• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خدا خدا کر کے سکوت ٹوٹا۔ برسوں بعد کرکٹ کی رونق لگی اور خوب لگی۔ لاہور میں پاکستان سپرلیگ کے فائنل کا جرأت مندانہ فیصلہ ہوا ہی تھا کہ دہشت گردوں نے لاہور اور سہون شریف میں شہباز قلندر کے دھمال ڈالتے ملنگوں کو خون میں نہلا دیا۔ اطلاعات تھیں کہ دہشت گرد فائنل میچ کے روز پھر سے شب خون ماریں گے۔ منتظمین، حکومت اور ریاست کے لئے بڑا چیلنج تھا اور سب کمربستہ ہو کر کھڑے ہو گئے اور کرکٹ کے شیدائیوں کی خوشیاں مٹانے والوں کو منہ کی کھانی پڑی۔ سوال فقط ایک میچ کے انعقاد کا نہ تھا، بلکہ چھینی گئی خوشیاں، کھیل کود، ناچ گانے اور ثقافتی میدان کو پھر سے زندہ اور شادباد کرنا تھا۔ ایسے میں طرح طرح کے بھول بھجکڑ میدان میں کود پڑے اور کیا دھول تھی جو نہ اُڑائی گئی۔ بھلا ایک میچ سے کیا ہونے والا ہے؟ ہمارے بقراط (Nihilist) بولے اور وہ بھی ایک موثر متبادل بیانیے کی ضرورت پہ اصرار کرتے ہوئے۔ بھلا اِن سے کوئی پوچھے کہ ثقافت (جس کا کہ اسپورٹس کلچر ایک اہم حصہ ہے) کے نوع بنوع اظہار کے بنا آپ کس طرح متشدد رجعت کو خاک اُڑانے سے روک سکیں گے؟ پی ایس ایل کے فائنل میچ کا لاہور میں انعقاد بھی ایک جیتا جاگتا بیانیہ تھا اور ایسے سینکڑوں مظاہروں سے ہی آپ پاک سرزمین کو انتہاپسندی سے پاک کر سکیں گے۔ بدقسمتی سے اس موقع پر کفن پھاڑ کر بولے بھی تو ہمارے کرکٹ کے عظیم ہیرو عمران خان۔ ایک طرف طالبان دھمکیاں دے رہے تھے اور دوسری جانب عمران خان اس کے انعقاد کو ’’خودکشی‘‘ قرار دے کر اپنے کرکٹ کے شیدائیوں کی ترجمانی کی بجائے طالبان کی دھمکیوں کی تصدیق کر رہے تھے۔ کوئی عمران خان کو کیا سمجھائے کہ حضور اپنے ہی پاؤں پہ کلہاڑا مارنا کوئی آپ سے سیکھے۔ کرکٹ کا میدان اور کرکٹ کے بیتاب شیدائی ایک طرف اور اُن کا کرکٹ ہیرو اُن کی خوشی میں کھنڈت ڈالنے پہ مُصر۔ اگر عمران خان مخالفت کی بجائے میدان میں آ جاتے تو وہ میلہ لوٹ لیتے۔ رہی سہی کسر اُن کے کھلاڑیوں کے بارے میں پھٹیچر بیان نے پوری کر دی اور وہ خود مضحکہ بن کے رہ گئے۔ نجم سیٹھی نے نہ صرف پاکستان سپر لیگ کھڑی کر دی بلکہ دہشت گردوںکا اسپورٹس پہ لگا کرفیو بھی توڑ ڈالا۔ جلے بھنے خان صاحب نے اپنا میدان اور حلقہ نواز لیگ کے حوالے کر دیا اور وزیراعلیٰ شہباز شریف مردِ میدان بن کر سامنے آئے۔ اسے کہتے ہیں پھٹیچر سیاست کا خمیازہ!
پھٹیچر سیاست تو چلتی ہی رہے گی اور ہمارے لئے تفریح کا سامان میسر کرتی رہے گی۔ لیکن یہ جو میڈیا میں کچھ لوگوں نے خوفناک طوفانِ بدتمیزی بپا کیا ہوا ہے، اس کا کوئی کیا کرے۔ جس کے منہ میں جو آتا ہے، بکے جا رہا ہے۔ نہ کوئی اخلاقی ضابطہ، نہ ذمہ داری، نہ بردباری، بلکہ زبان درازی، دشنام طرازی اور اشتعال انگیزی الیکٹرانک میڈیا میں چھا جانے کا سفلانہ نسخہ بن گئی ہے۔ حقِ اظہار، آزاد میڈیا، اطلاعات تک رسائی کے حق، جمہوری قدروں، انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے لئے ہم جمہوریت پسندوں نے کونسی قربانیاں تھیں کہ نہیں دیں۔ اُن کی اب ایسی پامالی کی جا رہی ہے کہ اللہ کی پناہ۔ بھئی آزادی کا مطلب یہ کہاں ہے کہ مجھے یا کسی کو کسی بھی شخص کی پگڑی اچھالنے، کسی کے خلاف اشتعال پھیلانے، تشدد پہ اُکسانے اور کردار کشی کا لائسنس مل گیا۔ جس انتہاپسند بیانیے کے توڑ کی ضرورت ہے، آزاد میڈیا کے اچھے بھلے حصے سے اُس کا پرچار کیا جا رہا ہے۔ اپنے ہی پیشے سے وابستہ لوگوں کی تکفیر کی جا رہی ہے، اُس پر نعوذ باللہ توہین کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ ملک دشمن قرار دیا جا رہا ہے، غلیظ بہتان طرازی کی جا رہی ہے اور یہ سب کچھ اسلام کے مقدس نام اور وطن کی سلامتی کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں کچھ میڈیا گروپوں میں کاروباری ناچاقیاں جلتی پہ تیل کا کام کر رہی ہیں اور بندروں کے ہاتھ میں اُسترے پکڑا دیئے گئے ہیں جو دوسروں کی ناک تو کاٹ رہے ہیں اور یہ بھولتے ہوئے کہ وہ دراصل صحافت کے پیشے کی ناک کاٹ رہے ہیں۔
