• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ہفتے پیش آنے والے واقعہ کے بعد مجھے اپنے فیصلے پر کوئی دکھ نہیں ہوا۔ 2013ء کے الیکشن کے بعد میں نے سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا تھا کہ موجودہ پارلیمنٹ کی کارروائی نہیں دیکھوں گا۔ پارلیمنٹ ہائوس اس مقصد کیلئے نہیں جائوں گا چونکہ میرے نزدیک موجودہ پارلیمنٹ عوام کے مینڈیٹ سے وجود میں نہیں آئی بلکہ مبینہ دھاندلی کے ذریعے بنی ہے۔ جس چیز کے آغاز میں دھاندلی ہو، جھوٹ ہو، اس کا انجام اچھا کیسے ہوسکتا ہے۔ اگر آپ 2013ء کے الیکشن کیلئے جاری مہم میں جلسوں کو دیکھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ لیڈر عوام کے ساتھ کس قدر جھوٹ بولتے ہیں، کس طرح فریب سے لبریز تقریریں کرتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے آپ نے اعلیٰ اخلاقیات کا نمونہ دیکھا۔ ن لیگ نے میڈیا کے زور پر واقعہ کو الٹا ثابت کرنے کی کوشش کی مگر ویڈیو کلپس نے یہ چال بھی ناکام بنا دی۔ یہ چال جھوٹ کی بنیاد پر چلی گئی تھی حیرت اس بات پر ہے کہ پوری جماعت میں سے کسی ایک کو بھی سچ بولنے کی توفیق نہ ہوئی۔ بقول میاں جاوید لطیف’’..... میں نے اسمبلی کے اندر شیخ مجیب اور الطاف حسین سمیت کچھ نام گنوا کر کہا کہ عمران خان نے بھی سول نافرمانی کی تحریک چلائی تھی، اس لئے وہ بھی غدار ہیں، اس پر مراد سعید نے مجھے مکا مارا، وہ میرے بچوں کی طرح ہیں، میں اسے معاف کرتا ہوں.....‘‘یہ وہ موقف ہے جو میاں جاوید لطیف نے پہلے دن اختیارکیا مگر جب دوسرے دن ویڈیو کلپس سامنے آئے تو پھر میاں جاوید لطیف کہنے لگے ’’..... میں غصے میں تھا، مجھ سے غلطی ہوگئی، میں نے جو کہا وہ نہیں کہنا چاہئے تھا، پتہ نہیں وہ سچ تھا یا جھوٹ تھا مگر مجھے نہیں کہنا چاہئے تھا، میں معذرت خواہ ہوں.....‘‘
قارئین کرام! میں میاں جاوید لطیف اور ان کے خاندان کو جانتا ہوں، میرا ان سے میل جول ہے، میں جانتا ہوں کہ میاں جاوید لطیف دھیمے مزاج کا آدمی ہے مگر یہ زیادتی ’’کسی‘‘ نے کروا دی ہے، کسی کو سمجھنے کیلئے ایک پرانا واقعہ پیش خدمت ہے۔ اس زمانے میں بھی میاں نوازشریف کے پاس ہیوی مینڈیٹ تھا، وہ ان کا بطور وزیراعظم دوسرا دور تھا، ایک روز گوجر خان سے قومی اسمبلی کے نوجوان رکن چوہدری خورشید زمان کو وزیراعظم ہائوس سے فون آیا کہ کل آپ نے پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ سے آدھا گھنٹہ پہلے آنا ہے، وزیراعظم نے آپ سے ضروری باتیں کرنی ہیں، اگلے دن خورشید زمان پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ سے آدھا گھنٹہ پہلے پہنچ گئے پھر انہیں سمجھانے والوں نے سمجھایا کہ خورشید زمان صاحب آپ نے آج میٹنگ شروع ہونے کے دس منٹ بعد شیخ رشید پر چڑھائی کردینی ہے، چوہدری خورشید زمان نے کہا کہ سر! وہ تو وفاقی وزیر ہے، اس پر انہیں سمجھایا گیا کہ کوئی بات نہیں، آپ کی کرسی ویسے بھی وزیراعظم کے ساتھ رکھی جارہی ہے، بس آپ نے شیخ رشید کی ایسی تیسی کردینی ہے، یہ بات طے ہوگئی۔ کچھ ہی دیر میں میٹنگ کا وقت ہوگیا، کرسیاں لگ گئیں، خورشید زمان کی کرسی وزیراعظم کے بالکل ساتھ تھی، میٹنگ شروع ہوئی جب میٹنگ کو دس منٹ ہوئے تو شیخ رشید کا تذکرہ ہوا، اس تذکرے کے ساتھ ہی وزیراعظم کو توقع تھی کہ خورشید زمان، شیخ رشید پر چڑھ دوڑیں گے مگر افسوس کہ نوجوان خورشید زمان طے شدہ بات بھولے ہوئے تھے، جونہی وزیراعظم نے خورشید زمان کو خاموش پایاتو اسے کہنی ماری، کہنی مارنے کا یہ منظر شیخ رشید نے دیکھ لیاا اور پھر فرزند پاکستان سوار ہوگیا، اس نے کہا ’’.....وزیراعظم صاحب! ان لڑکوں سے ہماری بے عزتی کیوں کروانا چاہتے ہیں جو کہنا ہے خود کہیں، خورشید زمان تو ویسے بھی میرے چھوٹے بھائیوں کی طرح ہے چونکہ یہ چوہدری ریاض کا چھوٹا بھائی ہے، ہم ایک ضلعے کے ہیں.....‘‘ بس اس دن خورشید زمان کا بھول جانا اور پھر شیخ رشید کا کہنی کو دیکھ لینا، شیخ رشید کو ایک بڑی لڑائی اور بڑی بے عزتی سے بچا گیا۔
