• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان اپنی تاریخ اپنے عوامی مزاج و ناگزیر قومی ضروریات کے حوالے سے بہرحال ترقی پذیر دنیا کا ایسا امتیازی جمہوری معاشرہ ہے جو کسی حال میں اتھاریٹرین ازم کو قبول کرتا ہے نہ آمریت کو، یہ ہی نہیں ہمارے وہ بزرگ جنہوں نے نظریہ پاکستان پیش کیا اور اسے ایک پلیٹ فارم کی شکل دیکر نئی مملکت کے عظیم اور کٹھن ہدف کے ساتھ ایک جہد مسلسل میں تبدیل کر دیا، ابلاغ عامہ کی نتیجہ خیز صلاحیتوں سے آراستہ تھے۔ یہ ہی وہ تاریخی وجہ تھی کہ جدید برصغیر میں مسلمانان ہندکی یہ اجتماعی جمہوری سوچ دلی کے نئی دہلی بنتے اور یہاں فرنگی پرچم لہرانے کے دو ڈھائی عشروں میں ہی ظہور پذیر ہوئی۔یہ ماننا پڑے گا کہ سلطنت مغلیہ کا چراغ گل ہونے کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کی پہلی اجتماعی سیاسی سوچ، انگریز کے متعارف کرائے گئے نئے سیاسی نظام (کنٹرولڈ اور بتدریج جمہوریت) سے اخذ ہوئی۔ یہ اتنی جاری و ساری رہنے کی صلاحیت (SUSTAINABLE)کی حامل تھی کہ ہمارے بزرگوں اور نئے پولیٹکل آرڈر میں ان کے سیاسی حلیفوں نے فرنگی راج سے آزادی کا سوچا بھی اور عملی جدوجہد بھی کی، لیکن عوامی شرکت کے ساتھ (اور پھر ان ہی کی) حکمرانی کو ہی اپنی منزل قرار دیا، گویا فرنگی راج تو ایک وقت پر قابل قبول نہ رہا لیکن ان کا متعارف کرایا ہوا ریاستی نظام ہی (مکمل حالت و شکل میں) آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کی منزل و مقصود گوراج قائم ہونے کے تین چار عشروں کے بعد قرار پائی، حتیٰ کہ آزادی کے بعد بھی نو آزاد مملکتوں (اسلامی جمہوریہ پاکستان اور ری پبلک آف انڈیا) نے جمہوریت کو اپنی منزل قرار دیا۔ ایک سیکولر جمہوریت دوسری اسلامی،جدید تاریخ میں برصغیر کے اس سیاسی پس منظر میں پاکستان کے قیام کے نظریئے، مطالبے، جدوجہداور قیام اور اسے چلانے اور بڑھانے سب کی سوچ اور پس منظر جمہوریت سے عبارت ہے، جس کا سب سے بڑا لازمہ عوام الناس۔
عملی سیاست میں اگر سب سے بڑا لازمہ عوام اور قوم ہو تو ان سے ابلاغ اور مسلسل ابلاغ مملکت کی ناگزیر ضرورت پڑ جاتی ہے۔ کیسا ابلاغ؟ کہ اس کی تو کتنی ہی اقسام ہیں، یقیناً ابلاغ عامہ جس کے مخاطب عوام الناس ہوتے ہیں۔فقط یہ ہی ضروری نہیں قومی سوچ، عوامی ضروریات اور ان کے مفادات میں رنگا ہوا، پھر ان کی زبان اور طرز ثقافت کے مطابق ہونا مطلوب ہے اس کے علاوہ بہت کچھ جیسے اس ابلاغ کی کامیابی نتیجہ خیزی سے منسوب ہے اور نتائج بھی ابلاغ عامہ کے اعلیٰ اور مطلوبہ معیار کے سے ہوں ناکہ اختیارات اور پیسے کے ناجائز استعمال، غیر آئینی، غیر اخلاقی اور غیر سیاسی ابلاغ سے پیدا کئے گئے۔پاکستان کا حصول اور اس کے لئے جہد مسلسل، ایسے ہی ابلاغ عامہ کا کامیاب ترین نتیجہ ہے کہ جس نے تحریک پاکستان کا قیام ممکن بنایا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اس سوال کا جواب کہ اتنی بڑی ہندو اکثریت اور فرنگی راج میں ہندوستان میں ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ کا قیام کیونکر ممکن ہوا؟ یہ ابلاغ عامہ کے معیار مندرجات اور تسلسل کے کمال کے بعد عوام سے ابلاغ کرنے والے سیاسی رہنمائوں کی سحرانگیز، دیانت دارانہ اور سیاسی مہارت کی حامل شخصیت کا کمال تھا کہ انگریز کی حکمرانی اور ہندو کی اکثریت ہوتے ’’اسلامی جمہوریہ کے قیام کے عظیم ارادوں‘‘ کے ساتھ پاکستان وجود میں آیا۔ اس سے موثر ابلاغ کی جادوبھری قوت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
