر رہا ہے، ضمنی انتخابات میں شکست پر شکست ہو رہی ہے، بہت سے رہنما دوسری جماعتوں میں شامل ہونے کے لئے پر تول رہے ہیں، کے پی حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھ رہے ہیں،عوام کی فلاح کے نام پر صرف درخت لگانے کا نعرہ لگ رہا ہے۔پارٹی خان صاحب کے ہاتھ سے نکل کر چند مصلحت پسندوں کے ہتھے چڑھ گئی ہے۔ہم جیسے جمہوریت پسند جو کئی برسوں سے راگ الاپ رہے ہیں کہ نظام کو چلنے دیں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ عام آدمی ووٹ کی طاقت سے فیصلہ کرے گا۔ ہم یہ بھی دلیلیں دیتے رہے کہ پہلا جمہوری دور بہت براتھا ، دوسرا اس سے بہتر ہے۔ لیکن ابھی بھی بہت سے کام رہتے ہیں ۔ صحت اور تعلیم کا شعبہ ابھی بھی نظر انداز کیا جا رہا ہے۔لیکن تیسرا جمہوری دور جو ہو گا اس میں حالات بہت بہتر ہو جائیں گے۔عام آدمی کو فلاح ملے گی، غربت مٹے گی، روزگا ر ملے گا۔صنعتیں ترقی کریں گی، شاہراہیں ہر شہر میں تعمیر ہوں گی۔ اور جس جماعت نے اچھا کام کیا ہو گا لوگ اس کی ہر صوبے میں پذیرائی کریں گے۔ اس کو ووٹ دیں گے ۔ اس کو حکمرانی کا حق دیں گے۔اب چار سال گزر گئے ہیں۔ اب بے خبر اور کرپٹ حکمرانوں کے احتساب کا وقت قریب آ رہا ہے۔اب راج کرے گی خلق خدا۔۔
لیکن یہ بات خان صاحب کو پسند نہیں آ رہی ۔ انہوں نے گزشتہ برسوں میں بہت کوشش کی کہ نظام لپٹ جائے، ادارے تہس نہس ہو جائیں اور کسی طرح وہ وزیر اعظم بن جائیں۔ اس سارے ہذیان میں وہ یہ بھول گئے کہ الیکشن بھی ہونے ہیں ، کارکردگی پر بھی بات ہونی ہے، ووٹ سے بھی احتساب ہونا ہے۔سچ بات تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے کے پی میں نہ کوئی کام کیا ہے اور نہ ہی اب اسکا کوئی امکان نظر آ رہا ہے۔ میری پیشن گوئی اب سن لیں۔ خان صاحب دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیں گے۔ بہانہ کچھ بھی بنائیں اب وہ اس کارکردگی کے ساتھ عوام کے سامنے نہیں جا سکتے۔ اب انہیںکسی حیلے کی تلاش ہے کہ کسی طرح اگلے انتخابات سے انکار کا کوئی موقع ملے۔ بھاگ جانے کا کوئی رستہ سجھائی دے۔فرار کی کوئی راہ نصیب ہو۔ جمہوریت پسند پی ٹی آئی کے دوستو ابھی آپ نے بہت کچھ دیکھنا ہے۔ابھی سے پریشان نہ ہوں۔پیش گوئی نمبر دو یہ ہو گئی کہ خان صاحب ہر ممکن کوشش کریں گےکہ انتخابات میں نہ جانا پڑے۔
کوئی کالم ، ٹی وی پروگرام آج کل اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک اس میں پاناما کیس کے فیصلے کے حوالے سے بات نہ ہو۔ ہر اینکر نے اپنی عدالت لگا دی ہے اور اپنا اپنا فیصلہ سب ہی سنا چکے ہیں۔کچھ پروگراموں میں تو یہ بحث اتنے وثوق سے ہو رہی تھی کہ جیسے پروگرام نہ ہو سپریم کورٹ کا اجلاس ہو۔اس سلسلے میں ، میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ میں اس موضوع پر گفتگو سے اجتناب کرتا ہوں۔ اس کی ایک وجہ تو قانونی معاملات سے بے بہرہ ہونا ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ جب ایک کیس عدالت میں ہے اس پر بات نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن چونکہ ہر وقت صحافی دوستوں سے بات اور ملاقات ہو تی رہتی ہے تو جو کچھ اندازے سامنے آئے ہیں ان کو بتا کر بات ختم کرتا ہوں۔ اس کو آپ پیش گوئی نمبر تین بھی کہہ سکتے ہیں۔ ایک تو توقع یہ ہے کہ کوئی حیران کن فیصلہ نہیں آئے گا۔ نظام چلتا رہے گا، دونوں جانب سے ثبوتوں کی عدم دستیابی کی صورت میں ہو سکتا ہے کہ کمیشن بنانے کا حکم دے دیا جائے ، خان صاحب کی توقعات کے برخلاف وزیراعظم، وزیر اعظم ہی رہیں گے۔البتہ حدیبہ پیپر مل کے معاملے پر سختی ہونے کا امکان ہے۔نیب اور ایف بی آر کے اداروں کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھیں گے اور ان اداروں کے چیئر مین کے انتخاب کے طریقہ کار پر نظر ثانی کا حکم بھی آ سکتا ہے۔یہ صرف قیافے ہیں اندازے ہیں ، پیش گوئیاں ہیں اب اگر ایسا ہی ہو جائے تو میرا کوئی دوش نہیں۔

.
تازہ ترین