• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں کوئی ایسا لیڈر نہیں ہے، جو بہت بڑا ریاست کار (اسٹیٹس مین) ہو، عہد نو کے مسائل کا ادراک رکھتا ہو اور جو ان مسائل سے نبرد آزما ہونے کیلئے پوری قوم کو ایک ساتھ لے کر آگے بڑھ سکتا ہو۔ خارجی اور داخلی بحرانوں کے ساتھ ساتھ ہم قیادت کے بحران سے بھی دوچار ہیں۔ اس وقت ہمارے قومی سیاسی رہنماؤں میں میاں محمد نواز شریف، آصف علی زرداری، عمران خان، مولانا فضل الرحمٰن اور سراج الحق قابل ذکر ہیں لیکن ان سب کا حلقہ اثر محدود ہے اور انہیں ملک کے تمام صوبوں اور علاقوں میں وسیع تر مقبولیت حاصل نہیں ہے۔
میاں محمد نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو اپنی اسٹریٹجک اہمیت کے پیش نظر عالمی طاقتوں کے مفادات کی جنگ کا میدان بنا ہوا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کی وجہ سے بین الاقوامی سازشیں یہاں ہو رہی ہیں۔ دہشت گرد تنظیموں اور مافیا گرہوں کی سب سے زیادہ سرگرمیاں یہاں ہیں۔ سب سے زیادہ سیاسی پولرائزیشن اور صوبوں و علاقوں میں بالکنائزیشن کا عمل جاری ہے۔ ایک ایسے ملک میں جو شخص تیسری مرتبہ وزیراعظم بنا ہے، وہ یقیناً غیر معمولی صلاحیتوں کا حامل ہو گا لیکن میرے خیال میں وہ ریاست کار اور بڑے وژن والے قومی لیڈر نہیں بن سکے۔2013 ء کے عام انتخابات میں وہ پنجاب تک محدود ہو گئے اور ابھی تک ان کا سیاسی ہدف یہ ہے کہ میں پنجاب پر اپنا سیاسی ’’قبضہ‘‘ ہر حال میں برقرار رکھوں۔ انہیں یہ موقع میسر تھا کہ وہ خیبر پختونخوا اور سندھ میں بھی سیاسی مقبولیت حاصل کرتے لیکن انہوں نے بوجوہ شعوری طور پر اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ وہ ایسا کرنا بھی نہیں چاہتے تھے اور نہ انہوں نے ایسا کیا۔ اس کے ساتھ ہی انہیں پاناما لیکس کے فیصلے کا انتظار ہے، جو ان کے سیاسی مستقبل کا تعین کر سکتا ہے۔ انہوں نے ازخود قومی لیڈر بننے کی کوشش نہیں کی۔ لہٰذا ان کے سیاسی وژن پر بات کرنا اس مرحلے پر غیر ضروری محسوس ہوتا ہے۔ آصف علی زرداری کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد لامحدود سیاسی مواقع حاصل ہوئے تھے۔ وہ پورے پاکستان کی قیادت کرتے اور مدتوں اس ملک پر حکمرانی کرتے۔ اگر ذوالفقار علی بھٹو عالمی سازشوں کا شکار نہ ہوتے تو وہ اس پوزیشن میں تھے کہ تادم حیات پاکستان کے قومی رہنما کے طور پر حکمرانی کرتے۔ آصف علی زرداری نے بھی میاں محمد نواز شریف کی طرح ایک ریاست کار اور قومی رہنما بننے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے حکومت تو کی لیکن حکمرانی کا قابل تقلید نظام وضع نہیں کیا۔ آصف علی زرداری نے بھی بوجوہ پاکستان پیپلزپارٹی کو صرف سندھ میں مضبوط بنانے پر توجہ دی۔ اس کیلئے انہوں نے جو سیاسی ڈکشن اختیار کیا، وہ سندھ کے لوگوں کو زیادہ اپیل کرتا ہے۔ بھٹو خاندان کے سیاسی ورثہ کا بنیادی جوہر یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست کو وسیع تر علاقائی اور عالمی تناظر کے ساتھ ساتھ تاریخ کے دھارے میں شامل کرکے سمجھا جائے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی اپنے سیاسی وجود کو لاحق خطرات کے پیش نظر دفاعی پوزیشن پر چلی گئی ہے اور سندھ میں قلعہ بند ہو گئی ہے۔جہاں تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی نئی نسل کی قیادت کا تعلق ہے۔ بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز دونوں کیلئے میاں محمد نواز شریف اور آصف علی زرداری کی پنجاب اور سندھ میں قلعہ بند ہونے کی پالیسیوں سے فوری طور پر نکلنا آسان نظر نہیں آ رہا ہے۔ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ یہ دونوں نوجوان رہنما پورے ملک کے مقبول رہنما بننے کیلئے کیا راستہ اختیار کرتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ فوری طور پر قیادت کا بحران حل نہیں کر سکتے۔ یہ الگ بات ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کیلئے آج بھی وسیع تر امکانات موجود ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو2013 ء کے عام انتخابات میں بہت زیادہ عوامی پذیرائی ملی۔ وہ پاکستان کے ایسے لیڈر ہیں، جو بڑے بڑے عوامی اجتماعات کا انعقاد کر سکتے ہیں۔ انہوں نے ملک بھر میں جتنے بڑے جلسے، مظاہرے اور ریلیاں منعقد کی ہیں اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ انہیں2013 کے عام انتخابات میں بہت زیادہ ووٹ پڑے لیکن اس تناسب سے انہیں اسمبلیوں میں نشستیں نہیں مل سکیں۔ یہ شاید ہمارے انتخابی نظام کی خامی ہے۔ آج بھی عمران خان کا امیج ایک دیانتدار، محنتی اور باصلاحیت سیاستدان کا ہے۔ ان کی مقبولیت کے دیگر اسباب کے ساتھ ایک سبب ان کے فلاحی کام بھی ہیں۔ انہوں نے صحت اور تعلیم کے شعبے میں انفرادی طور پر غیر معمولی کام اور بڑے ادارے قائم کئے ہیں۔ ان کیلئے آج بھی وسیع تر امکانات موجود ہیں کہ وہ پاکستان میں حقیقی قومی لیڈر کے طور پر ابھر سکتے ہیں۔ پاناما کیس کا فیصلہ ان کیلئے انتہائی سازگار سیاسی فضا بنا سکتا ہے لیکن عمران خان کی اس وقت بھی سندھ، بلوچستان اور شمالی علاقہ جات میں سیاسی اثر پذیرائی بہت کم ہے۔ ان کی سیاسی گفتگو، بیانات اور تقریروں کا ڈکشن ایسا نہیں ہے، جو ایک مدبر اور حالات کا گہرا ادراک رکھنے والے بڑے لیڈر کا ہوتا ہے اور پاکستان کے سیاسی تضادات کا ان کے پاس سیاسی حل نہیں ہے۔ ان کا کوئی سیاسی ورثہ بھی نہیں ہے۔ وہ پاکستان کی سیاسی تحریکوں کا حصہ نہیں رہے۔ کرپشن اور طبقاتی عدم مساوات کے خلاف ان کی تحریک اور پاکستان کی جمہوری تحریکوں کے دھارے الگ الگ ہیں۔ ہماری سیاسی تاریخ میں کئی مراحل ایسے آئے، جب یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ قیادت کے خلا کو مذہبی جماعتیں پورا کر سکتی ہیں۔ بعض عوامل کی ناں پر اعتدال پسند سیاسی قوتیں پسپائی کا بھی شکار ہوئیں۔ اب بھی یہ امکانات موجود ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق جیسے رہنماؤں کیلئے بعض مراحل پر بہت امکانات پیدا ہوئے کیونکہ وہ ایسے رہنما ہیں، جو انتہا پسند مذہبی عناصر اور اعتدال پسند قوتوں کیلئے قابل قبول ہو سکتے ہیں۔ ان دونوں حلقوں کیلئے قبولیت حاصل کرنے میں میاں محمد نواز شریف اور عمران خان بھی دوڑ میں شامل تھے۔ مولانا فضل الرحمٰن اور سراج الحق جیسے رہنما بھی اپنے پیدا ہونے والے امکانات سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔
سیاسی قیادت کا یہ بحران محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیدا ہوا۔ وہ قد آور عالمی رہنما تھیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ گزشتہ دہائی کی نسبت اس دہائی میں دنیا میں تیزی سے تبدیلیاں آ رہی ہیں اور نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں۔ دنیا میں نئی طاقتیں ابھر رہی ہیں۔ چین اور روس نئی عالمی طاقتوں کے طور پر عالمی سیاست میں دخل اندازی کر رہے ہیں۔ یورپ اپنے اختلافات ختم کرکے جرمنی کی قیادت میں ایک طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے۔ جنوبی ایشیا میں بھارت اور ایران نے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر ایاہے۔ ایسے حالات میں پاکستان کو ایک ریاست کار اور قدآور قومی رہنما کی سخت ضرورت ہے، جو عالمی سطح پر اپنے آپ کو تسلیم کرا سکے۔ اس وقت ہمارے تمام قابل ذکر سیاسی قائدین اپنے دائروں میں محدود ہیں۔ کسی کو یہ نہیں معلوم کہ بلوچستان کے عوام کیلئے کیا ڈکشن ہونا چاہئے اور کوئی اس بات سے بے خبر ہے کہ خیبر پختونخوا، شمالی علاقہ جات، گلگت، بلتستان اور کشمیر کے لوگوں کے دل کیسے جیتے جائیں۔ کسی سیاسی رہنما کا بیانیہ قومی نہیں ہے۔ اگر کسی نے پاکستان کے تمام لوگوں سے گفتگو کرنے کا قومی بیانیہ اختیار کر بھی لیا تو اس کے بعد اس کے کردار، دیانت داری، سیاسی اہداف، طرز زندگی، رویوں، خواہشات اور علم و عرفان کے بارے میں سوالات پیدا ہوں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ قیادت کے اس بحران میں پاکستان بدلتی ہوئی دنیا میں کہاں کھڑا رہ سکتا ہے۔

.
تازہ ترین