• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے طویل عرصے بعد سندھ کا دورہ کیا اور اگلے روز ٹھٹھہ میں جلسہ عام سے خطاب کیا لیکن اس دورے کو وزیر اعظم کی سندھ میں سیاسی سرگرمیوں سے تعبیر کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سندھ میں عوامی رابطہ مہم قرار دیا جا سکتا ہے ۔ اس جلسہ عام سے مسلم لیگ (ن) سندھ کے رہنماؤں کے تحفظات بھی دور نہیں ہوں گے اور سندھ کی سیاست پر بھی اس کے کوئی اثرات رونما نہیں ہوں گے ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اپنے حالیہ دور اقتدار میں مسلسل چار سال تک سندھ کو اپنی سیاسی ترجیحات میں شامل ہی نہیں کیا ۔ ٹھٹھہ میں جس طرح شیرازی برادران نے جلسہ عام کا اہتمام کیا ہے ، اس طرح کے جلسہ عام کا انعقاد سندھ کے دوسرے اضلاع میں ممکن نہیں ہے کیونکہ دیگر اضلاع میں مسلم لیگ (ن) کے شیرازی برادران جیسے رہنما اپنی قیادت سے مایوس ہو کر پیپلز پارٹی میں شامل ہو چکے ہیں ۔
شیرازی برادران پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل کیوں نہیں ہوئے اور ٹھٹھہ کے جلسہ عام سے کیا وہ سیاسی رہنما مسلم لیگ (ن) میں واپس آ جائیں گے ، جو یہ سوچ کر پارٹی سے الگ ہو گئے تھے کہ سندھ میں مسلم لیگ (ن) کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں ہے ؟ یہ بہت اہم سوال ہے ۔ ٹھٹھہ کے شیرازی برادران کے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت سے بہت روابط رہے اور ان کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کے معاملے پر بات چیت چلتی رہی ہے لیکن اطلاعات یہ ہیں کہ پیپلز پارٹی میں شمولیت کے بعد شیرازی برادران کا یہ مطالبہ تھا کہ انہیں ٹھٹھہ میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی اتنی نشستیں دی جائیں ، جو اس وقت ان کے پاس ہیں لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت اس بات پر راضی نہیں ہوئی ۔ پیپلز پارٹی کی فی الحال جو سندھ میں پوزیشن ہے ، اس میں شیرازی برادران کی سیاسی اہمیت کا وہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ، جو ان کی اپنے علاقے میں ہے ۔ سندھ کی ممتاز سیاسی شخصیات اور سیاسی خانوادوں کی دھڑا دھڑ پیپلز پارٹی میں شمولیت کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت شیرازی برادران کو قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی اسمبلی کی تین نشستیں دینے کے لئے تیار نہیں ہے ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت تو انہیں قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں دینے پر بھی راضی نہیں ہے حالانکہ شیرازی برادران اپنے علاقے میں اس قدر مقبول ہیں کہ وہ اپنی حیثیت میں یہ نشستیں جیت کر آتے ہیں ۔ انہوں نے ان نشستوں پر اس وقت بھی کامیابی حاصل کی ، جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کی حمایت کا طوفان تھا ۔ شیرازی برادران کے مطالبات تسلیم نہیں ہوئے ، اس لئے وہ پیپلز پارٹی میں شامل نہیں ہوئے ۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ اگر شیرازی برادران پیپلز پارٹی میں شامل ہو جاتے لیکن شیرازی برادران اپنی سیاسی اہمیت کم ہونے کی وجہ سے پیپلز پارٹی میں نہیں گئے ۔ سید اعجاز علی شاہ شیرازی اور شیرازی خاندان کے دیگر افراد نے کچھ دن پہلے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کرکے انہیں احساس دلایا کہ وہ سندھ کو نظر انداز نہ کریں ۔ ٹھٹھہ کے جلسہ عام سے صرف شیرازی برادران کی سیاسی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ اس جلسہ کا سندھ کی سیاست پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) سندھ کے جو رہنما اسے چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے ہیں ، ان کی واپسی کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ میاں محمد نواز شریف سندھ کی سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں ۔ انہوں نے سندھ کو پیپلز پارٹی کے حوالے کر دیا ہے اور شاید اس کے بدلے میں پیپلز پارٹی کی قیادت پنجاب میں اس دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کر رہی ہے ، جس کی اس سے توقع کی جا رہی ہے ۔ پنجاب میں بھی پیپلز پارٹی کے رہنما ، عہدیداران اور کارکن اپنی قیادت کے بارے میں اس طرح سوچ رہے ہیں ، جس طرح سندھ میں مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں اور کارکنوں کی اپنی قیادت کے بارے میں سوچ ہے ۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کے لوگ بھی لاشعوری طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے پنجاب کو مسلم لیگ (ن) کے لئے چھوڑ دیا ہے ۔ اس غیر اعلانیہ مفاہمت کا دونوں سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو احساس ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ دونوں سیاسی جماعتوں کی قیادت کے نزدیک یہ غیر اعلانیہ مفاہمت جمہوریت کے مستقبل کے لئے ضروری ہولیکن اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ پیپلز پارٹی کا مضبوط گڑھ صرف سندھ ہے اور مسلم لیگ (ن) پنجاب سے باہر نہیں نکلنا چاہتی ہے ۔
گزشتہ چار سال کے دوران اگر پیپلز پارٹی نے پنجاب میں اپنی مقبولیت کی بحالی کے لئے کچھ نہیں کیا اور مسلم لیگ (ن) نے سندھ میں اپنے سیاسی وجود کے خطرے کا ادراک نہیں کیا تو آئندہ ایک سال میں بھی ان کی پالیسی تبدیل نہیں ہو گی ۔ اگر دونوں سیاسی جماعتیں پالیسی تبدیل بھی کریں تو بھی اس مختصر عرصے میں اس کا کوئی سیاسی نتیجہ نہیں نکلے گا ۔ چار سال بعد بھی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف ٹھٹھہ کے جلسہ عام میں تقریر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ سندھ کی تعمیر نو کریں گے اور سندھ کے عوام کے زخموں پر مرہم رکھیں گے ۔ سندھ کے دیہات کو پنجاب کے شہروں سے بہتر بنائیں گے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سندھ کی حالت بدلنے کا اختیار وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے پاس تھا تو انہوں نے چار سال تک یہ کام کیوں نہیں کیے اور الیکشن سے صرف ایک سال پہلے سندھ کا نقشہ تبدیل کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں ۔ وزیر اعظم کا خطاب سیاسی تھا ۔ اس کا بھی سندھ کے لوگوں کو احساس ہے ۔ شیرازی برادران اپنے علاقے میں مقبولیت اور اپنے سیاسی وزن کی وجہ سے پیپلز پارٹی میں نہیں گئے ۔ مسلم لیگ (ن) کے دیگر رہنماؤں کی سندھ میں ایسی پوزیشن نہیں تھی یا نہیں ہے ۔
اس لئے مسلم لیگ (ن) کے زیادہ تر سیاسی رہنما پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے ہیں یا آئندہ ہونے والے ہیں ۔ جو لوگ مسلم لیگ (ن) کو نہیں چھوڑ سکتے ، انہیں بھی علم ہے کہ فی الحال سندھ میں مسلم لیگ (ن) کی سیاست کی بحالی کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ اس وقت تک صورت یہ ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کا کوئی سیاسی چیلنج نہیں ہے ۔ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف سمیت کوئی بھی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کو چیلنج نہیں کر سکتی ہے اور پنجاب میں کم از کم پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) کے لئے کوئی سیاسی چیلنج نہیں بن سکتی ہے ۔ وزیر اعظم کا دورہ ٹھٹھہ ’’ دیر آید درست آید ‘‘ بھی نہیں ہے ۔




.
تازہ ترین