• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
غازی علم الدین شہید (1908-1929)نے شاتم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہندو پبلشر راج پال کو قتل کیا تو علامہ اقبالؒ نے ایک فقرے میں اپنی بے بسی اور خواہش دونوں کو سموتے ہوئے کہا ’’ہم باتیں کرتے رہ گئے اور ترکھان کا بیٹا بازی لے گیا‘‘۔ میرے کرم فرما مرحوم مولوی محمد سعید پرانے زمانے میں پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر رہے۔ وہ اس سارے واقعہ کے عینی شاہد تھے اور کبھی کبھار ماضی کی یادوں کے چراغ جلاتے تو اس واقعے کا جذب و مستی کے عالم میں ذکر کیا کرتے تھے۔ لاہور کی گوالمنڈی کے قریب بانساں والا بازار کسی دور میں میری گزر گاہ رہا ہے اور اسی بازار میں راج پال اپنی دکان پر قتل ہوا تھا۔ میں جب بھی وہاں سے گزرتا تو چشم تصور میں شہید غازی علم الدین کا جنازہ ذہن کے پردے پر نمودار ہوتا۔ مولوی سعید صاحب مرحوم کے الفاظ میں یوں لگتا تھا جیسے سارا لاہور اور پنجاب کے دور دراز علاقوں کے مسلمان اس جنازے میں شرکت کے لئے امڈ آئے تھے۔ جنازے کو کندھا دینے والے اتنے زیادہ تھے کہ چارپائی کے ساتھ لمبے لمبے بانس باندھنے پڑے تاکہ لوگ آتے رہیں، کندھا دیتے رہیں اور دوسروں کے لئے جگہ خالی کرنے کے لئے ایک طرف ہٹتے رہیں۔ مولوی صاحب نے اس واقعے کا نقشہ اپنی کتاب آہنگ باز گشت میں بھی کھینچا ہے۔ شاید اب یہ کتاب مارکیٹ میں دستیاب نہیں۔
میں نے غازی علم الدین شہید کے جنازے کا احوال اُن کی کتاب میں پڑھا تو مجھے حضرت مجدد الف ثانیؒ کا ایک فقرہ یاد آ گیا۔ آپ کا فرمان ہے کہ بعض اجتماعی دعائیں ایسی ہوتی ہیں جن میں شرکت کرنے والے سبھی بخش دیئے جاتے ہیں۔ میرا جی کہتا ہے کہ بعض جنازے بھی ایسے ہوتے ہیں جن میں شریک ہونے والے یقیناً اللہ پاک کے ہاں بلند درجات پاتے ہیں اور جنازے کو کندھا دینے والے ان سے بھی بلند درجات پاتے ہیں۔ شہداء کے جنازوں کو یہی شرف حاصل ہے اور اسی مقام کے صدقے اللہ پاک قبروں میں بھی اُن کے جسموں کی حفاظت فرماتے ہیں۔ 2010ء میں ہندوستان کے ایک گائوں کے قبرستان میں چند قبریں ایسی ملیں جنہیں غلطی سے کھودا گیا تو راز کھلا کہ قبروں کے مکین یوں لیٹے ہوئے تھے جیسے تھک ہار کر آرام فرما رہے ہوں۔ تر و تازہ چہرے اور مٹی میں دفن ہونے کے باوجود مٹی سے پاک کفن۔ تحقیق سے پتہ چلا کہ قبریں ڈیڑھ سو سال پرانی ہیں اور ان میں شہداء دفن ہیں۔ میں نے یہ ویڈیو دیکھی تو ہرگز تعجب نہیں ہوا کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ شہداء کو مردہ مت کہو، وہ زندہ ہیں اور میرے پاس کھاتے پیتے ہیں۔ اگر شہداء کا یہ مقام ہے تو پھر اللہ سبحانہ تعالیٰ کے محبوبؐ کے گستاخوں کو ختم کرنے والے غازیوں اور شہداء کا کیا مقام ہو گا؟ غازی علم الدین شہید جنہیں 21برس کی عمر میں پھانسی چڑھا دیا گیا، کس مقام اور درجے پر فائز ہوں گے؟ مولوی محمد سعید صاحب نے لکھا ہے کہ جب غازی علم الدین شہید کے ہاتھوں قتل اور گرفتاری کی خبر ان کی والدہ ماجدہ کو دی گئی تو وہ اپنے بیٹے کی منگنی کے لڈو تقسیم کر رہی تھیں۔ خبر سُن کر واویلا کرنے کی بجائے انہوں نے فقط الحمد للہ کہا اور اللہ پاک کا شکر ادا کیا۔ آفرین ہے ایسی عظیم مائوں پر جو عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جنم دیتی ہیں اور جن کے بطن سے شہداء جنم لیتے ہیں۔ یقیناً ایسی مائیں بھی جنتی ہیں اور ایسی اولاد بھی اللہ پاک کا انعام ہی ہوتی ہے۔ زندگی بھی عارضی، دنیا بھی چند روزہ۔ زندگی اگرچہ فریب نظر ہے لیکن موت سب سے بڑی حقیقت ہے جو اس فریب نظر کا پردہ چاک کرتی ہے۔ لیکن زندگی چند روزہ ہمارے لئے ہے، عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور شہداء کے لئے زندگی ابدی ہے، ابد سے ابد تک___اسی لئے تو فرمایا گیا ہے کہ مسلمان کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک اُس کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت بے پایاں نہ ہو، بے پایاں سے مراد کہ اپنے والدین، اولاد حتیٰ کہ اپنی ذات سے بھی کہیں زیادہ نہ ہو۔ اگر حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کہیں کمی رہ گئی تو انسان مسلمان تو ہو گا لیکن اس کا ایمان نامکمل رہے گا۔ یہی صورت اہل بیت ؓ کی ہے۔ حب رسول ﷺ کے تقاضے اہل بیت ؓ کی محبت کے بغیر مکمل نہیں ہوتے۔ میں نے اکثر اولیاء کرام کی مجاہدات سے بھرپور زندگیوں کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ راز سمجھا کہ اُن کا روحانی مقام عشق رسولؐ اور اہل بیتؓ سے بے پایاں محبت کا انعام تھا۔ اسی لئے میں جب اخبارات میں شام پر بمباری کی خبریں پڑھتے ہوئے حضرت زینب ؓ کے مزار کے اردگرد بموں کی خبریں پڑھتا ہوں تو کانپ جاتا ہوں۔ حضرت علی ؓ اور حضرت فاطمہؓ کی بیٹی جسے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے لعاب دہن سے گڑھتی دی اور جن کا نام آسمان سے اترا، کیا اُن کے مقام کا اندازہ کیا جا سکتا ہے؟ کیا کوئی ’’ایمان کا مسلمان‘‘ اُن کے مزار کی بے حرمتی کا تصور بھی کر سکتا ہے؟ نام کے مسلمان اور ایمان کے مسلمان میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔
عشق رسول ﷺ آخرت کا قیمتی اثاثہ بلکہ توشہ اور بخشش کی کنجی ہے۔ جسٹس شوکت صدیقی نے گستاخانِ رسول ﷺ کا نوٹس لے کر اور عدالتی فیصلے کے ساتھ ساتھ اپنے غم و غصے کا اظہار کر کے سرخروئی حاصل کر لی۔ انہوں نے ثابت کر دیا کہ وہ سچے مسلمان اور سچے صدیقی ہیں۔ سچے صدیقی حضرت ابوبکر صدیق ؓکی نسبت سے۔ ایسے قابل اعتراض مواد، گستاخانہ انداز اور بلاگرز کو انجام تک پہنچانا عدالت اور حکومت کا فرض ہے۔ اس حوالے سے مسلمان دل و جان سے ان کے ساتھ ہیں۔ اس طوفان بدتمیزی اور گستاخی کا نہ صرف راستہ روکئے بلکہ ایسے مواد کا نام و نشان بھی مٹا دیجئے اور ایسے گستاخوں کو مثال عبرت بھی بنا دیجئے ورنہ اس قوم میں غازی علم الدین شہید جیسے پروانوں کی کمی نہیں۔ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے میری ناتواں جان بھی حاضر ہے۔

.
تازہ ترین