• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’ہور چوپو ‘‘ کا پنجابی محاورہ آکسفورڈ ڈکشنری میں نئےشامل ہونے والے امکانی الفاظ کی فہرست تک پہنچ چکا ہےلگتا ہے کہ امریکی کانگریس کے ایوان نمائندگان میں جس بل کے تحت پاکستان کو دہشت گردی کی معاونت کرنے والا ملک قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔اُس پر عمل درآمد ہوتے ہی یہ محاورہ باقاعدہ لغت کا حصہ بن جائے گا ۔رئوف کلاسرا سے لے کر عطاالحق قاسمی تک تقریباً سب اچھے کالموں نے اس محاورے کا بے دریغ استعمال کیا ہے۔کالم نگار عجیب لوگ ہوتے ہیں ۔ ذرا سی کوئی وجہ بن جائے تولوگوں کے گرویدہ ہو جاتے ہیں ۔ابھی دون پہلے کی بات ہےاپنے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد ہٹانے کا حکم جاری فرمایا ہے اور بڑے بڑے کالم نگار ان کے فین گروپ میں شامل ہو گئے ۔کچھ اہل قلم نے جماعت اسلامی کے بانی رکن مولانا نعیم صدیقی سے ان کے خاندانی تعلق کی عظمت بیان کی تو کسی نےآرڈر لکھواتے ہوئے ان کے آبدیدہ ہو جانے کا ذکر ِ خیر فرمایا ۔یہ سب اچھی باتیں ہیں۔اچھے لوگوں کو اچھے لوگوں کی وساطت سے یاد کرنا چاہئے ۔میرے خیال میں توان کا ذکر عرفان صدیقی کے حوالے سےبھی ہونا چاہئے کیونکہ وزیراعظم کےمشیربرائے قومی تاریخ و ادبی ورثہ عرفان صدیقی آج کے عہد میں مولانا نعیم صدیقی سے زیادہ اہم اوربڑی شخصیت ہیں۔ ایک آدھ کالم تو ان کی توصیف و تعریف میں بالکل ویسے ہی لکھا گیا ہےجیسے کسی زمانے میں افتخار محمد چوہدری کےلئے لکھے تھے ۔ موازنہ مقصود نہیں ۔ افتخار چوہدری سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے ۔اورانہوں نے آنکھیں جنرل پرویز مشرف کو دکھائی تھیں۔لوگوں کا خیال ہے کہ پانامہ کیس کے فیصلے کی وجہ سے بھی کچھ جج حضرات کی عزت و تکریم میں بہت اضافہ ہونے والا ہے ۔
بے شک توہین آمیز مواد چاہے سوشل میڈیا ہو یا کتابوں میں اُس کا خاتمہ ہر حکومت کی پہلی ترجیح ہونی چاہئے مگر اب تک یہ ہوا ہے کہ توہین آمیز مواد کسی ایک کتاب میں شائع ہے اورحکومت نےپرنٹنگ پریس ہی بند کردیا ہے۔یوٹیوب کا معاملہ بھی تقریباً ایسا تھا۔چاہئے تھا کہ یوٹیوب پر موجود توہین آمیز مواد پر پابندی لگائی جاتی ۔ہماری پیاری حکومت نےیو ٹیوب پر ہی پابندی لگادی کہ جب بانس ہی نہیں رہے گا تو بانسری کیسے بجے گی ۔فیس بک کا معاملہ بھی تقریباً ویسا ہی ہے کہ وہ دوچار پیجز جہاں بک بک کی گئی ہےانہیں بلاک کردیا جائے مگر اس کے برعکس حکومتی بزرجمہر عدالتی فیصلے کو بنیاد پر بنا کر فیس بک پر ہی پابندی لگانے کا سوچ رہے ہیں ۔یہ بات پاگل پن کی حد تک بے وقوفانہ ہے ۔کس قدر افسوس کی بات ہے کہ عقل مندی کی یہ بات کسی اور نے نہیں خود وزیر داخلہ نے کی ہے ۔ فرماتے ہیں ۔’’گستاخانہ مواد ہٹایا جائے وگرنہ تمام ویب سائٹس بلاک کردیں گے ۔‘‘
میری سمجھ میں یہ نہیں آ رہا کہ حکومت اس بات کو تماشا کیوں بنا رہی ہے ۔ صرف اتنی سی بات ہے کہ گستاخانہ لفظوں کی فہرست بنا کران پر سیکورٹی لگا دی جائے وہ کسی برائوزر میں اوپن نہ ہوں۔جس طرح حکومت نے جنسی مواد کی روک تھام کررکھی ہے مگرتوہین آمیز مواد کے سلسلے میں ایسا لگتا ہے کہ ہر جگہ اپنے نمبر بڑھائے جارہے ہیں یعنی بھولے بھالےعوام کو اور زیادہ بھولپن میں مبتلا کیا جارہا ہے۔
عدالت ِ عالیہ سے درخواست ہے کہ اس سلسلے میں ایسی کتابوں پر بھی پابندی ضروری ہے جن میں چھ سال کی بچی کا نکاح جیسے گھنائونے الزامات موجود ہیں۔گوگل والوں نے جو گستاخانہ فلم بنائی تھی جس کے خلاف ہم مسلمانوں نے پوری دنیا میں احتجاج کیا تھا۔اسی سلسلے میں تقریباً دس ہزار سے زائد لوگ گوگل کے لندن آفس کے باہرجمع ہوئے تھے ۔تقاریریں کی تھیں ۔(میرا یہ اعزاز ہے کہ میں بھی وہاںموجود تھا میں نے بھی تقریر کی تھی)۔پھر گوگل کے دفتر میں جا کر احتجاجی یادداشت بھی جمع کرائی تھی ۔کچھ دنوں کے بعد گوگل نے اس کا ایک جواب بھجوایا جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ ’’اس فلم میں موجود ہر واقعہ مسلمانوں کی کتابوں سے لیا گیا ہے اوران کے حوالے بھی دئیے گئے تھے ۔سو ایسی نام نہاد مذہبی کتابیں بھی قابلِ ضبطی سمجھی جانی چاہئیں۔بقول اکبر اللہ آبادی
ہم ان سب کتابوں کو قابل ِضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
لیکن پلیز ساری لائبریری کو جیل میں منتقل مت کیجئے گا ۔جیسی کہ ہمارے یہاں روایت رہی ہے۔جسٹس صاحب نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر توہین آمیز مواد ہٹانے کےلئے وزیر اعظم پاکستان کو بھی بلانا پڑا تو بلائیں گے ۔
میری معزز ترین جج صاحب کی خدمت میں چھوٹی سی درخواست ہے کہ وزیر اعظم بہت مصروف ہیں اور اگر انہیں بلانا بہت ہی ضروری ہے تو پاناما کیس پھر سے شروع کر کے بلا لیں ۔اس کیس میں وزیر اعظم پاکستان کوبلانے کی بجائے آئی ٹی سیکورٹی کے کسی ماہر کوبلانے کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر فاتح کو بلا لیں ۔چند گھنٹوں میں مسئلہ حل کردے گا۔ڈاکٹر فاتح جن دنوں ایف آئی اے فرینزک چیف تھا ایسے مسئلے پیدا ہی نہیں ہوتے تھے ۔پاکستان کو اپنی انٹر نیٹ سیکورٹی پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے ۔سنا ہے کہ جس بنیاد پر امریکی کانگریس نے پاکستان کے خلاف بل پاس کیا ہے وہ تمام معلومات بھی انٹرنیٹ ہیکنگ سے حاصل کی گئی ہیں ۔



.
تازہ ترین