• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نئے پاکستان کے عجیب وغریب الف لیلوی تصور کی ترویج کرنے والے عمران خان کی طرف سے تمام تر ممکنہ خطرات کی پیش گوئی کرنے اور خوف سے فضا کو بوجھل رکھنے کی کوشش کے باوجود پاکستان سپرلیگ (پی ایس ایل) کا فائنل بخیر و خوبی اپنے اختتام کو پہنچا۔ یہ چیز بیک وقت حیران کن بھی تھی اور حوصلہ افزا بھی کہ شہریوں کی ایک بڑی تعدا د میچ دیکھنے نکل کھڑی ہوئی اور دہشت گردی کے حالیہ حملوں سے پھیلائے ہوئے خوف کو ذہن پر سوار کرنے سے انکار کردیا۔ اس پرجوش میچ کے انعقاد سے پتہ چلتا ہے کہ ایک متحد قوم کا عزم دہشت گردوں کو اپنی زندگی کنٹرول کرنے کی اجازت کبھی نہیں دے گا۔ ایک بار پھر اس حقیقت کا برملا اظہار ہوا کہ کرکٹ میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ یہ مثبت تبدیلی کے ذریعے ایک ملک کو متحد کرسکتی ہے۔
عمران خان کی طرف سے اس میچ کے انعقاد کی مخالفت کو حماقت کے سوا اور کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اس بات سے انکار نہیں کہ حکمران، شریف برادران اس موقع سے سیاسی فائدہ بھی اٹھانا چاہتے تھے لیکن قوم کو والہانہ جوش و جذبے سے سرشار کرنے، دہشت گردی کے خلاف اُس کا حوصلہ بڑھانے اور قومی بیانئے کی تشکیل جیسے مثبت مقاصد خان کی نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ یہ بات ناقابل ِ یقین لگتی ہے کہ ایک عالمی شہرت یافتہ کرکٹر، جن کی شہرت، دولت اور بے شک، سیاسی حیثیت صرف اور صرف کرکٹ کی ہی مرہون ِ منت ہو، وہ ایک کرکٹ میچ کا انعقاد رکوانے کے لئے اس حد تک چلے جائیں۔ اس وقت تک خان صاحب اپنے غلط اقدامات، منفی رویے اور کج فہمی کی وجہ سے اپنی سیاسی گاڑی کو ایک تنگ، چکردار اور الجھی ہوئی گزرگاہ میں پہنچا کر قلابازیاں کھانے میں’’ کامیاب‘‘ ہوچکے ہیں۔ اس پر مستزاد، اُن کی خودپارسائی اُنہیں ہرقسم کے داخلی محاسبے اور سوچ بچار کی زحمت سے بچا لیتی ہے۔ پی ایس ایل میں شرکت کرنے والے کچھ کھلاڑیوں کے بارے میں ہتک آمیز اصطلاح استعمال کرنے سے تاثرملتا ہے کہ وہ خود کو عقل ِکل سمجھنے کی حماقت میں طاق ہیں۔ اپنے التباسی تصور کے ساتھ، وہ ایک ایسی دنیا کی تصویر پیش کرتے ہیں جو مایوسی، افراتفری اور انواع و اقسام کے مسائل سے بھری ہوئی ہے اور اس میں صر ف وہی ڈرامائی انداز میں، ایک ہیرو کی طرح، قوم کے نجات دہندہ بن کر اس کی نائو کو مشکلات کے گرداب سے نکال سکتے ہیں۔
عمران خان نے بلاشہ نئی نسل کو پرجوش انداز میں سیاسی معاملات میں دلچسپی لینے کی تحریک دی، ورنہ اس سے پہلے سیاست زمین دار اشرافیہ، اُن کے سدابہار خاکی وردی پوش کزنوں اور ریٹائرڈ افسران کا استحقاق سمجھی جاتی تھی۔ خان صاحب کے سیاسی میدان میں قدم رکھنے سے پاکستان میں نسل و ذات، عقیدے اور زمین کی ملکیت سے تقویت پانے والی روایتی سیاسی اشرافیہ کی گرفت ٹوٹنے کی امید پیدا ہوئی تھی، تاہم اب یہ ماضی کی بات ہے۔ افسوس، اُنھوں نے نفرت اور عدم برداشت کے ایسے نوکیلے لہجے کو فروغ دیا ہے جسے اُن کے پیروکاروں نے اپنا کر اوج پر پہنچا دیا۔ آج اُن کے ٹائیگرز کی ایک بہت بڑی فوج ہر اُس شخص پر توہین آمیزرویے اور زہریلے الفاظ کے نشتروں سے حملہ آور ہونے کے لئے کمر بستہ رہتی ہے جو اُن کے ’’کپتان ‘‘ کی کرکٹ کے میدان سے لے کر قومی سیاسی معاملات پر سدا بہار ژولیدی فکری اور ژرف نگاہی پر سوال اٹھانے کی جسارت کرے۔ اس صورت ِحال نے پاکستانی سیاست کو مزید فکری انحطاط کا شکار کرکے اسے نابالغ کھلنڈرے پن اوربازاری حماقتوں کا مظہر بنا دیا ہے۔