اسے آپ اتفاق سمجھیں یا حسن اتفاق کہ چوہدری خورشید زمان اور میاں جاوید لطیف کا تعلق ایک ہی برادری سے ہے، اس برادری کے اراکین اسمبلی، ن لیگ سے وہ ثمرات حاصل نہیں کرسکے جودوسروں نے کئے۔ اگر اس بات کی کسی کو سمجھ نہ آئے تو وہ اس بات پر غور کرے کہ لاہور مسلم لیگ ن کا قلعہ ہے، لاہور میں جدوجہد پرویز ملک اور شائستہ پرویز کرتے ہیں مگرجب اسپیکر شپ کا مسئلہ آتا ہے تو پرویز ملک کے پیچھے چلنے والے ایک شخص کا نام آجاتا ہے، جی ہاں! سردار ایاز صادق جو احمد مختار کے کزن ہیں، احمد مختار پیپلز پارٹی میں ہیں مگر یاد رہے کہ سردار ایاز صادق ایک زمانے میں تحریک انصاف میں تھے، ان کا قائد عمران خان تھا، اسی طرح میاں جاوید لطیف ایک زمانے میں طاہر القادری کی پارٹی میں تھے یہ الگ بات ہے کہ میاں جاوید لطیف کے تمام رشتہ دار ایم این ایز مسلم لیگ ن میں ہیں اور اب خود میاں جاوید لطیف بطور رکن قومی اسمبلی مسلم لیگ ن کا دفاع کرتے ہیں، جاوید لطیف اور ان کے چار رشتہ دار ایم این ایز مشکل ترین دور میں ن لیگ کے ساتھ رہے لیکن ان میں سے کسی کو بھی وزارت کا اہل نہیں سمجھا گیا۔
میں ایسے ہی آپ کو ماضی میں لے گیا، مجھے دراصل حالیہ واقعہ پر بات کرنا تھی جس مراد سعید کو گالیاں دی گئیں، اس کی والدہ معذور ہے، اس کی بہنیں اپنی والدہ کی نگہداشت کرتی ہیں، مراد سعید زمانہ طالبعلمی ہی سے عمران خان کا پیروکار ہے، دبنگ نوجوان ہے، عمران خان نے جن پینتیس فیصد نوجوانوں کو ٹکٹ دیئے تھے، مراد سعید ان میں سے ایک ہے، یہ سارے نوجوان جوشیلے ہیں، سب پڑھے لکھے ہیں، ان کی عمریں چھوٹی ہیں مگر یہ گالیاں نہیں دیتے۔
لگے ہاتھوں غداری پر بھی بات ہو ہی جائے، میاں جاوید لطیف کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے تھی کہ شیخ مجیب اور الطاف حسین نے پاکستان کے خلاف نعرے لگائے تھے جبکہ عمران خان نے ایسا کوئی کام نہیں کیا، عمران خان تو کلبھوشن یادیو کا نام بھی کھلے عام لیتا ہے اور بعض لوگ کلبھوشن کا نام لینا جرم سمجھتے ہیں، میاں جاوید لطیف آپ کو یاد ہوگا کہ جب پچھلے دور میں پنجاب میں گورنر راج لگا تھا تو سول نافرمانی کی تحریک میاں نوازشریف نے شروع کی تھی، آپ کو اچھی طرح یاد ہوگا کہ اس مقصد کیلئے شیخوپورہ میں پہلے جلسے کا اہتمام آپ ہی نے کیا تھا، اس جلسے میں ایک پولیس اہلکار نے اپنی بیلٹ اتار کر پیش کی تھی اور آپ کے لیڈر اس نافرمان اہلکار کو تھپکیاں دے رہے تھے، یاد رکھیئے جھوٹ نہیں بولنا چاہئے، جھوٹ آخر جھوٹ ہوتا ہے اس کا انجام رسوائی کے سوا کچھ بھی نہیں، الیکشن مہم ہو، جلسوں میں کئے گئے وعدے ہوں، پارلیمنٹ میں بولا گیا جھوٹ ہو یا قوم سے خطاب میں جھوٹ بولا گیا ہو یا پھر عدالت کے روبرو جھوٹ بولا گیا ہو، اس کا انجام رسوائی ہے، اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں، باقی ن لیگ عورتوں کی کتنی عزت کرتی ہے، اس عزت افزائی کے بارے میں کسی دن ضرور لکھوں گا، فی الحال بہادر شاہ ظفرؔ کا شعر پڑھیے کہ؎
ظفرؔ آدمی اس کو نہ جانیے گا، وہ ہو کیسا ہی صاحب فہم و ذکا
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا

.
تازہ ترین