ہم جیسے لوگ جو صحافت کو مقدس پیشہ جانتے ہوئے اس سے وابستہ ہوئے، آج پشیمان ہیں کہ کس برادری کا حصہ بن گئے ہیں اور عوام کی تضحیک کا نشانہ بھی۔ آزادئ اظہار، آزادئ نفرت نہیں۔ آزاد میڈیا خدائی فوجدار نہیں، نہ ہی ٹیلی وژن اسکرین پہ براجمان اینکر منصف ہو سکتے ہیں۔ جو لوگ ذاتی حساب کتاب چکانے کی خاطر حضورِ پُرنور حضرت محمد مصطفی ﷺ کے پاک نام کو استعمال کر رہے ہیں، دراصل خود توہین کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ جو پاک فوج کے ترجمان بن کر گولہ باری کر رہے ہیں۔ وہ بھی قومی سلامتی اور ایکتا کے لئے کچھ اچھا نہیں کر رہے۔ حضورؐ کی حرمت اور ملکی سلامتی ہر طرح کے نزاع سے پاک رکھنی چاہیے۔ جو گمراہ اور اشتعال پھیلانے والے نراجیت پسند اس قابلِ مذمت توہین کے کاروبار میں ملوث ہیں وہ درحقیقت اس معاشرے کو آگ کے دریا میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔ ایسے گمراہوں پہ اللہ اور اس کے رسول کی لعنت ہو اور انھیں قرارِ واقعی سزا دی جائے۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو تکفیر کے دھندے میں ملوث ہیں اور ہمارے معاشرے کو عدم رواداری کی خونی بھٹی میں جھونکنا چاہتے ہیں۔ اس خوفناک کاروبار سے وہ مخالفوں کے خلاف توہین کے جھوٹے الزامات لگا کر قتل و غارت گری کا بازار گرم کر کے قہرِخداوندی کو دعوت دے رہے ہیں۔ ایسے اشتعال انگیزوں کے منہ پر پٹہ باندھنے کی ضرورت ہے۔
سپریم کورٹ کے حکم پر ایسے ہی ایک اشتعال باز کے خلاف پیمرا کی شکایات کونسل کے سامنے درجنوں صحافی اور شہری پیش ہوئے۔ جو مواد اور شکایات پیش ہوئیں وہ انتہائی غیرمہذب، غیرمصدقہ، اشتعال انگیز اور نفرت پر مبنی پروگراموں سے متعلق تھیں۔ شکایت کنندگان مخمصے میں تھے کہ ایک طرف آزادئ اظہار کا دفاع اور دوسری جانب اظہارِ نفرت کو روکنے کیلئے تادیبی کارروائی کی استدعا۔ میں بھی ایک شکایت کنندہ تھا۔ مدعا علیہ کو کبھی نہ ملا اور نہ اسے میرے بارے میں کوئی ڈھنگ کی خبر تھی۔ عمومی الزامات تو لگتے رہتے ہیں لیکن جس طرح کی کینہ پروری اور گندی ذہنیت کا مظاہرہ کیا گیا تھا وہ کبھی سننے اور دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔ کوئی گند پھینکتا ہے تو اس اُمید پر کہ کچھ تو چپک جائے۔ لیکن جو بات مجھے دامن گیر ہوئی کہ مدعا علیہ کسی بہت خوفناک ذہنی بیماری کا شکار ہے اور وہ خود کو، صحافت کو، معاشرے اور ملک کو کسی بھی طرح کا نقصان پہنچا سکتا ہے ۔ ایسے خودپسند (Megalomaniac) اور نفسیاتی مریض (Psychopath) کو کسی نفسیاتی آشرم میں بھیجنے کی ضرورت ہے۔ زبان بندی کافی نہیں، دماغی علاج کی ضرورت ہے۔ مدعا علیہ سے میری مخلصانہ گزارش ہے کہ خود پہ ہی رحم کرے اور جس راہ پہ آگے ہی آگے جانے کی اُس نے ٹھانی ہے، اُس کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔ کوئی باؤلا ہو جائے تو اسے کوئی کیا سمجھائے۔ کیا عدالتیں ایسے خوفناک مریض کو دوسروں کی زندگیاں خطرے میں ڈالنے کی اجازت دے سکتی ہیں؟
میڈیا میں جاری اس طوفانِ بدتمیزی کو روکنے کیلئے ضابطۂ اخلاق پر سختی سے عمل درآمد کرنے کی جتنی آج ضرورت ہے غالباً کبھی نہ تھی۔ ہم نے آزاد میڈیا کیلئے لمبی جدوجہد اس لئے نہیں کی تھی کہ یہ ناسور بن جائے۔ ناسور کا علاج تو کرنا پڑے گا، ورنہ ہم نے جو آزادی حاصل کی تھی وہ گہنا جائے گی۔
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی



.
تازہ ترین