آج کی جدید سائنس نے موثر ترین ابلاغ کی تین عناصر کی نشاندہی کی ہے اس میں Charizma(سحر انگیزی) Trustworthiness(دیانت داری) اور Expertise (مہارت) کی نشاندہی کی ہے۔ پاکستان بننے کے بعد ہمارے سیاسی و جمہوری عمل میں جو بگاڑ پیدا ہوا اس کی ایک بڑی وجہ ہمارے قومی سیاسی ابلاغ (جو ابلاغ عامہ کی ایک شکل ہے) میں متذکرہ تینوں لازموں کی کمی تھی۔قائداعظم ؒ وہ عظیم سیاسی رہنما تھے جو نتیجہ خیز ابلاغ کےتینوں لازموں سے مالا مال تھے۔سحر انگیزی تو ایک قدرتی عطیہ ہے، جو عوام کے دل موہ لیتا ہے، یہ مجموعی شخصیت کے متاثر کن شکل میں بھی ہوتا ہے اور کسی کے خطاب کسی کی شکل و صورت اور باڈی جیسٹر یا عوامی انداز میں ہوسکتا ہے لیکن دیانت اور موضوع (جس پر ابلاغ کیا جائے) کی مہارت انسان کی اپنی پیدا کردہ سکت ہوتی ہے۔ان تینوں لازموں کے علاوہ ابلاغ کا عوامی معاشرتی و ثقافتی اقدار کے مطابق ہونا دوسرا بڑا لازمہ ہے۔بدقسمتی سے قیام پاکستان کے بعد ہمارے جوقدآور سیاست دان سیاسی منظر اور اقتدار پر آئے ان کے ابلاغ عامہ (سیاسی ابلاغ) میں موثر ترین ابلاغ کے لازموں کا توازن نہیں تھا۔ذوالفقار علی بھٹو سحر انگیز شخصیت تھے،وہ ابلاغ بھی بمطابق عوام کرتے تھے، روٹی کپڑا اور مکان اس کی زندہ مثال ہے جو پاکستانی سیاسی ابلاغ میں کامیاب ترین ابلاغ ثابت ہوا۔ وہ سیاست کے بھی ماہر سمجھے جاتے تھے لیکن ان کی سیاسی دیانتداری مشکوک و متنازع تھی اور اتنی کہ ان کی تمام ابلاغی خاصوں کو نتائج دینے کے بعد بھی کھاگئی۔ امام خمینی سیاست کے ماہر نہ تھے ایک عالم فاضل شخصیت جن کا سیاست سے کوئی واسطہ نہ تھا لیکن اپنی سحر انگیزی اور دیانت کو لئے ان کا پیرس سے ہونے والا ایرانیوں سے سیاسی ابلاغ، شہنشاہیت کے خلاف اسلامی انقلاب برپا کرنے کا سبب تھا۔ عمران خان کی کرکٹ، شوکت خانم، دیانت داری اور ابلاغ بمطابق عوام پھر سحر انگیزی بھی پاکستان میں تیسری سیاسی قوت پیدا کرنے میں کامیاب ہوئی، لیکن ان کا اپنا اور ان کے ساتھیوں کا خصوصاً اور ن لیگ کے ابلاغی ٹولے کا جمہوری اور پاکستانی معاشرتی اقدار سے متصادم ابلاغ عامہ (سیاسی ابلاغ ) بے حد مایوس کن اور بار بار ڈیزاسٹر کا باعث بنتا ہے۔ہر دو ر کے میڈیا سیل بڑے منظم اور سرگرم ہیں، لیکن میڈیا یا سیل پیسے کی بھرمار اور فقط سرگرمی اور جذباتی کیفیت، وفاداری اور درباریت سے نتائج دینے، ان کے لئے ماس کمیونی کیشن کی سائنس کا اطلاع لازم ہے، جس سے ہماری سیاسی جماعتوں کے میڈیا سیل یکسر محروم ہیں۔ پاکستان میں میڈیا (ڈان) لیک پر جوکمیشن بنا اور جو کچھ عوام کے سامنے آیا ن لیگ کے اناڑی میڈیا منیجرز نے ڈیزاسٹر کیا وہ عبرت کا مقام ہے۔ اب جو ن لیگ اور پی ٹی آئی کے دو ممبران اسمبلی جو ان بھی اور بزرگ کے درمیان جو انٹرپرسنل نیچر کا آلودہ سیاسی ابلاغ ہوا، وہ بھی اور جس طرح تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد بھی ن لیگ نے اس کو فروغ دیا بھی، سیاسی جماعتیں ہوش سنبھالیں۔ آلودہ سیاسی ابلاغ سے جمہوری عمل بھی آلودہ ہو رہا ہے اور عملی سیاست بھی۔ وماعلینا الاالبلاغ

.
تازہ ترین