• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دفتر سے ہو آئے، سستا لیا، کھانا بھی کھا لیا، ٹی وی دیکھ لیا، صوفے پر لیٹے لیٹے سیاست دانوں کو گالیاں بھی دے ڈالیں، انگوٹھے سے موبائل فون کا استعمال کر لیا، ایک دوسرے کو اچھے برے کلپ بھیج دئیے، کچھ وقت بچوں کے ساتھ گزار لیا، دوستوں سے گپ شپ کی، اخبار اُلٹ پلٹ کر دیکھا، بیزاری سے انگڑائی لی، روشنی گل کی اور سو گئے۔ دن تمام ہوا۔ زندگی بھی یونہی تمام ہو جائے گی۔
بظاہر یہ کوئی اتنی بری روٹین بھی نہیں، بندۂ مزدور کے اوقات اس سے کہیں تلخ ہیں اور کچھ لوگ اپنی اوقات سے کہیں زیادہ عیاشی بھی فرماتے ہیں جبکہ کچھ اِن دونوں کے درمیان میں لٹک کر سفید پوش کہلاتے ہیں ۔سوال یہ نہیں کہ کون کتنا مالدار ہے اور کیا دولت کمانا ہی کامیابی ہے، سوال یہ ہے کہ زندگی کس ڈھب سے گزاری جائے؟ مگر اِس سے بھی پہلے ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ سوال غریب اور پسے ہوئے طبقوں سے پوچھنا مناسب ہوگا جن کی زندگی یہی سوچتے گزر جاتی ہے کہ وہ آج کی روٹی خود کو اور اپنے بچوں کو کیسے کھلائیں گے! ظاہر ہے کہ یہ سوال اِن پر لاگو نہیں ہوتا۔ اسی طرح جنگ زدہ علاقوں میں دربدر مہاجرین، غلام ابن غلام خاندان، ظلم سہتی عورتیں، جیلوں میں ڈالے گئے بے گناہ لوگ، فٹ پاتھوں پر جنم لینے والی زندگیاں اور وہ تمام انسان جنہیں یہ زندگی ایک اذیت کے طور پر گزارنی ہے، اُن سے کسی قسم کا حساب مانگنا یا اُنہیں کامیاب لوگوں کی مثالیں دے کر سمجھانا کہ محنت کرنے سے زندگی میں مثبت تبدیلی لائی جاسکتی ہے اُن کے زخموں پر نمک پاشی کے سوا کچھ نہیں۔ سو میرا آج کا سوال ایسے لوگوں کے لئے نہیں، تاہم یہ سوال اُن کروڑوں لوگوں کے لئے ضرور ہے جو فکر معاش سے آزاد اور آسودہ حال ہیں، اُن لوگوں کے لئے بھی ہے جو زندگی میں جدوجہد ضرور کر رہے ہیں مگر اوپر دی گئی فہرست میں بہرحال ان کا نام نہیں آتا اور اُن لوگوں کے لئے بھی ہے جو اپنے تئیں کامیابی کے جھنڈے گاڑ کر بیٹھے ہیں۔ کیا یہ تمام لوگ زندگی ویسے گزار رہے ہیں جیسے گزارنے کا حق ہے؟
اس سوال کا جواب خاصا مشکل ہے مگر اس کے تین لٹمس ٹیسٹ ہیں۔ پہلا ٹیسٹ تو یہ ہے کہ آپ خود کو کٹہرے میں کھڑا کریں اور سوچیں کہ زندگی میں کیا آپ کا کوئی نظریہ، اقدار (values) یا اصول ہے؟ اور اگر ہے تو کیا ہے؟ ہم میں سے بہت سے لوگ تو شاید یہی نہ بتا پائیں کہ زندگی میں اُن کا نظریہ کیا ہے، وہ کہاں کھڑے ہیں، حق اور باطل کی لڑائی میں اُن کا کوئی موقف ہے بھی یا نہیں؟ اگر کوئی فخریہ انداز میں یہ کہتا ہے کہ اُس کا تعلق کسی جماعت سے نہیں، وہ عام شہری ہے، اسے کوئی غرض نہیں کہ کون حکومت کررہا ہے اور کون نہیں، وہ کسی قسم کی نظریاتی بحث میں الجھنا نہیں چاہتا، اسے بس اپنے کام سے غرض ہے تو سمجھ لیجئے کہ ایسے شخص کا کوئی نظریہ نہیں، کوئی موقف نہیں، وہ زندگی میں کوئی اسٹینڈ نہیں لینا چاہتا، وہ ایک ایسا انسان ہے جسے بھینس سے ہی تشبیہ دی جا سکتی ہے کیونکہ ایک بھینس کا بھی زندگی میں کوئی نظریہ نہیں ہوتا، وہ تمام دن بیٹھی بس جُگالی کرتی رہتی ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص نظریاتی ہونے کا دعوی کرے، یہ کہے کہ زندگی میں وہ حق سچ کا ساتھ دیتا ہے، زندگی میں اُس کی کچھ valuesہیں جن پر کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا تو ایسے شخص کے بارے میں اگلی بات یہ دیکھنا ہوگی کہ کیا اُس کا یہ دعویٰ درست بھی ہے یا نہیں۔ محض خود کو نظریاتی کہہ دینے سے کوئی شخص نظریاتی نہیں ہو جاتا اور یہ حق و باطل میں سے حق کا ساتھ دینے کا دعویٰ کرنے سے محض یہ دعویٰ سچ ثابت نہیں ہو جاتا، یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ اُس کے دعوی میں کتنی حقیقت ہے اور حقیقت آشکار ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ سو زندگی گزارنے کا پہلا لِٹمس ٹیسٹ یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ کوئی انسان اپنے نظریات، افکار، اقدار اور اصولوں کے بارے میں کتنا سنجیدہ ہے اور زندگی میں وہ کیا اسٹینڈ لیتا ہے۔
دوسرا لِٹمس ٹیسٹ یہ ہے کہ کیا جو کام بھی ہم کررہے ہیں وہ پوری مہارت اور جانفشانی سے اِس انداز میں کر رہے ہیں کہ اطمینان سے کہہ سکیں کہ میں نے زندگی میں اپنا بہترین صرف کر دیا ہے ؟اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ پر لازم ہے کہ جس بھی شعبے میں آپ ہیں اُس کے بلند ترین مقام پر ہی پہنچا جائے کیونکہ ایسا ہر کسی کے لئے ممکن نہیں ہوتا، بلندی پر ایک وقت میں صرف ایک ہی پوزیشن خالی ہوتی ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ اپنے شعبے میں آپ کو یہ تسلی ہو کہ جتنی خدا نے مجھے صلاحیت، مہارت اور سمجھ بوجھ عطا کی اُس کا میں نے حق ادا کر دیا، کوئی خلش دل میں نہیں باقی نہیں رہنی چاہئے، وقت ہر کوئی ضائع کرتا ہے مگر زندگی رائیگاں نہیں جانی چاہیے، جو کام بھی آپ کر رہے ہیں جس فیلڈ میں آپ ہیں اگر اُس کے بادشاہ نہیں بن سکتے تو کوئی بات نہیں اُس کی کسی شاخ کے کسی سب فیلڈ کے ماہر بن جائیں جس میں آپ کو یہ تسلی ہو کہ اس خلا کو آپ ہی نے پُر کیا ہے۔ خاصا مشکل لِٹمس ٹیسٹ ہے۔
تیسرا لِٹمس ٹیسٹ اتنا مشکل نہیں بشرطیکہ ایمانداری سے کیا جائے۔ اپنا بے رحمانہ احتساب کر کے صرف یہ دیکھنا ہے کہ عملی زندگی میں ہمارا برتائو کیسا ہے، ریاست سے انصاف مانگتے ہیں تو کیا خود بھی لوگوں سے انصاف کرتے ہیں؟ اپنی قابلیت، اہلیت اور ذہانت کے بل بوتے پر زندگی میں کامیابیاں سمیٹ تو لیں ہیں مگر کیا اِس کے ثمرات سوسائٹی کو واپس کرنے کے بارے میں بھی کبھی سوچا ہے؟ اخلاقی اقدار کے پاسدار بنے بیٹھے ہیں تو کیا کسی ریستوران میں کھانا کھاتے ہوئے اپنی نوعمر ملازمہ کی گود میں بچہ پکڑا کر اسے پرے بٹھا دیتے ہیں؟ بظاہر لبرل کا ٹیکہ ماتھے پر سجا رکھا ہے مگر کیا لبرل ازم کے اصول خود پر لاگو بھی کرتے ہیں؟ سو بظاہر اگر ہم پہلے دو لِٹمس ٹیسٹ امتیازی نمبروں سے پاس کر بھی لیں اگر تیسرے ٹیسٹ میں فیل ہیں تو سمجھئے کہ پہلے دو میں بھی ناکام ہی تھے ۔
سو پیارے بچو، لب لباب یہ ہوا کہ بے شک آپ موبائل فون استعمال کریں، ریستوران میں کھانے کھائیں، فلمیں دیکھیں، سیر و تفریح کریں، دوستوں کے ساتھ گھومیں پھریں، مگر گاہے بگاہے خود پر یہ لٹمس ٹیسٹ آزماتے رہیں، کامیابی قدم چومے گی بشرطیکہ تمام ٹیسٹس دیانت داری کے ساتھ اس نیت سے کئے جائیں کہ زندگی کا پرچہ بغیر نقل کے حل کیا جائے گا۔



.
تازہ ترین