• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
35،40برس قبل سینما گھر تفریح کے اہم مراکز ہوا کرتے تھے جہاں اُردو اور پنجابی کے علاوہ انگریزی فلمیں بھی خوب بزنس کیا کرتی تھیں۔ ہالی ووڈکی ہارر موویز کا ایک موضوع ڈریکولا تھا جس پر آج بھی فلمیں بنتی ہیں۔ وقت کے ساتھ جس طرح سوسائٹی نے ارتقائی منازل طے کیں اور نتیجتاً انسانی سوچ اور کردار میں تبدیلیاں واقع ہوئیں اس طرح ان فلموں کے کردار ڈریکولا کے اندازو اطوار، گیٹ اَپ اور طریقہ ٔ ہائے واردات بھی بدل گئے ہیں۔ بھلے زمانوں کا ڈریکولا انسانی خون سے اپنی پیاس بجھانے کے لئے فقط پورن ماشی کی رات ہی باہر نکلتا اور واردات کر کے اگلے 29 دنوں کے لئے خود کو تابوت میں بند کر لیتا تھا تاکہ لوگ اُسے پہچان نہ لیں کیونکہ تب انسانی خون کی طلب کے تحت اُس کے باہر کو نکل آنے والے نوکیلے دانت سورج کی رو پہلی کرنوں تک واپس اندر نہیں جاتے تھے اور اُس کا لباس بھی مخصوص ہوتا تھا۔ آج کا ڈریکولائی کردار تابوت میں چھپتا ہے، نہ ہی اُس نے کالا گائون پہن رکھا ہوتا ہے اور نہ ہی ہر وقت اُس کے نوکیلے دانت نظر آتے ہیں اور نہ ہی اُس کی آنکھوں کی سفیدی ہر وقت سرخ رہتی ہے۔ آج کل بظاہر وہ سوسائٹی کا نارمل اور عزت دار رُکن ہوتا ہے۔ جدید ڈریکولائی کردار کا تعلق مذہب، سیاست، صحافت، تصوف، بزنس، طب، علم، فن، محنت اور خدمات کے کسی بھی شعبہ سے ہو سکتا ہے۔
20برس قبل اس موضوع پر ایک فلم دیکھی تھی جو پاناما کیس کی سماعت کے دوران بار بار یادوں کے تار چھیڑتی رہی چونکہ اس دوران بعد از سماعتِ مقدمہ کمرئہ عدالت سے نکل کر سپریم کورٹ کے دالان میں منتظر مائیک اور کیمروں کے سامنے اور ٹی وی ٹاک شوز میں کرپشن کا رونا روتے کریکٹرز کو دیکھ کر راقم کے قشرئہ دماغ پر نوکیلے دانتوں اور سرخ آنکھوں کے عکس اُبھرتے رہے۔ فقط عمران خان اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے معاملے میں صورتِ حال استثنائی رہی۔ ڈائون لوڈ کر کے فلم دوبارہ دیکھی جس میں ایک سٹی اسٹیٹ دکھائی گئی ہے جس کے چاروں اطراف سینکڑوں میل تک کوئی دوسری انسانی بستی نہیں ہوتی۔ ماڈرن سوسائٹی کے ایک 40سال خوبرو، اسمارٹ اور بظاہر عزت دار اور نارمل آدمی کی شخصیت سے متاثر ہو کر ایک حسین و جمیل خاتون نقدِ دل ہارنے کے بعد خود سپردگی پر اُتر آتی ہے۔ مرد کی نگاہیں اُس کی شۂ رگ پر جم جاتی ہیں اور گلے لگتے ہی وہ اپنے نوکیلے دانت محبوبہ کی گردن میں پیوست کر دیتا ہے۔ خاتون کے چہرے پر اذیت اور تکلیف کی بجائے راحت اور لطف اندوزی کے آثار نمایاں ہوتے ہیں اور وہ ویمپائر میں بدل جاتی ہے۔ ڈریکولاز ایک دوسرے کا خون نہیں پیتے بلکہ ایک دوسرے کیلئے سہولت کار کا فریضہ انجام دیتے ہیں لہٰذا اب وہ دونوں اپنے اپنے نئے شکار کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں جو اُس سوسائٹی میں اُنہیں آسانی سے دستیاب رہتے ہیں۔ یہ سلسلہ چل نکلتا ہے اور جلد ہی سارا شہر ڈریکولاز اور ویمپائرز سے بھر جاتا ہے۔فلم کا آخری سین اور کہانی کا کلائمکس یہ ہے کہ ایک انتہائی پڑھی لکھی اور معصوم لڑکی جو کہ ایک بہت بڑی بلڈنگ کے اپارٹمنٹ میں رہ رہی ہے چھپ کر معاشرے کے ڈریکولائی عمل و تعامل کو دیکھتی ہے۔ اُس کے پیچھے بھی ایک ڈریکولا لگ جاتا ہے جس سے بچ کر وہ چھت پر اپنے آپ کو مقفل کر لیتی ہے۔ نیچے اپنے بھائی کو آتا دیکھتی ہے اور بھاگ کر اُس کے سینے سے لگ کر سسکیوں میں ڈوبی آواز کے ساتھ ماجرا بیان کرتی ہے۔ بھائی کی آنکھیں اُس کی شۂ رگ پر جمی ہوتی ہیں جن میں سرخی اُترتے اور نوکیلے دانت نکلتے دیکھ کر وہ مزید خوف کے عالم میں چیخ مار کر سڑک پر بھاگ کھڑی ہوتی ہے۔ گرجاگھروں، عدالتوں، قانون نافذ کرنیوالے اداروں، آتے جاتے راہگیروں، ڈیوٹی پر مامور سارجنٹوں سے لے کر پٹرول پمپ کے ملازمین تک جس سے بھی وہ مدد کی خواستگار ہوتی ہے اُس کی آنکھوں میں اُترتی سرخی اور نکلتے دانتوں کو دیکھ کر بدحواسی کے عالم میں بھاگتی چلی جاتی ہے۔ کیمرہ بیک سے اُسے ویرانی میں سرپٹ بھاگتے دکھاتا ہے اور اسکرین آہستہ آہستہ اندھیرے میں ڈوبنے لگتی ہے۔1970ء سے قبل ہمارے معاشرے میں بھی ڈریکولائی کردار موجود تھے مگر تابوتوں میں چھپ کر رہنے والوں کی طرح پردہ کیا کرتے تھے۔ خون پیتے تھے لیکن خون پینے والوں کے خلاف واعظ نہیں کیا کرتے تھے۔ شاید اس لئے کہ وہ خونی ہونے کے باوجود بے حیا نہ تھے۔ ہماری اجتمائی بدقسمتی ہے کہ ہمارا معاشرہ ڈریکونین راہوں پر تیزی سے رواں دواںہے اور عبادت گاہوں سے لیکر عوامی نمائندگی کے اداروں، اقتدار کی مسندوں، اختلاف کی صفوں، تعلیمی اداروں، اسپتالوں، تھانوں، کچہریوں، عدالتوں، فیکٹریوں، منڈیوںاور خدمات کے تمام ا داروں پر ڈریکولاز چھائے ہوئے ہیں۔ا س جدید دور میں اُن کی پہچان بھی مشکل ہو چکی ہے کیونکہ اُن کے نوکیلے دانت نظر آتے ہیں اور نہ ہی آنکھوں میں اُترتی سرخی اور نہ ہی اُن کا لباس منفرد ہوتا ہے۔ تھوڑا سا غور کرنے سے یہ پہچانے بھی جا سکتے ہیں۔ آئیں مل کر آج سے ان پر غور کرنا شروع کریں اور اس سے پہلے کہ یہ پورے معاشرے کو ڈریکونین بنا دیں، ان پر قابو پانے کی راہیں نکالیں کیونکہ اسی میں ہم سب کی خیر اور بھلائی پنہاں ہے۔

.
تازہ ترین