• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج بہار کا یہ موسم بہت ہی خوبصورت لگ رہا تھا کیونکہ مال روڈ لاہور کے دونوں طرف سجے نہ صرف رنگ برنگے خوبصورت پھولوں کی مہک پھیلی ہوئی تھی بلکہ اس خوبصورتی میں یوم خواتین کے حوالے سے لگے رنگ برنگے مختلف نعروں والے بینرز نے چار چاند لگا دیئے تھے، چیئرنگ کراس پر آویزاں سینکڑوں خواتین کی تصاویر پر مشتمل دیوقامت فلیکس سے تو لگ رہا تھا کہ شاید ملک میں خواتین کی حکومت قائم ہو چکی ہے۔ اسی سوچ میں دفتر کی طرف گامزن تھا جب دفتر پہنچا تو میری میز پر موجود اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات اپنی طرف متوجہ کر رہے تھے کہ’’ عورت کو حکومت پنجاب نے باوقار بنا دیا ہے۔ ایک ارب 30کروڑ روپے کی لاگت سے 75ڈے کیئر سینٹر قائم کر دیئے گئے۔ خواتین کی وراثت یقینی بنانے کیلئے قانون سازی، ملتان میں خواتین پر تشدد کے خاتمے کیلئے جدید طرز کے مرکز کا قیام، سرکاری اداروں کی پالیسی سازی میں خواتین کی 33فیصد نمائندگی، ایک لاکھ چھ ہزار خواتین کی فنی تربیت، سرکاری ملازمتوں میں پندرہ فیصد کوٹہ اور عمر کی با لائی حد میں 3سال کی رعایت، انکے تحفظ اور بااختیار بنانے کیلئے 18نئے قوانین اور موجودہ قوانین میں ترمیم اور اداروں کا قیام اور 36اضلاع میں خواتین کو ڈھائی لاکھ سے زائد مال مویشیوں کی تقسیم ‘‘۔وویمن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ حکومت پنجاب کی طرف سے دیئے گئے ان اشتہارات سے تو لگتا ہے کہ خواتین تو بہت عیش وعشرت میں ہیں، اُنکے کوئی مسائل ہی نہیں رہے اور شاعر نے جو کہا تھا کہ ’’ وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘‘ یہ بالکل ایسا ہی لگتا ہے، اسی لئے میرے ذہن میں بار بار یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا واقعتاخواتین کو مردوں کے مساوی حقوق مل رہے ہیں جسکی خوشی میں ہم عالمی سطح پر یہ دن مناتے ہیں، یہ بھی خیال آیا کہ 1907ء میں نیویارک میں لیس سازی کی صنعت سے وابستہ سینکڑوں خواتین نے مردوں کے مساوی حقوق حاصل کرنے کیلئے جو احتجاج کیا تھا، ان خواتین پر پولیس نے نہ صرف لاٹھی چارج کیا بلکہ گھوڑوں کے ساتھ گھسیٹا، اس سے اگلے سال نیو یارک میں ہی سوئی سازی کی صنعت کی خواتین کے احتجاج اور 1910ء کے ایک بین الااقوامی فورم پر ہونیوالے فیصلے کی یاد میں ان خواتین کی جدوجہد سے اظہار یکجہتی کیلئے یہ دن منایا جاتا ہے، لیکن مختلف رپورٹس پڑھنے کے بعد یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ اس فیصلے کی تائید میں یہ دن منا کر ہم اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ میرے سامنے انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تازہ ترین رپورٹ ہے کہ دنیا بھر کی 700ملین خواتین کی جبراً شادی کروائی جاتی ہیں، برطانیہ جیسے ’’مہذب ترین‘‘ ملک میں43فیصد خواتین کو سڑکوں پر ہراساں کیا جاتا اور 90فیصد کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں ہر چار منٹ کے بعد ایک عورت جسمانی اور ہر آدھے گھنٹے بعد گھریلو تشدد کا شکار بنتی ہے۔ اگر ہم معاشی حالات کا عالمی سطح پر جائزہ لیں تو خواتین کے حالات بہتر ہونیکی بجائے ابتری کی طرف گامزن ہیں۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق گزشتہ دو عشروں میں خواتین کی معاشی شعبے میں شرکت تین فیصد گر گئی ہے۔ اس لئے وہ معاشی لحاظ سے انتہائی پسماندگی کا شکار ہیں۔ پاکستان کی خواتین 143ویں نمبر پر ہیں، حقائق یہ ہیں کہ خواتین نہ صرف سیاسی اور معاشی میدان میں مردوں سے پیچھے ہیں بلکہ سماجی حوالے سے بھی بھرپور تضادات کا شکار ہیں۔
