• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بیس سال بعدحمید چوہدری اورپروفیسر سلیم احمد کی ملاقات ہو تی ہے ۔دونوں ہی لنگوٹیے تھے اس لئے خوب خوش دلی سے گلے ملتے ہیں ۔ ائیر پورٹ پر ہی حمید چوہدری اسے اپنےگھر دعوت دے ڈالتا ہے اوراتوار کو پروفیسر سلیم احمد معہ بیوی حمید کی رہائش گاہ جاپہنچتے ہیں ۔کھانے کی میز پر ہی دونوں ایک دوسرے کے حالات زندگی کے بارے میں متجسس ہوکر سوال کرتے ہیں حمید چوہدری یوں گویا ہوتا ہے۔ یار تمہیں تو یا د ہے کہ میں تو پڑھائی سے بھاگتا تھا اسی لئے ایف اے کرنے کے بعد کپڑے کے کاروبار میں کود گیا تھا۔خدا کے فضل سے اتنا کمایا کہ ہر طر ف روپے پیسے کی ریل پیل ہوگئی اور میں ڈیفنس میں منتقل ہوگیا جیسے جیسے تینوں بیٹیاں میٹرک ایف اے کرتی چلی گئیں انہیں شادی کے بندھن میںمنسلک کرتا رہا لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ تینوں کو روپوں پیسوں کی کوئی تکلیف نہیں لیکن ایک کسک ضرور محسوس کررہا ہوں ۔سلیم بولا وہ کیا؟ یار کاش میں نے اپنی بیٹیوں کو بھی اعلیٰ تعلیم دلوائی ہوتی یہ ایسا احساس کمتری ہے جس کا کوئی مدوا نہیں ہے جہاں بھی میری بیٹیاں جاتی ہیں وہاں انہیں تعلیم کی شدید کمی محسوس ہوتی ہے۔ میں نے انہیں قابل رشک جہیز، بھاری رقم اور گھر دیکر بیاہ تو دیا لیکن اس کے باوجود وہ اپنے گھروں میں آزادانہ زندگی گزارنے سے قاصر ہیں بہت پریشان ہوں کیا کروں؟ چھوڑو میں بھی کیا اپنی لے کر بیٹھ گیا تم اپنی سنائو کہاں رہ رہے ہو۔ پروفیسر سلیم بولا۔ یار میری بھی تین بیٹیاں ہیں۔ خدا نے ایسی دوست نما بیوی دی کہ مت پوچھو۔ میں نے اس کی مدد سے تینوں بیٹیوں کو اعلیٰ ترین تعلیم کے حصول کیلئے ابھارا۔ میں نے اپنی بیوی کو کہا تھا میں تمہیں فیکٹری تو نہیں بنا کر دے سکوں گا لیکن تین زندہ و جاوید مہکتی ہوئی کھلکھلاتی ہوئی فیکٹریوں کا مالک ضرور بنانے کی جدوجہد کروں گا۔ ہم دونوں نے دن رات ایک کردیا۔ ٹارگٹ ایک ہی تھا کہ بچیاں اعلیٰ ترین تعلیم حاصل کریں اور کسی کی دست نگر نہ بنیں انہیں اسلامی روایات سے آگاہ بھی کیا۔ میں ذاتی گھر تو بنا نہیں سکا تھا لیکن آبائی گھر میں ہی رہتے ہوئے دو بیٹیوں کو ڈاکٹر اور ایک کو کمپیوٹر انجینئر بنانے میں کامیاب ہوگیا۔ اب ہماری یہی تین فیکٹریاں ہیں۔ تینوں بیٹیاں بعد از شادی امریکہ، برطانیہ اور سوئٹزر لینڈ نہ صرف منتقل ہوگئیں بلکہ وہاں کی شہری بھی بن گئی ہیں اور اپنے اپنے شعبوں میں سرکردہ عہدوں پر کام بھی کررہی ہیں جبکہ دو دو بچوں کو بھی ایک شاندار لائف اسٹائل دینے میں کامیاب ہوگئی ہیں۔ ہم دونوں میاں بیوی سال میں ایک دفعہ ایک ایک ماہ تینوں بیٹیوں کے مہمان بنتے ہیں اور اطمینان بخش زندگی گزار رہے ہیں۔ میرا تمہیں اب یہ مشورہ ہے کہ تمہاری بیٹیاں اب اپنی بیٹیوں کو بالخصوص اعلیٰ تعلیم دلوانے کی طرف خصوصی توجہ دیں کیونکہ انہوں نے ہی نئی نسل کی تعمیر کرنا ہوتی ہے۔ یہ تو ایک مختصر سی سچی کہانی ہے جس میں دو اسکول آف تھاٹ کی فیمیلیز کا عملی تجربہ جھلک رہا ہے۔ یہ کسی ایک گھر کی کہانی نہیں بلکہ گھر گھر کی کہانی ہے کہ والدین بیٹوں پر تو سب کچھ لٹانے کیلئے ذہنی طور پر تیار ہوتے ہیں لیکن بیٹیوں کی دفعہ ان کی ترجیحات ہی بدل جاتی ہیں۔ دنیا بھر میں بالعموم اور تیسری دنیا کے ممالک میں بالخصوص ایک سی فطرت پر پیدا کئے جانے مرد عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے کی روایت چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں۔ تیسری ہزاری کے 17 ویں برس کا تیسرا مہینہ شروع ہوچکا ہے اور گزشتہ دنوں 108واں عالمی یوم خواتین منایا گیا۔ ایک طرف دنیا انسانی دماغ کی طرز پر مشینوں کے ذریعے مصنوعی ذہانت پیدا کرنے اور اسے روز مرہ زندگی میں استعمال کرکے انسانی زندگیوں میں انقلاب برپا کرنے کے منصوبوں پر عمل کررہی ہے تو دسری طرف ہم بنیادی مسائل پر ہی اٹکے ہوئے کہ بیٹیاں پرایا دھن ہوتی ہیں ان پر پیسے مت خرچ کریں۔ آج بھی پہلی اولاد بیٹا ہو بیٹی ہرگز نہ ہو۔ یہی عمومی رویہ ہے جس کے تحت ہماری ہی مائیں اور بہنیں اکثر اوقات نہ صرف مردوں کا ساتھ دیتی ہیں بلکہ بعض اوقات ان سے کئی قدم آگے نکل کر اپنی بہو، بھابی پر تنقید کے نشتر چلاتی ہیں۔ بعض اوقات یہ معاملہ اس قدر شدید ہوجاتا ہے کہ بیٹے پیدا کرنے کے چکر میں بیٹیوں کی لمبی قطار لگ جاتی ہے جس کے نتیجہ میں باپ کی کمر اخراجات سے دہری ہوجاتی ہے اور آخرکار ماں اپنی جان سے جاتی ہے۔ترقی کے سفر میں خواتین کی ضرورت اور اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئےوزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے مثالی اقدامات کئے ہیں۔ حکومت پنجاب نے خواتین کی شرح خواندگی بڑھانے میں خاص دلچسپی لی ہے۔ بچیوں میں تعلیم و تربیت بڑھانے کی طرف بھر پور توجہ دی گئی ہے۔ خواتین کے حقوق کے تحفظ اورانہیں بااختیار بنانے کیلئے موثر قانون سازی کی گئی ہے ۔سرکاری اداروں کے بورڈز میں خواتین کی نمائندگی 33فیصد ہے۔ پنجاب میں خاتون محتسب کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ قانون سازی اور لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم کے ذریعے خواتین کے جائیداد میں وراثتی حق کو یقینی بنایا گیا ہے۔ خواتین کے مسائل کے حل کیلئے ویمن کمیشن کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے۔ حقوق نسواں بل کی منظوری نے بھی خواتین کو ان کے حقوق کی دستیابی یقینی بنادی ہے۔ پنجاب ایجوکیشنل انڈومنٹ فنڈ کے ذریعے خواتین ڈاکٹرز، انجینئرز بن کر ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردارادا کررہی ہیں۔ خواتین کے خلاف تشددکے خاتمے کے حوالے سے ملتان میں پہلا داد رسی سینٹر تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ پنجاب حکومت نے تمام سرکاری محکموں میں ملازمت کیلئےخواتین کا 15 فیصد کوٹہ مختص ، سرکاری ملازمتوں کیلئے عمر کی حد میں خواتین کیلئے 3سال کی رعایت، پنجاب ووکیشنل ٹریننگ کونسل کے تحت ایک لاکھ 10 ہزار سے زائد خواتین کو فنی تربیت کی فراہمی، پنجاب اسکل ڈویلپمنٹ فنڈ کے تحت 14 ہزار سے زائد دیہی خواتین کو فنی تربیت کی فراہمی جیسے اقدامات کئے گئے ہیں۔ یہ تو ہیں ریاستی اقدامات معاشرے کو بھی اس ضمن میں اپنی ذمہ دارایاں ادا کرنا ہوں گی۔بیٹوں کو بازو سمجھنے والے والدین کو بیٹیوں کی عزت نفس اور ان کے حقوق کے بارے میں مثبت سوچ اپنانا ہو گی۔

.
تازہ ترین