• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انسانیت کے مقابل شیطانیت اور خوشیوں، نعمتوں اور رحمتوں کے مقابل دانستہ دکھ، غم، دہشت اور وحشت پھیلانے پر دسترس،اس دنیا کی بڑی ’’طاقتوں‘‘میں سے ایک ہے مگر مکمل انسان دشمن تعمیر کے مقابل بربادی اور امن و آشتی کے انتشار و فساد، باکردار اورانسانیت کے پیکرانسانوں کے ایمان و عقائد کے خلاف مزاحمت کرتے انسان نما شیطان ہیں ہیں دنیا میں شیطانی کھیل کھیلنے کے لئے (جس کے لئے وہ بااختیار ہیں) کہ اہل ایمان کاامتحان بھی مقصود ہے۔ یہ اس پیچیدہ جہان فانی کی بڑی اور انسان کو ازخود آسانی سے نہ سمجھ آنے والی پیچیدگی بھی ہے۔ جس کی حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں انسان کی ہدایت کے لئے کھول کھول کر بیان کیا، وہ انسان جو چاند پر پہنچ گیا، مریخ پر کمندیں ڈال رہا ہے اور لامحدود کائنات کی حدوں تک پہنچنے کے لئے سکت بھر کوشاں کہ وہ کھربا ہا میل دور سیاروں کے مسلسل مطالعہ اور تحقیق کے ذریعے راز ہائے کائنات کا متلاشی ہے، لیکن نیتوں، ضمیر اورشعور کو پڑھ کر یہ جاننا اس کے بس میں نہیں کہ اولاد آدم میں ہی بسنے والے شیطانوں میں وہ شیطان کون ہیں (اور کیوں ہیں) جو نادید و نامراد اور دشمن انسانیت ہیں۔ فساد ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے شیطانیت برپا کرتے ہوئے برائیوں کو اختیار کرنا اور اسے عام کرنا، اپنے تحفظ کے لئے، معصوم انسانوں کو اختلاف مسلسل میں الجھانا اور اختلاف کو دنگے فساد میں تبدیل کرکے اسے کرہ ارض پر پھیلانا اس کا اختیار اور معمول ہے۔ تبھی تو دنیا اتنی رنگا رنگ اور حسین ہو کر بھی فساد زدہ ہے اور انتشار جیسے اس کی گٹھی میں پڑا ہے۔ یوں اس میں بسنے والے لاکھوں، کروڑوں بلکہ اربوں آدم زاد شیطانیت کےاسیر ہوتے جاتے ہیں، یہ نہ ہوتا تو دنیا کوئی جنت سے جنت ہوتی راوی ہی فقط چین نہ لکھتا بلکہ ہر طر ف حقیقت میں چین ہی چین ہوتا۔ بڑے شیطانی کھیلوں میں ایک مقام غیب سے گھات لگائے ہوئے مذاہب کے تقدس پر حملہ آور ہو کر پیروکاروں کو مشتعل کرکے فساد پھیلانا ہے۔ اسلام میں اسی لئے غیرمذاہب کے احترام اور اس کے پیروکاروں میں پائے جانے والے تقدس کے تحفظ پر بہت زور دیا گیاہے۔ اسلامی تعلیمات و اقدار کے تمام تسلیم شدہ مواخذ میں مسلمانوں کو اس امر کی سختی سے تلقین کی گئی ہے کہ کسی کے بھی مذہب کو برا بھلا کہو نہ اس کے پیروکاروں کواس کی پیروی سے جبراً روکو یا اس میں کوئی رکاوٹ ڈالو۔ یہ تاکید و ہدایت اور مسلمانوں پر اس کی پیروی کی تلقین جس درجے پر ہے یہ دین اسلام کا خاصا بھی ہے اور لازمہ بھی، جو صرف کتابی اور نظری نہیں بلکہ مسلمانوں کے من حیث الامت اسے عملاً اختیار کرنے اور اس کے مثالی مظاہروں سے اسلامی تاریخ بھری پڑی ہے۔
بلاشبہ دوسرے مذاہب بھی غیر مذاہب کو برابھلا کہنے اور اس کے پیروکاروں کے تقدس کو مجروح کرنے کی اجازت تو نہیں دیتےلیکن مذہبی اختلاف کی بنیاد پر طاقت ہو تو حاضر صورت میں پورے دھڑلے سے اور مقام غیب سے بشکل سازش، اسلام اور اس کے مقدس ترین اعتقاد، تعلیمات اور ہستیوں پر حملہ آور ہونے کی شیطانیت کے مظاہرے پوری تاریخ میں ہوتے رہے۔ جس میں حکومتیں، ریاستیں، ٹولے اور شیطان صفت ملوث ہوتے آئے ہیں۔ زمانہ جاہلیت اور ارتقائی مراحل میں ہی نہیں، آج کے زمانہ ٔ جدید میں یورپ کی مہذب ترین اقوام کی دعویدار اور تسلیم شدہ اقوام میں متذکرہ نوعیت کے حملے، معصوم اور بیگناہ مسلمانوں کو (ایٹ لارج) مشتعل کرنے کے مظاہرے مختلف حیلے بہانوں، حربوں اور پوری دنیا میں نہ مانے جانے والے جواز کے ذریعے کئے گئے حتیٰ کہ سکینڈے نیویا جیسے الگ تھلگ اور امن و آشتی کا حکومتی اور عوامی مزاج ثابت کرنے والی اقوام بھی اس کی مرتکب ہوئیں ایسے کہ وہاں شیطان صفت افراد نے نہیں میڈیا، گروپس اور حکمرانوں نےایسے حملوں کواپنی آزادی اور بنیادی بنیاد قرار دے کر اس کار ِ بد کا جواز پیش کیا اور اپنا بنا امیج برباد، باوجود اس کے کہ وہ چند سال قبل سکینڈے نیویا میں گستاخی رسولﷺ سے پورے عالم اسلام اور دنیا بھر میں اٹھنے والے طوفان سے بخوبی واقف تھے۔
اب اس حربے کے لئے ’’سوشل میڈیا‘‘ کو استعمال کیاجانے لگا ہے جیسا کہ آج پھر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں گستاخانہ مواد سوشل میڈیا پر ڈالنے کی انتہائی اشتعال انگیز خبر زیربحث ہے۔ یہ کون کر رہا ہے؟ کیوں کررہاہے؟ اس کے پس پردہ اصل مقاصد کیا ہیں اور اس میں کس کس کی معاونت، ملک کی جاری سیاسی صورتحال میں ان سوالوں کاجواب پاکستان بھر کے مسلمانوں کی ہی نہیں تمام شہریوں کی اولین اور فوری ضرورت بن گئی ہے۔سوشل میڈیا جو مین اسٹریم میڈیا کی سی قابل اعتماد ادارہ سازی اور علمیت پر مبنی پروفیشنلزم سے محروم ہے، جس کے کتنے ہی پیغامات کو چھپے پیغام ساز اون کرنے کے لئے تیار نہیں، جس کا ذریعہ ترسیل، بدترین اور خطرناک پروپیگنڈا کے غیبی ذرائع کی طرح نہ معلوم ہے کے استعمال کنندگان کو یہ آزادی دی جاسکتی ہے کہ اسلامی تعلیمات پر حملہ آور ہو یا گستاخی رسولؐ کا مرتکب، کسی صورت نہیں کسی حالت میں نہیں۔ یہ بے حد سنگین اور حساس معاملہ ہے۔ قطعی ناقابل برداشت۔ اتنی ہی ریاست پابند ہے کہ دہشت گردی سے بڑھ کر اس فتنہ و فساد کے غیبی مرتکبین کا کھوج لگائے۔ پاکستان بھی کوئی یاس ملک نہیں جو آئی ٹی میں پسماندہ ہے، بلاشبہ یہ کئی اعتبارسے اک کار ِمشکل ہے۔ سوشل میڈیا کے شیطانی مجرموں کا کھوج لگانا آسان تو نہیں لیکن ممکن ہے۔ سو، ہر حالت میں حکومت پابند ہے کہ اگر ضروری ہے تو وہ اس سلسلے میں بیرونی حکومتی تعاون حاصل کرنے میں اپنی ذمہ داری پوری کرے اور عوام کو آگاہ کرے کہ کون ہمارے ساتھ تعاون کرتا ہے اور کون نہیں۔ اس کے حقائق کا آشکار ہونا ملکی ہی نہیں عالمی امن کا سنجیدہ ترین سوال ہے۔ اس ضمن میں سوشل میڈیا سے متعلق قانون سازی (اگر مطلوب ہے) میں تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں قانون سازی ہونی چاہئے اور کیسی ہونی چاہئے اس ضمن میں آئی ٹی ایکسپرٹس کا تعاون حاصل کرنا حکومت کے لئے قطعی مشکل نہیں۔ شیطانیت کاذریعہ ترسیل پاکستان میں ہے یا بیرون ملک، حکومت پابند ہے کہ اس کا کھوج لگائےاور جلد سے جلد حقائق، عوام کے سامنے لائے۔ یہ بزدلانہ مشورہ نہ دیا جائےکہ ’’عوام نہ دیکھیں‘‘ اسلام،اللہ اوراس کے رسولﷺ کی ناموس پر حملہ آور ہونے والے دہشت گردوں سے بڑھ کر دہشت گردہیں۔پھر اس کے قلع قمع کے لئے فقط حکومت پر ہی انحصار نہ کیا جائے کہ یہ پوری امت کے ایمان و عقیدت کا سنجیدہ ترین سوال ہے۔
کی محمدؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں



.
تازہ ترین