• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
باب العلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ زبان وہ درندہ ہے جسے کھلا چھوڑ دیا جائے تو پھاڑ کھائے اور یہ بھی انہی کا فرمان ہے کہ آدمی کی قابلیت اس کی زبان کے نیچے پوشیدہ ہے جبکہ حضرت لقمان علیہ السلام سے منسوب بیان میں بھی سمجھنے والوں کیلئے واضح اشارہ ہے کہ جب خلقت میں جاؤ تو اپنی زبان کی نگہداشت کرو۔ زبان سے جو الفاظ ایک بار ادا ہو جائیں وہ تیر سے نکلے ہوئے کمان کی طرح واپس نہیں آ سکتے،لاکھ وضاحتیں کی جائیں یا تشریحات کا سہارا لیا جائے لیکن رسوائی،جگ ہنسائی اور ندامت کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے جبکہ بعض اوقات تو اس کی قیمت بھی چکانا پڑتی ہے۔ قارئین کی یاداشت میں محفوظ ہو گا جب سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنی زبان سے جو الفاظ ادا کئےتھے کہ ان الفاظ کی قیمت انہیں خود ساختہ جلا وطنی کی صورت میں بھگتنا پڑی تھی۔ عوام خصوصاً پاکستان پیپلزپارٹی کے جیالے اپنے شریک چیئرپرسن کوسڑکوں پر گھسیٹنے کے بارے میں خادم اعلی شہباز شریف کے الفاظ کیسے بھول سکتے ہیں،مسلم لیگ ن چاہے جتنا مفاہمتی سیاست کا پرچار کرے لیکن وزیر اعلیٰ پنجاب کی زبان سے نکلے متنازعہ الفاظ آج بھی ان کا پیچھا کرتے نظر آتے ہیں۔ ہزاروں میل دور لندن میں بیٹھ کر ایک اشارے سے پورے کراچی کو بند کرنے والے رہنما کا رعب، دبدبہ اور خوف بھی اسی زبان کی بدولت ایسے تحلیل ہوچکا کہ اب نام لینا بھی ممنوع بن گیا ہے،وہ پارٹی جس کی حمایت کے بغیرسندھ میں حکومت کرنا ناممکن ہو چکا تھا آج اپنی بقا کیلئے ہاتھ پاؤں مارنےپر مجبورہے۔ ذوالفقار مرزا جو کبھی سابق صدر آصف زرداری کے دست راست اور پیپلزپارٹی کے طاقت ور رہنماؤں میں شمار کئے جاتے تھے آج اپنی زبان کی وجہ سے شناخت کیلئے سرگرداں ہیں۔ ایم کیو ایم کے بعض رہنماؤں کے شریف برادران اور چوہدری نثار کے بارے میں ادا کئے گئے الفاظ ہی تھے جنہوں نے معاملے کو پوائنٹ آف نو ریٹرن پرپہنچا دیا تھا۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ پر ’مک مکا‘ کے الزامات پر مبنی الفاظ ہی تھے جنہوں نے دونوں رہنماؤں کے درمیان اتنی دوریاں پید اکر دی ہیں کہ وہ سلام دعا سے بھی جا چکے ہیں۔ بیرسٹر اعتزاز احسن اور چوہدری نثار کے درمیان لفظوں کا تبادلہ ہی تھا جس نے دونوں جہاندیدہ سیاست د انوں کو اس قابل بھی نہیں چھوڑا کہ ایک دوسرے سے آنکھیں دو چار کر سکیں۔ سینیٹر مشاہد اللہ خان کو اسی زبان کی بدولت نہ صرف وفاقی وزارت سے ہاتھ دھونا پڑے بلکہ چند الفاظ ان کی پارٹی سے برس ہا برس کی رفاقت اور بے مثل وفاداری پر اتنے بھاری پڑے ہیں کہ گزشتہ بار بیرون ملک سے بلانے کے باوجود پارٹی قیادت نے انہیں سندھ کا گورنر تعینات کرنے سے گریز کیا جبکہ اس باربھی منزل انہیں مل گئی جو شریک سفر بھی نہ تھے۔ سیاسی زندگی میاں نواز شریف کیلئے وقف کرنے والے سینیٹر پرویز رشید سے زیادہ الفاظ کی قیمت کون جان سکتا ہے جن کے ایک بیان نے پیچھا نہ چھوڑا اور بلآخرانتہائی اہم وزارت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ مسلم لیگ ن کے قد آور رہنما خواجہ آصف کی تحریک انصاف کی خاتون رہنما شیریں مزاری کے بارے میں زبان کی پھسلن ہی تھی جو آج تک نہ صرف ان کیلئے خفت کا باعث ہے بلکہ انہیں عدالتوں میں پیشیاں بھی بھگتنا پڑ رہی ہیں۔ اس سے پہلے پرویز مشرف کےدور میں ان کے اور خواجہ سعد رفیق کے دئیے گئے بیانات کی گونج اب بھی کبھی کبھار سنائی دینے لگتی ہے جس کی وہ بارہا وضاحت بھی پیش کر چکے ہیں۔ پرویز مشرف سے بھرپور وفاداری کے اظہار کیلئے انہیں دس بار وردی میں منتخب کرنے کا بیان ہے جو کسی طور چوہدری پرویز الہی کی جان چھوڑنے کو تیار نہیں۔ جمعیت علمائے اسلام ف کے سینیٹر حافظ حمد اللہ نے سول سوسائٹی کی رہنما ماروی سرمد سے جو تلخ کلامی کی وہ ان کیلئے اب بھی زندگی کا افسوسناک واقعہ ہے۔ یہ تو ابھی کل کی بات ہے کہ پیپلز پارٹی کے صوبائی وزیر امداد پتافی نے مسلم لیگ فنکشنل کی رکن اسمبلی نصرت سحر عباسی سے جو غیر اخلاقی گفتگو کی اس کی پاداش میں نہ صرف انہیں پارٹی قیادت کی طرف سے سرزنش کا سامنا کرنا پڑا بلکہ انہیں ایوان کے اندر براہ راست نشریات کے دوران متعلقہ خاتون رکن سے معافی بھی مانگنا پڑی۔ سیاسی پشین گوئیوں کے باعث معروف جناب شیخ رشید کو قربانی سے پہلے قربانی ڈی چوک میں ایک کی سیاست دفن ہونے اور جلا دو،گرا دو،مار دو جیسے الفاظ پر متعدد بار خجالت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کینیڈین شہریت کے حامل علامہ طاہر القادری کئی بار اپنی شعلہ بیانی کے دوران کئے گئے بلند و بانگ دعوئوں کی وجہ سے اپنے لئے جگ ہنسائی کا سامان پیدا کر چکے ہیں۔ بلوچستان کے سابق وزیر اعلی نواب اسلم رئیسانی کا جملہ ڈگری،ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا نقلی،تو قول کا درجہ پا چکا جبکہ سائیں قائم علی شاہ کی زبان کی لڑکھڑاہٹ تو کئی لطیفوں کو جنم دے چکی۔ بلوچ عوام کو اکبر بگٹی پر حملے سے پہلے سابق آمر پرویز مشرف کی طرف سے ادا کئے گئے یہ الفاظ کہ تمہیں وہاں سے ماریں گے کہ پتہ بھی نہیں چلے گا آج بھی یاد ہیں۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال اپنے اس دعوے کا دفاع کرنے سے اکثر قاصر نظر آتے ہیں جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ اگرپرویز مشرف عدالتی ٹرائل کا سامنا کئے بغیر بیرون ملک چلے گئے تو وہ سیاست کو خیر آباد کہہ دیں گے۔ وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے پاناما کے معاملے پر قومی اسمبلی میں دئیے گئے بیان کو سیاسی بیان قرار دینے کے الفاظ نہ صرف ان کیلئے پریشانی کا باعث بنے بلکہ اپوزیشن نے اس کے خلاف دو بار تحریک استحقاق بھی پیش کی۔ رہی بات پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین جناب عمران خان کی تومولانا فضل الرحمان جیسے سنجیدہ اور مدبر سیاست دان سمیت ان کے مخالفین اپنے الفاظ پر قائم نہ رہنے کی وجہ سے انہیں یو ٹرن خان کا طعنے دیتے ہیں۔ چوہدری برادران جیسے وضع دار سیاسی رہنما ان کی زبان کی سختی کی وجہ سے ان سے فاصلہ پیدا کر چکے ہیں۔ اوئے توئے کے الفاظ سے پاکستانی سیاست میں نئے کلچر کی بنیاد رکھنے والے خان صاحب آئے روز اپنی زبان کی کڑواہٹ کے باعث تنقید کا نشانہ بنتے ہیں۔ابھی حال ہی میں ’پھٹیچر‘ جیسے الفاظ کی وجہ سے انہیں اندرون اور بیرون ملک سخت سننا پڑی ہیں جبکہ اپنی زبان کی سختی کی بھاری قیمت وہ مقبولیت میں کمی کی صورت میں چکا رہے ہیں۔ یہ زبان ہی ہے جس کے نازیبا استعمال کی وجہ سے ملک میں نوے کی دہائی کی سیاست کی اصطلاح رائج پائی تھی اور آج بھی جب کوئی سیاسی حریف پر تنقید کے دوران اخلاقیات کا دامن چھوڑ دیتا ہے تو اسے نوے کی دہائی کی سیاست کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ ملکی سیاست میں پاکستان پیپلز پارٹی کی جگہ پاکستان تحریک انصاف نے لے لی ہے جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما تاریخ کا سبق بھول چکے ہیں، گزشتہ عام انتخابات کے بعد سے دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان شروع ہونے والی محاذ آرائی ایک بار پھر نوے کی دہائی کی سیاست کی یادیں تازہ کر رہی ہے جس میں زبانیں زہر اگلتی ہیں اور ہاتھ گریبانوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ پاناما کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے باہر جس طرح دونوں جماعتوں کے رہنما منہ سے شعلے اگلتے رہے ان کی تپش تب بھی پارلیمنٹ تک پہنچی تھی اور قومی اسمبلی میں دنگل لگا تھا۔ اب صرف ڈیڑھ ماہ بعد انگارے برساتی اسی زبان نے میاں جاوید لطیف اور مراد سعید کو بھی وہاں پہنچا دیا ہے جہاں سر شرم سے جھک جاتے ہیں اور سوائے پچھتانے کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ اب تحقیقاتی کمیٹی چاہے کسی کو قصوروار ٹھہرائے، اسپیکر بے شک کسی کی رکنیت چند دن کیلئے معطل کردیں، فاٹا رہنماؤں کا جرگہ حریفوں میں صلح صفائی کرا دے یا دونوں فریقین کے درمیان معافی تلافی ہو جائے، زبان وہ گھاؤ لگا چکی جو جلد بھرا نہیں کرتے۔

.
تازہ ترین