• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’ہمیں فتووں سے آگے نکل کر قوم کے سامنے دین کا وہ حقیقی بیانیہ رکھنا ہوگا جو مذہب کے نام پر فساد کی مذمت کرتا ہے، دہشت گردی کیلئے دینی دلائل تراشے جاتے ہیں اور ہمیں ان کو رَدکرنا ہے‘‘ جامعہ نعیمیہ لاہور کے مذاکرے میں گزشتہ روز کہے گئے وزیراعظم کے یہ الفاظ فی الحقیقت اس اصل ضرورت کی نشان دہی کررہے ہیں جس کی تکمیل کے بغیر مسلم دنیا میں دہشت گردی کے مسلسل فروغ پذیر رجحانات کی جڑ کاٹنا محال ہے۔اس موقع پر وزیراعظم نے مزید کہا کہ علماء کی جانب سے عوام کو بتایاجانا چاہئے کہ وہ معاشرہ مسلم کہلانے کا مستحق نہیں جس میں مسلکی اختلافات کی وجہ سے انسان قتل ہوں، جہاں اقلیتیں خود کو غیرمحفوظ سمجھیں اور جہاں مذہب اختلاف اور تفرقے کا سبب بنے۔ ہمارے بیشتر موجودہ دینی مدارس کی ایک بنیادی خامی کو وزیراعظم نے علمائے کرام سے ایک سوال کی صورت میں یوں واضح کیا کہ ’’علماء کو سوچنا ہوگا کہ ہمارے دینی ادارے دین کے مبلغ پیدا کررہے ہیں یا مسالک کے علم بردار، اور اس کے نتیجے میں معاشرہ دین کی بنیاد پر جمع ہورہا ہے یا تقسیم؟‘‘دہشت گردی کے مرض کے اصل سبب کی نشان دہی وزیراعظم نے ان الفاظ میں کی کہ ’’دہشت گردی کی بنیادیں انتہاءپسندی میں ہیں، جس کا ایک مظہر فرقہ واریت ہے جبکہ دوسرے مظہر میں جہاد کے تصور کو مسخ کیا گیا اور خدا کے نام پر بے گناہوں کے قتل کو جائز قرار دے دیا گیا ہے۔‘‘ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’’یہی دو بیانیے ہیں جنہوں نے انتہاءپسند پیدا کیے، پہلے مسلمانوں کی تکفیر کی گئی پھر ان کے قتل کو جائز قرار دے دیا گیا، اس لیے ضروری ہے کہ ان بیانیوں کی غلطی کو واضح کیا جائے اور اسلام کی حقیقی تعلیمات پر مبنی بیانیہ جاری کیا جائے۔‘‘ وزیراعظم کے اس خطاب میں دہشت گردی اور فرقہ پرستی کے خاتمے کیلئے جس بنیادی ضرورت کی نشان دہی کی گئی ہے، اس کی جلد از جلد تکمیل بلاشبہ وقت کا ناگزیر تقاضا ہے۔ اسلام کے نام پر دہشت گردی اور فرقہ وارانہ قتل و غارت کا سلسلہ پاکستان سمیت کئی مسلم ملکوں میں برسوں سے جاری ہے، دہشت گرد اور مسلک پرست تنظیموں کو خود کش حملوں اور دوسرے طریقوں سے خوں ریزی اور ہلاکت خیزی پر آمادہ ہو جانے والی افرادی قوت اس یقین کی بنیاد پر حاصل ہوتی ہے کہ اس انسانیت سوز کارروائی کے مرتکب اللہ کی رضا پائیں گے اور سیدھے جنت میں جائیں گے۔ مسلک پرست دہشت گرد تنظیموں کی فکری قیادتیں اپنے گمراہ کن نظریات کو درست ثابت کرنے کیلئے قرآن و سنت سے اسی طرح غلط طور پر استدلال کرتی ہیں جو ڈیڑھ ہزار سالہ اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار میں ابھرنے والے متعدد بھٹکے ہوئے گروہوں کا وتیرہ رہا ہے۔ تاہم علمائے حق نے ایسے تمام گروہوں کے گمراہ کن نظریات کو قرآن و سنت کی تعلیمات کی حقیقی روح اور اصل منشاء کی روشنی میں واضح کرکے ان کا ایسا مؤثر سدباب کیا جس کے بعد مسلم معاشروں میں ان کے پنپنے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہی اور وہ کچھ مدت میں اپنی موت آپ مرگئے۔ آج بھی مسلم دنیا میں دہشت گردی کارروائیوں کو اللہ کی خوشنودی کے حصول کا ذریعہ ثابت کرنے کیلئے باقاعدہ ایک فکر اور فلسفہ رائج کیا گیا ہے لیکن قرآن و سنت کے احکام کی درست تشریح کی روشنی میں اس فکر اور فلسفے کی غلطی کو واضح کرنے کیلئے اب تک نہ علماء اور دینی اسکالروں کی جانب سے کوئی نمایاں کوشش منظر عام پر آئی ہے نہ حکومتی سطح پر اس سمت میں کوئی قابل ذکر پیش رفت دیکھی گئی ہے حالانکہ اس متبادل بیانیے کی تیاری نیشنل ایکشن پلان کا ایک بنیادی نکتہ بھی ہے۔ تاہم یہ امر اطمینان بخش ہے کہ آپریشن ردا لفساد کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم نے دہشت گردی اور مسلک پرستی کے خاتمے کیلئے امن و آشتی کے علمبردار دین کی حقیقی تعلیمات کے مطابق متبادل بیانیے کی تیاری کا مطالبہ علمائے کرام کے سامنے رکھ دیا ہے، امید ہے کہ تمام مکاتب فکر کے علمائے حق اس ضرورت کی تکمیل کیلئے آگے بڑھیں گے اورحکومت ان کے تعاون سے اس ہدف کے حصول کو جلد از جلد ممکن بنائے گی۔

.
تازہ ترین