ناقدین کی پریشانی ایک طرف، پی ایس ایل فائنل کے کامیاب انعقاد نے بیرونی دنیا میں پاکستان کے حوالے سے پرامید پیغام بھیجا ہے۔ میری ایک مشہور برطانوی صحافی، پیٹر ابورن(Peter Oborne)، جو ٹیلی گراف کے سیاسی مدیر تھے، سے بات ہوئی۔ وہ پاکستانی کرکٹ پر ایک اتھارٹی ہیں، اور اُن کی شاندار کتاب، ’’Wounded Tiger: A history of Cricket in Pakistan‘‘ اس موضوع پر ایک سنگ ِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔اُنھوںنے پی ایس ایل ٹورنامنٹ کی کامیابی کی بے حد تعریف کی، اورلاہور میں فائنل میچ کا انعقاد کرنے کے ’’مشکل مگر درست فیصلے ‘‘ پر پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کو سراہا۔ اُنہیں یقین ہے کہ اس اقدام سے پاکستان میں انٹر نیشنل کرکٹ کی واپسی ممکن ہوگی۔ اگرچہ اُنھوں نے عمران خان کی طرف سے نفسیاتی خوف کی فضا کو گہرا کرتے ہوئے پاکستان میں اس فائنل کا راستہ روکنے کی کوشش پر میرے تبصرے کا جواب دینے سے گریز کرتے ہوئے قدرے محتاط الفاظ میں کہا....’’میں نہیں جانتا کہ عمران خان،جو خود بھی ایک عظیم کرکٹر رہے ہیں، نے ایسا کیوں کیا۔ فائنل سے پہلے اُن کی طرف سے دئیے گئے بیانات ملک کے لئے کسی طور سود مند نہ تھے۔ ‘‘عمران خان نے عالمی شہرت یافتہ کھلاڑیوں کی عدم شرکت کی وجہ سے فائنل میچ کو احمقانہ کاوش قرار دیا اور کچھ ناروا الفاظ بھی استعمال کیے، لیکن پیٹر ابورن نے کرس جورڈن اور ڈیرن سیمی اور دیگر کھلاڑیوں کی کھیل سے لگن کی تعریف کی۔ اس کے ساتھ ساتھ اُنھوں نے کیون پیٹرسن اور دیگر کھلاڑیوں سے ناراضی کا اظہار کیا کہ اُنھوں نے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو کیوں چھوڑ دیا۔ اُن کا کہنا تھا۔۔۔’’پیٹرسن کا فائنل نہ کھیلنا اُن کی عدم وابستگی اور کمزورلگن کا افسوس ناک اظہار ہے۔ وہ خود کو ٹیم سے اہم سمجھتے رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اُنہیں انگلش ٹیم سے نکال دیا گیا، اور اب اُنہیں واپس نہیں بلایا جائے گا۔ ‘‘اس دوران پاناما کیس بھی آہستہ آہستہ، لیکن یقینی طور پر قومی منظر نامے پر ابھر رہا ہے۔ بہت جلد پی ایس ایل کا جوش ماند پڑ جائے گا۔ تاہم اس سے پہلے کہ یہ قصہ ٔ پارینہ بن جائے، ہم پنجاب پولیس سمیت دیگر سیکورٹی اداروں کے مشکور ہیں کہ اُنھوںنے بطریق ِ احسن اپنے فرائض سرانجام دئیے۔
پس ِ نوشت:جیوٹی وی کے مشہور شو، خبرناک کے سابق میزبان، نعیم بخاری،جو پاناما کیس میں عمران خان کے وکیل بھی تھے، نے حال ہی میں دعویٰ کیا کہ آج کل وہ مائیں ہی نہیں ہیں جو عمران خان جیسے بیٹوں کو جنم دیتی ہیں۔ وہ ایک نجی ٹی وی کے سیاسی پروگرام میں بات کررہے تھے۔ یہ پہلی مرتبہ تھا جب موصوف کو ایسے چرب زبان مبصر کے روپ میں دیکھا گیا۔ ہوسکتا ہے کہ اُن کی دانشوری پر قومی سطح کے کچھ سنجیدہ مبصرین کو غصہ آتا ہو۔ بہرحال ایسے دعوئوں کو اجازت نہیں دینی چاہیے کہ وہ نئے پاکستان کی امید پر پانی پھیر دیں۔ میری رجائیت پسندی کو وفاقی شرعی عدالت کا حالیہ دنوں سامنے آنے والا فیصلہ بھی جلا بخشتا ہے جس میں فاضل عدالت نے ٹیسٹ ٹیوب بچوں کو جائزقرار دیا۔ ہم عدالت کے مشکور ہیں کیونکہ یہ فیصلہ ایسے موقع پر سامنے آیا جب شواہد سے مایوسی ٹپک رہی تھی۔
ضمیمہ:ایک انگریزی اخبار میں شائع ہونے والے اپنے حالیہ مضمون میں آئی اے رحمان نے دونوں ریاستوںکے درمیان معاشی تعاون اور تنازعات کے حل کے لئے دورے پر آئے ہوئے چینی دانشوروں کی ’’نصیحت‘‘ پر حیرت کا اظہار کیا۔ مسٹر رحمان کا خیال تھا کہ یہ ایک ’’واضح وارننگ ہے کہ چین کی پالیسیوں کی درست تفہیم کے لئے اُن کے رہنمائوں کے بیانات دیکھے جائیں نہ کہ اُن کے پاکستانی ’ترجمانوں ‘ کے‘‘۔ میں کشمیر پرہونے والی دوروزہ کانفرنس میں شریک خصوصی مقرر تھا، اور چینی دانشوروں نے بھی اس موقع پر اظہار ِ خیال کیا۔وہ کشمیر کے تنازع کو حل کرنے کے لئے مستقبل میں کسی مناسب موقع پر عسکری بازو استعمال کرنے کی ضرورت پر زور دے رہے تھے۔ ہمارے برعکس، ایسا لگتا تھا جیسے اُنہیں یقین ہے کہ یہ مسئلہ فوجی قوت سے ہی حل ہوگا۔ یہ ہمارے لئے مذکورہ ’’نصیحت‘‘ سے بھی حیران کن تھا۔

.
تازہ ترین