• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کالم نگاری کو اگرچہ حالات حاضرہ پر ہلکی پھلکی گپ شپ کے اسیکورٹیسلوب میں پیش کیا جاتا ہے لیکن اس میںتدریجاً کئی حوالوں سے بڑی وسعت آتی چلی گئی ہے دنیا جہاں کے سنجیدہ موضوعات پر علمی مباحث بھی اس میں شامل ہوتے چلے جارہے ہیں موضوعات و عنوانات کی تو گویا کوئی حد ہی نہیں رہی ہے آپ کسی بھی انفرادی، گروہی، قومی یا بین الاقوامی ایشو کو اٹھاکر اس کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے اُسے کسی نتیجے پر پہنچا سکتے ہیں یا حکمت عملی کے تحت ادھورا بھی چھوڑ سکتے ہیں تاکہ قارئین ان کہی بات ازخود سمجھ سکیں۔ بہر حال بہتر کالم اُسے قرار دیا جاتا ہے جس میں کہی گئی بات کا بہتر ابلاغ عام قاری تک بخوبی ہوسکے اور وہ زیر بحث معاملے پر اپنی رائے بہتر بنا سکے۔ اسی سوچ کے زیر اثر بیشتر کالم ایسے ہوتے ہیں جنہیں دوبارہ پڑھے جانے کی ضرورت نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ ایسے کالموں کی زندگی بھی اتنی ہی ہوتی ہے کہ اگلے روز اس اخباری ٹکڑے میں پکوڑے بیچے جا سکیں۔ بلاشبہ یہ بھی خدمت کا ایک پہلو ہے لیکن اپنی نظر میں ایسی تحریر جس کی زندگی اتنی مختصر ہو اپنے قیمتی لمحات کا محض ضیاع ہے ایسے لکھنے اور چھپنے سے نہ لکھنا اور چھپنا بہتر ہے اگرچہ شعیب صاحب ایسی تحریروں کی اہمیت اور ان کا شانِ نزول اکثر ہمیں سمجھاتے رہتے ہیں لیکن وعدے کے باوجود ہم سے ان کی تکمیل ہو نہیں پاتی جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد پر طبیعت اِدھر نہیں آتی عوامی چسکا اگر ایسی چھوٹی باتوں میں ہے تو ہمیں اس چسکے کی نذر ہو جانے سے بہتر محسوس ہوتا ہے کہ اس عوامی مزاج کو بدل ڈالیں۔ اگرچہ یہ مشکل ہے مگر اس مشکل کو آساں کر کے چھوڑیں۔ ان شعوری، علمی اور ادبی مباحث کی اہمیت و افادیت اپنی جگہ مگر بعض مواقع پر شاعر مشرق کو بھی یہ کہنا پڑتا ہے کہ اچھا ہے دل کے پاس رہے پاسبانِ عقل لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے۔ ان دنوں قومی اسمبلی میں دو ممبران اسمبلی کے درمیان جو کھلی بے تکلفی ہوئی ہے اُس نے ہمیں غالب کی وہ محبوبہ یاد دلا دی جس کے متعلق آپ فرماتے ہیں؎
دھول دھپہ اس سراپا ناز کا شیوا نہیں
ہم ہی کر بیٹھے تھے غالب پیشِ دستی ایک دن
لیکن یہاں تو معاملہ اس سے کہیں آگے پہنچا ہوا دکھائی دیا ہے گویا مکا بازی عامر خاں سے سیکھی گئی ہے اور کسر پیشِ دستی کرنے والے نے بھی نہیں چھوڑی ہے شیخوپورہ سے مسلم لیگی ایم این اے نے پی ٹی آئی کے سوات سے منتخب ہونے والے رکن اسمبلی کے حوالے سے جس نوع کی الزام تراشی کی ہے وہ افسوسناک ہے جس کی ہم پر زور مذمت کرتے ہیں گویا مکے کھانے کی اسکیم انہوں نے ازخود تیا ر کی تھی ۔ نا قابلِ فہم بات یہ ہےکہ جب بھی لڑائی دو مردوں کے درمیان ہوتی ہے تو خاندان کے حوالے سے گندی زبان کیوں استعمال کی جاتی ہے؟ حالانکہ دعویٰ سبھی کا یہی ہوتا ہے کہ مائیں بہنیں اور بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں اس اصول کے تحت مراد سعید کا خاندان جاوید لطیف کے خاندان جیسا ہے لیکن نہ جانے اخلاقیات کی یہ بلندی ہم میں کب آئے گی شاید تقدیسِ مشرق میں خواتین کا احترام ہنوز لپ سروس یا محض الفاظ کی جگالی تک ہے کیونکہ موقع ملنے پر کمی کوئی بھی نہیں چھوڑتا ہے۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی والوں کا اپناریکارڈ بھی اس قدر برُا ہے کہ اگراس حوالے سے مثالیں پیش کی جائیں تو کالم کا دامن تنگ ہو جائے گا مگر مثالیں ختم نہیں ہونگی گویا بد تہذیبی ان لوگوں پر ختم ہے یا وہ کم از کم ہماری سوسائٹی میں اس کے معماران ہیں۔ عام لیڈران کی کیا بات کریں وہ صاحب جو پارٹی قیادت کی کرسی کو گویا پیدائشی وزیراعظم کی کرسی خیال کیے بیٹھے ہیں ہم نے اپنے گنہگار کانوں سے اور آنکھوں سے اُن کے ذہن مبارک سے پھلجھڑیاں بکھرتی دیکھی اور سنی ہیں ۔ابھی حال ہی میں ہم نے 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن مناتے ہوئے اس نوع کے اعلانا ت کیے ہیں کہ ہم عورت کی عظمت کو زمانے بھر میں منوائیں گے ہم خواتین کو ان کے تمام تر حقوق سماج سے دلوائیں گے ۔ اس نوع کے فخریہ بیانیوں سے ہمارے گلے خشک نہیں ہوتے ہیں کہ معزز خواتین کو جو عزت و قار اور عظمت ہم نے دے رکھی ہے مغرب اُس کے قدموں کو نہیں چھو سکا ماشاء اللہ باتوں کی حد تک ہم ضرور تیس مار خاں ہیں سارا کماد ہمارا اپنا ہے لیکن گنا توڑا تو ماموں مارے گا۔ بالفعل حالت یہ ہے کہ ہماری سوسائٹی میں کہیں بھی لڑائی چاہے دو مردوں میں ہو یا دو گروہوں میں ان کی غلیظ زبانیں ہوں یا نظر یں وہ ہمیشہ خواتین کی طرف کھلتی ہیں۔ عورت بھی مرد کی طرح برابر کی ایک انسان ہے تو پھر انسانوں کے درمیان جنسی و صنفی طور پر عدم مساوات کیوں روا رکھی جائے؟ اس کی بھی اگر سمجھ نہیں ہے تو کم از کم یہی تسلیم کر لیا جائے کہ مردوں کی لڑائی میں خواتین کی توہین روا نہیں رکھی جائے گی۔
ہم سمجھتے ہیں کہ عصرِ حاضر میں لڑائی مذاہب یا تاریخی شخصیات کے حوالے سے نہیں ہے اور نہ ہونی چاہیے کیونکہ آج انسانی شعور اس سطح پر پہنچ چکا ہے کہ جہاں کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ دوسرے کی دل آزاری کرے چاہے یہ مذہب کے حوالے سے ہو یا تاریخی شخصیات کے حوالے سے۔ دنیا کے تمام مذاہب اور ان سے منسوب مقدس ہستیاں ہم سب کے لئے واجب الاحترام ہیں ۔ہماری نظروں میں آج اصل لڑائی تہذیب اور بد تہذیبی یا شعور اور جہالت کے درمیان ہے۔ اقوام ِ عالم میں عظمت و امامت اسی کے حصے میں آئے گی جس کی شعوری سطح اتنی بلند ہوگی کہ انسانوں کی قدرو منزلت ان کی صلاحیتوں کے مطابق بلا تعصب تسلیم کی جائے گی جہاں مذہبی، نسلی، لسانی، یا جنسی امتیازات کا خاتمہ کرتے ہوئے انسان کی بطور انسان تکریم و توقیر کرتے ہوئے اسے اپنی تخلیقی صلاحیتیں دکھانے کے مواقع فراہم کیے جائیں گے بلا تخصیص مغرب و مشرق اسی کا نام تہذیب انسانی ہے اور آج ہر انسانی سماج کو اسی کی ضرورت ہے۔



.
تازہ ترین