• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم جیسے تو نہیں رہیں گے لیکن میرے ایمان اور وجدان کا حصہ ہے کہ یہاں بہت سے الفاظ اور اصطلاحوں کو’’ری ڈیفائن‘‘ کرنا ہوگا، نئے سرے سے ان بے شمار الفاظ اور اصطلاحوں کی تعریف کرنا ہوگی جو مذاق بلکہ گالی بن چکے ہیں مثلاً ایک لفظ ہے’’بے غیرت‘‘ تو میرے نزدیک بے غیرت وہ ہیں جن کے راستے’’پروٹوکول‘‘ کے نام پر روک لئے جاتے ہیں اور وہ نہ صرف خود کو گالی دینے والوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے نہیں ہوتے بلکہ الیکشن میں پھر انہی لوگوں کے پاس اپنا ووٹ’’بیچ‘‘ دیتے ہیں۔ بے غیرت ہے ہر وہ شخص جس کے کسی معصوم محلہ دار کو پولیس بلاوجہ اٹھالے جائے اور وہ کان لپیٹ کر اپنے مردہ ضمیر کے سرہانے پر سر رکھ کر سوتا رہے وغیرہ وغیرہ۔
جنہیں پولیس کسٹڈی میں ہونا چاہئے، انہیں پولیس سیلوٹ مارنے پر مجبور اور وہ وزیر اعظم بھی مسلسل مفرور جو رنگ برنگے سوٹ پہن کر قوم سے خطاب فرماتا تھا، شوکت عزیز کہلاتا تھا۔ یہ کوئی نظام نہیں بیک وقت نوحہ بھی ہے اور کامیڈی بھی۔ وزیر اعظم لاہور تشریف لائے اور ان کا پروٹوکول کسی کی ماں کو نگل گیا تو منطق یہ پیش کی گئی کہ یہ عوام دشمن، آدم خور پروٹوکول نواز شریف نہیں’’وزیر اعظم‘‘ کے لئے ہے تو میں سوچتا ہوں خلفائے راشدین کے عہد میں کسی کو یہ خیال کیوں نہ آیا۔ تین خلفاء شہید ہوئے لیکن کسی نے کبھی یہ نہیں کہا کہ یہ سیکوریٹی، یہ پروٹوکول عمر بن خطابؓ کے لئے نہیں، ’’امیر المومنین‘‘ کے لئے ہے۔ رہ گئی یہ بات کہ حالات بہت برے ہیں، وزیر اعظم کو لاحق خطرات بہت شدید ہیں تو سر آنکھوں پر لیکن پھر یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ جب حالات بالکل نارمل تھے، دہشت گردی کا وجود تک نہ تھا اور راوی چین ہی چین لکھتا تھا تو بھی یہ پروٹوکول عوام کو اسی طرح خجل خوار کرتا تھا یعنی یہ حکمرانوں کی مجبوری یا ضرورت نہیں، عادت ہے۔ عوام کی توہین اور تذلیل ان کی مرغوب ترین غذا ہے۔ اکثر و بیشتر اہداف ہی صرف دو ہوتے ہیں۔ قارون جیسا مال فرعون جیسا جاہ و جلال، باقی سب ڈھونگ ڈھکوسلہ اور ڈرامہ ہے ورنہ اس ملک میں سینکڑوں نہیں ہزاروں کام ایسے ہیں جن پر ایک روپیہ خرچ نہیں ہوتا لیکن عوام کی زندگیوں میں آسانی اور روانی آسکتی ہے۔ مجھے آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ ہر کام کے ساتھ اسے مخصوص معینہ وقت میں ہر صورت نمٹانے کا کوئی تصور کیوں نہیں ہے؟ بڑے تو چھوڑو چھوٹے موٹے سرکاری نٹ بولٹ بھی’’سائلین ‘‘ کی درخواستوں پر سنگ چور سانپ بن کر تب تک بیٹھے رہتے ہیں جب تک ان کی مٹھیاں گرم نہیں کی جاتیں مثلاً کوئی سفید پوش لاوارث اپنے 5مرلہ مکان کا نقشہ ہی پاس کرانا چاہے تو اس کے لئے ہمالیہ سر کرنے کے برابر ہے۔ اکٹھے نہیں سلوموشن میں ایک ایک کرکے’’اعتراض‘‘ لگائیں گے اور اپنی اجرت بلکہ رشوت بڑھائیں گے’’سائل‘‘ بیچارہ سو جوتے بھی کھاتا ہے سو پیاز بھی۔ ذہنیت پر غور فرمائیں کہ جس معاشرہ میں کلرک ٹائپ لوگ بھی’’غیور‘‘ اور باشعور‘‘ عوام کو سرعام’’سائل‘‘ یعنی سوالی کہتے ہوں وہاں حکمران طبقوں کے لاشعور میں ان عوام کا اصل اور حقیقی مقام کیا ہوگا؟
اشفاق احمد مرحوم کے ساتھ میری لمبی نشستیں اور بحثیں ہوتیں کیونکہ ماڈل ٹائون میں ہمارا بینک سانجھا تھا۔ بینک منیجر صاحب ذوق تھا۔ چائے پہ چائے منگوائے جاتا اور ہماری بحث کے چسکے لیتا۔ میں حدادب میں رہتے ہوئے اشفاق صاحب کی بابا گیری اور بابا پرستی کو چٹکیاں بھرتا۔ اشفاق صاحب میرے نت نئے دلائل سے لطف اندوز ہوتے ہوئے مجھے قائل کرنے کی کوشش کرتے۔ نہ وہ مجھے بابوں پر قائل کرسکے اور میری تو خیر اس داستان گو کے سامنے اوقات ہی کیا تھی۔ اس چھیڑ چھاڑ کے پیچھے میرے اس مقصد سے اشفاق صاحب بھی آگاہ تھے کہ.......
میں نے اس شوق میں چھیڑی ہیں ہزاروں باتیں
میں ترا حسن ترے حسن بیاں تک دیکھوں
لیکن اشفاق صاحب کی یہ بات میری روح تک میں اتر جاتی اور آج بھی مسحور، مخمور اور معطر کئے رکھتی ہے کہ
وہ انسان ہی انسان ہوتا ہے جو انسانوں کے لئے آسانیاں پیدا کرتا ہے۔
وہ حکمران ہی بھلا ہوتا ہے جو عوام کے لئے آسانیاں فراہم کرتا ہے۔
صرف وہی معاشرہ انسانی معاشرہ کہلانے کا مستحق ہے جس میں ایک دوسرے کے لئے آسانیوں کی فراوانیوں کا رواج اور کلچر پروان چڑھ جائے۔
لیکن افسوس یہاں تو ٹاپ ٹو باٹم، اوپر سے نیچے اور حکمرانوں سے عوام تک نے شاید قسم کھا رکھی ہے کہ ایک دوسرے کے لئے آسانیاں نہیں مشکلات پیدا کرنی ہیںاور شاید یہی وہ منحوس غیر انسانی اور اذیت ناک ماحول تھا جس کی بدصورتی نے منیر نیازی جیسے خوبصورت انسان اور لازوال شاعر کو یہ حیران کردینے والا انوکھا شعر لکھنے پر مجبور کیا؎
چاہتا ہوں میں منیر اس عمر کے انجام پر
ایک ایسی زندگی جو اس قدر مشکل نہ ہو
لیکن جب تک حکمران تبدیل نہیں ہوں گے .....یہاں کوئی مشکل کبھی ا ٓسان نہیں ہوگی اور حکمران تب تک تبدیل نہیں ہوں گے جب تک ہم تبدیل نہیں ہوتے۔

.
تازہ ترین