• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کی کئی جہتیں اور پرتیں ہیں. مورخہ 10جنوری کو روزنامہ جنگ کے ادارتی صفحے پر جناب نجم سیٹھی نے اپنے کالم بعنوان’’مشرق وسطی کے مسائل میں پاکستان کی آزمائش‘‘ میں لکھا ہے کہ حکومت پاکستان کو ایران سعودی تنازع میں سعودی عرب کی حمایت سے بچنا چاہئے اور اس معاملے میں مالی و مادی مفادات کے بجائے سماجی ہم آہنگی اور قومی سلامتی کو مدنظر رکھا جائے۔درست بات یہی ہے کہ سماجی ہم آہنگی اور قومی سلامتی کو بہر حال مدنظر رکھا جائے لیکن صرف سعودیہ کے معاملے میں ہی کیوں؟ کاش کہ نجم سیٹھی اور اس قبیل کے دوسرے لوگ امریکہ سے تعلقات کے باب میں بھی یہی موقف اختیار کریں۔ جب امریکی مفادات کی بات آتی ہے تو یہی دانشور اور تجزیہ نگار ہمیں بتاتے ہیں کہ جذباتی باتیں اپنی جگہ ،قومی مفاد مالی و معاشی استحکام کیساتھ جڑا ہوا ہے اور امریکہ کی مخالفت پاکستان کیلئے سودمند نہیں وغیرہ وغیرہ۔مگر جونہی سعودی عرب کا ذکر آئے تو ہمارے یہ دوست معیشت پر مبنی دلیل کو یکسر بھلا کر سماجی ہم آہنگی کا راگ الاپنا شروع کر دیتے ہیں۔ایران، سعودی تعلقات کے تناظر میں ہمارے لبرل اور سیکولر حلقوں کو تو اس کے مذہبی پہلو سے یکسر بے اعتنائی برتتے ہوئے خالصتا مادی و معاشی دلائل کو سامنے لانا چاہئے۔ ایسا مگر اس لیے نہیں کیا جاتا کہ وہ جانتے ہیں معاشی دلائل پوری طرح سعودی عرب کے حق میں ہیں اور سعودی عرب سے صرف ترسیل زر کی مد میں آنے والی رقوم پاکستان میں سال 2015 میں وصول ہونے والے کل 18 ارب روپے کا تقریبا 30 فیصد تھیں۔ ماہر اقتصادیات ڈاکٹر عتیق الرحمن کی تحقیق کے مطابق سعودی عرب اور یو اے ای سے پاکستان کو کل ترسیلات زر کا 55 فیصد وصول ہوتا ہے اور اگر اس رقم کو خطرات لاحق ہونے کا اندیشہ ہو تو پاکستان کی معیشت کو برباد کرنے کیلئے کسی اور دھچکے کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان کا سالانہ تجارتی خسارہ 18 ارب کے لگ بھگ ہے اور اس کو ترسیلات زر سے پورا کیا جاتا ہے۔ خلیجی ممالک میں مصروف عمل 35 لاکھ کے قریب پاکستانی اپنی رقوم سے اس تجارتی خسارے کو پورا کرتے ہیں اور ان میں سے نصف پاکستانی بھی اگر ہماری کسی احمقانہ پالیسی کا شکار ہوکر واپس آئیں تو اس کے ملکی معیشت پر بھیانک اثرات مرتب ہوں گے۔ خلیجی جنگ کے دوران اور بعد ازاں لیبیا کے حالات سے تنگ پاکستانی ملک میں واپس آکر جس کسمپرسی کا شکار ہوئے تھے وہ ہمارے سامنے کی بات ہے۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ خلیجی ممالک میں کام کرنے والے پاکستانی کثیر تعداد میں نیم خواندہ یا ان پڑھ ہیں اور وہ منظم طریقے سے پاکستان میں لابنگ نہیں کرسکتے تاکہ یہاں کی حکومت کوئی ایسی پالیسی اختیار نہ کرے جو ان کے مستقبل کے لئے نقصان دہ ہو۔ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک سے آنے والی یہ رقوم کتنے ہی سالوں سے پاکستان میں آرہی ہیں. یہ سب اس معاونت کے علاوہ ہے جو سعودی حکومت براہ راست حکومت پاکستان اور اس کے اداروں کو فراہم کرتی ہے۔ بدقسمتی سے پاک سعودی تعلقات کی معاشی اساس پر دونوں طرف کے تھنک ٹینکس نے کوئی مربوط کام کیا ہے اورنہ ہی ہمارے ہاں کا لبرل طبقہ جو اس سے بخوبی واقف ہے وہ اس طرح کے دلائل کو سامنے لانا چاہتا ہے۔ آپ کو پاکستان اور بھوٹان تک کے معاشی و تجارتی تعلقات پر ہمارے اداروں اور تھنک ٹینکس کی رپورٹس مل جائیں گی مگر سعودی عرب سے جو ہمارے معاشی مفادات وابستہ ہیں ان کے بارے میں اخباری سطح کے کام کے علاوہ کچھ بھی ملنا مشکل ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاک سعودی تعلقات کی بحث سمٹ سمٹا کر مذہبی دائرے میں سکڑ جاتی ہے اور پاکستان میں اس کی تقسیم سنی و شیعہ حلقوں میں ہوجاتی ہے۔ جس طرح امریکہ و یورپ سے تعلقات کو مسلم و غیر مسلم تقسیم کی بنیاد پر نہیں استوار کیا جاتا بعینہ اسی طرح سعودی عرب سے پاکستان کے تعلقات کا مذہبی پہلو ضمنی رہنا چاہئے اور اس کا معاشی و تجارتی پس منظر اور حقائق ہماری حکومت مقتدر حلقوں اور تجزیہ نگاروں کو اجاگر کرنا چاہئے۔
یہ امر اپنی جگہ معنی خیز ہے کہ نجم سیٹھی صاحب اور ان جیسے دیگر صحافی سعودی عرب کے معاملے میں ڈنڈی مارنے سے باز نہیں آتے اور فورا ہی ملکی معاشی مفاد کو چھوڑ کر سنی و شیعہ کی بحث شروع کر دیتے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ پاکستان کے مقتدر حلقوں کو یہ بتائیں کہ سنی و شیعہ ہونے کی بنیاد پر کوئی فیصلہ صادر نہ کریں اور پاکستان کا معاشی و مادی مفاد سامنے رکھ کر فیصلہ کرلیں کہ سعودیہ اور ایران میں سے کس کی حمایت کرنی ہے. یہ ان کے اپنے بنائے ہوئے معیارہیں اور مذہبی دلائل دینے والوں کو ماضی میں ’’غیرت بریگیڈ‘‘کہہ کر یہی لوگ مطعون کرتے رہے ہیں۔ آج یوٹرن کس حیثیت سے؟
تازہ ترین