گیلپ پاکستان کے ایک حالیہ سروے کے مطابق جو اس نے چاروں صوبوں کے شہروں اور دیہات سے کیا کہ 56فیصد لڑکیوں کی شادیاں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے نہیں ہوتیں29فیصد کا خیال ہے کہ جہیز کے بغیر شادی ممکن ہے، اسی سروے کے مطابق جہیز کی لعنت کو 71فیصد وہ طبقہ فروغ دے رہا ہے جنکی آمدنی بہت زیادہ ہے۔ ان میں پڑھے لکھے اور ان پڑھ سب شامل ہیں۔جبکہ متوسط طبقہ فرسودہ رسوم و رواج کیوجہ سے اور بہتر معاشی حالات کی تلاش میںبیٹیوں کی شادی نہیں کرپاتا۔ گو حکومت پنجاب نے خواتین کی فلاح وبہبود کے کئی قوانین متعارف کرائے۔ شادی پر ون ڈش کی پابندی لگائی، لیکن خاندانی نظام بچانے، خواتین کو واقعتا ان کے حقوق دلانے اورایک نارمل زندگی کی طرف گامزن کرنے کیلئے ’’ جہیز‘‘ پر پابندی کا قانون بنانا چاہئے۔ خیبر پختوانخوا اسمبلی میں جہیز پر پابندی اور شادی کی تقریبات سے متعلق بل پیش کر کے پہل کی گئی ہے۔ جسکے مطابق لڑکے کی طرف سے جہیز مانگنے پر لڑکے والوں کو دو ماہ قید اور تین لاکھ جرمانہ کیا جائے گا۔ دوسرے صوبوں کو بھی اسکی تقلید کرتے ہوئے ایسے بل پاس کرنے چاہئیں۔ عورتوں کو مردوں کے برابر لانے پر زور دینے کی بجائے ہمیں دین اسلام میں دیئے گئے خواتین کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کی جدوجہد کرنی چاہئے پھر دیگر کسی قانون کی ضرورت نہیں ہوگی اور نہ ہی مردوں پر الزامات لگانے کی ضرورت پڑیگی کہ وہ خواتین کا استحصال کرتے ہیں۔ اگر مفاد پرست این جی اوز کی عینکیں اتار کر دیکھا جائے تو اسوقت معاشرے میں مردوں کا استحصال زیادہ ہورہا ہے،کینیڈا کی خاتون اوّل نے تو اس حوالے سے آواز بھی اٹھائی ہے۔ روز گار کے مواقع اُن کیلئے معدوم ہوتے جا رہے ہیں جسکی وجہ سے خاندانی نظام تباہی کے دھانے پر ہے اور یہ مغرب کا ایجنڈا ہے، ہمیں اپنا ایجنڈا دین اسلام کی روشنی میں ترتیب دینا چاہئے، پھر وجود زن سے تصویر کائنات میں رنگ بھر جائیں گے۔
آخر میں پروفیسر ڈاکٹر حمیرا محبوب کا ایک خط شامل کررہا ہوں جنہوں نے لکھا ہے کہ وہ 35سال سے مختلف مخلوط تعلیمی اداروں میںپڑھا رہی ہیں اسوقت خواتین کو جو مسائل درپیش ہیں اُن میں ایک تو میڈیا کا منفی کردار، دوسرا ہمارے تعلیمی نظام کی خرابی ہے۔ ایک عورت کو جسمانی، مالی اور معاشرتی تحفظ چاہئے۔ انکے تحفظ کیلئے جو قوانین بنائے گئے ہیں وہ تو بالا طبقے کی کاوش ہے کیونکہ متوسط طبقے کی خواتین کی تو قانون سازی تک رسائی ہی نہیں۔ ضروری ہے کہ خواتین کے تعلیمی ادارے، اسپتال الگ کر دیئے جائیں۔ جہاں تمام ورکرز خواتین ہوں، ان کیلئے ایک ڈریس کوڈ مقرر کرنا چاہئے، گھروں سے باہر نکلنے والی خواتین کو پردے کااہتمام باقاعدگی سے کرنا چاہئے، تاہم نجی گھریلو محفلوں میں وہ اپنی مرضی کے لباس پہن سکتی ہیں۔ میر ی رائے میں اس وقت جو تعلیمی اداروں کا ماحول ہے وہ بڑے گمبھیر مسائل کو فروغ دے رہا ہے۔ ہمیں مغرب کی تقلید کی بجائے اپنے حالات کے مطابق معاشرے کی اصلاح کرنی چاہئے!

.
تازہ ترین