• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اپنے حالات اور حرکتیں دیکھ کر مجھے تاتاریوں کے نرغے میں گھرا بغداد یاد آتا ہے۔ اوپر سے نیچے اور دائیں سے بائیں تک اپنی صحیح صورتحال اور پوزیشن کو سمجھنا ہو تو صرف ان دو چار باتوں پر غور فرمالیں۔امریکن کانگریس میں پاکستان کو دہشت گردی کا کفیل قرار دینے کا بل پیش کردیا گیا ہے اور یہ بل پیش کرنے والا ایک انتہائی بارسوخ رکن ٹیڈپو ہے۔ بل کی آئوٹ لائن کچھ یوں ہے کہ پاکستان دہشت گردی کا سہولت کار ہے جس کا اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام آباد نے امریکہ کے دشمنوں کی مدد کی، ہمیں دھوکہ دیا گیا، ری پبلکن رکن کانگریس نے پاکستان کو انعام دینے پر پابندی اور پاکستان کو دہشت گردوں کا کفیل قرار دینے کا مطالبہ بھی کیا ۔ اس سلسلہ میں انگریزی اخبار کی سرخی ہے،"Anti Pakistan bill presented in US congress."یہ تو ہوگئی گلوبل لیول پر ایک ’’دوست‘‘ ملک کے حوالہ سے قابل غور پیش رفت۔ اب چلتے ہیں ایک بظاہر معمولی حقیر اور گھٹیا قسم کی خبر کی جانب جو مجھ جیسے شخص کے لئے ہمارے اجتماعی کردار کا خلاصہ اور پہلی خبر سے بھی زیادہ خطرناک ہے اور وہ یہ کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سب سے بڑے صوبے پنجاب میں جس پر گڈ گورننس کی تہمت بھی ہے، 24عدد منرل واٹر کمپنیوں کا پانی غیر معیاری پایا گیا ہے۔ یہاں ایک بار پھر ضمناً عرض کرتا چلوں کہ رپورٹر نے معصومیت کے باعث ’’منرل واٹر‘‘ لکھا ہے ورنہ یہ صرف نام نہاد پریمیم ڈرنکنگ واٹر ہوتا ہے۔ منرل واٹر یکسر مختلف شے اور اس طرح ٹکے ٹوکری نہیں ہوتا۔ اصل بات یہ ہے کہ جہاں حکومتیں اور کمپنیاں مل کر بھی عوام کو صاف ستھرا معیاری پانی بھی مہیا نہ کرسکیں وہاں کے موضوعات اور ایشوز کیا ایسے ہی ہونے چائیں جیسے ہم نے بنا رکھتے ہیں؟ ایک طرف ہندوستان کے مجنونانہ مکروہ ترین عزائم جنہیں یہ ہمسایہ ملک چھپانے کا تکلف بھی نہیں کرتا، دوسری طرف’’برادر اسلامی‘‘ملک افغانستان جیسی کٹھ پتلی جس کا ریموٹ ہندوستان کے پنجے میں ہے۔ فوجی عدالتوں میں توسیع کا بلSEE SAWیا آنکھ مچولی کھیل رہا ہے، پاناما کا فیصلہ قوم کے سر پر کچے دھاگے سے بندھی زہر بجھی تلوار کی طرف لٹک رہا ہے۔ فیصلہ جو بھی ہوگا، اک خاص قسم کے سائیڈ ایفکٹس اور آفٹر ایفکس سے بھرپور ہوگا۔ کرپشن’’وے آف لائف‘‘ اور’’کلچر‘‘ کا درجہ حاصل کرچکی۔ ادارے کھوکھلے اور بری طرح کھچکے ہوئے ہیں۔ ڈسپلن نام کی کسی شےکا سایہ تک بھی کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ بے شرمی، بے حیائی اور ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ حکومت ناجائز قابضین سے اپنی جگہ خالی کرانا چاہے تو وہ نہ صرف جنگ و جدل پراتر آتے ہیں بلکہ مظلوم بننے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ ملک کا سب سے بڑا شہر عملاً میگا کچرا ڈھیر بن چکا ہے، ارکان اسمبلی کی پرفارمنس نے فخر سے ہمارے سر بلند کردئیے کہ مقدس ایوانوں میں مائوں بہنوں کے ناموں سے بھی پنگ پانگ متعارف ہوچکی۔ قتل کے چار ملزمان 16سال بعد بے گناہ قرار دے کر رہا کر دئیے جاتے ہیں اور سپریم کورٹ کو کہنا پڑتا ہے کہ ’’ہائی کورٹ نے کمال کردیا، گواہی بھی نہ مانی،عمر قید بھی سنادی‘‘۔چیئرمین سینٹ اس بات پر بجا برہم ہیں کہ میجر جنرلز اور اوپر کے افسران کی مراعات طلب کرنے پر بھی پیش نہیں کی گئیں۔ محکمہ ڈاک دہشت گردی کے ختم نہ ہوتے ہوئے طویل موسم میں بھی ہزاروں جعلی اسلحہ لائسنسوں کی تجدید کردیتا ہے۔ سانحہ ماڈل ٹائون کے چودہ مقتولین اور سو کے قریب زخمی قصہ پارینہ بن چکے۔ وزیر داخلہ کا یہ اعتراف ریکارڈ پر آچکا کہ’’اسلام آباد میں بھی خواتین کی عزت محفوظ نہیں رہی‘‘۔ سکول ٹائم میں طالبعلم کو ڈیرے پر جانے سے روکنے کے جرم پر گائوں کے چوہدری استاد پر تشدد کرنے کے بعد اس کا سر اور بھنویں مونڈ دیتے ہیں۔ دودھ میں کیمیکلز، جعلی دوائیں اور ڈگریاں،’’فائیو سٹار‘‘ ہوٹلوں اور ریستورانوں پر بھی چھاپہ مارو تو غلاظت کے ڈھیر ملتے ہیں۔عملاً ملک اک ایسے جسم کی مانند ہے جس کے ہر مسام میں نیزہ گڑا ہوا ہے اور ہر نیزے کی انی زہر آلود ہے لیکن میں حیران ہوں کہ ایسے حالات........گلوبل سے لے کر لوکل لیول تک ایسے دہلا دینے والے حالات میں بھی ہمارے’’موضوعات‘‘ کیا ہیں؟ ہمارے’’ایشوز‘‘ کیا ہیں؟اتنے دن ہوگئے.......پھٹیچر‘‘ اور’’ریلوکٹے‘‘ ہی جان نہیں چھوڑ رہے۔ کیا واقعی یہ’’موضوع‘‘ اس قابل ہے کہ اسے اتنا لٹکایا اور گھسیٹا جائے؟ میں نے بھی ’’رپورٹ کارڈ‘‘ میں اس کی مذمت کی حالانکہ پی ٹی آئی اور عمران خان کے لئے نرم گوشہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں لیکن بات قابل مذمت تھی تو کی بھی لیکن اب تو کان پکنے اور آنکھیں دکھنے لگی ہیں اور اسی لئے کالم کا آغاز اس بات سے کیا تھا کہ اپنے حالات اور حرکتیں دیکھ کر مجھے وحشی تاتاریوں کی یلغار کا شکار بغداد یاد آرہا ہے جب ہلاکو اس عروس البلاد کو بیوہ اور بے حرمت کرنے پر تلا ہوا تھا اور اس شہر کے سیانے اس موضوع پر بحث میں مگن اور مصروف تھے کہ کوّا حلال ہے یا حرام اور سوئی کے سوراخ میں سے کتنے فرشتے گزر سکتے ہیں۔



.
تازہ ترین