• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اب تو یہ جھگڑا پرانا ہو گیا۔ اور اب تک اس پر اتنی باتیں ہو گئی ہیں کہ مزید کچھ کہنے کی گنجائش ہی نظر نہیں آتی۔ لیکن ایک بات ایسی ہے جسے سمجھنے کی ضرورت باقی رہ گئی ہے۔ ہم سب جان گئے ہیں کہ پھٹیچر کسے کہتے ہیں۔ عمران خاں نے اس کی وضاحت بھی کر دی ہے۔ اور عمران خاں نے ہی ہمیں یہ بھی بتا دیا ہے کہ کرکٹ کی اصطلاح میں ’’ریلو کٹا‘‘ اس نکمے کھلاڑی کو کہتے ہیں جسے کسی اچھے کھلاڑی کے کم ہونے پرمجبوراً کھلایا جاتا ہے۔ اسے بارہواں کھلاڑی بھی کہہ لیا جاتا ہے۔ یہ بارہواں کھلاڑی کون اور کیسا ہوتا ہے؟ اس کے لئے آپ افتخار عارف کی نظم پڑھ لیجئے۔ مگر یہ سوال پھر بھی باقی رہتا ہے کہ آخر اس کھلاڑی کو ’’ریلو کٹا‘‘ ہی کیوں کہتے ہیں؟ یعنی اس غریب کھلاڑی کے لئے یہ لفظ ہی کیوں استعمال کیا جاتا ہے؟ ہم نے اس سوال پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ پنجاب میں جس سواری کو ’’ریہڑا‘‘ کہا جاتا ہے ہندوستان کے اردو بولنے والے علاقوں میں اسے ’’ریلو‘‘ یا ’’ریہلو‘‘ کہتے ہیں۔ اور ’’کٹا‘‘ بھینس کے نر بچے کو کہتے ہیں۔ یہ بچہ جب تک پورا بھینسا نہیں بن جاتا اس وقت تک کٹا‘‘ ہی کہلاتا ہے۔ عام طور پر ریہڑے یا ریلو میں بیل یا گھوڑا جوتا جا تا ہے۔ لیکن اگر بیل یا گھوڑا نہ ہو تو مجبوراً کٹا بھی جوت لیا جاتا ہے۔ گھوڑا اور بیل تیز دوڑتے ہیں، مگر کٹا یا بھینسا اتنا تیز نہیں دوڑ سکتا اس لئے اس کی وہ وقعت اور عزت نہیں ہوتی جو گھوڑے یا بیل کی ہوتی ہے۔ چنانچہ ریلو کٹا تحقیر کا لفظ بن گیا۔ خیر، یہ ہماری تحقیق ہے۔ ہو سکتا ہے غلط ہو مگر ہمیں یہی قرین قیاس نظر آ تا ہے۔ ظاہر ہے ریلو کٹا کے کوئی نہ کوئی تو لغوی معنی ہوں گے ورنہ یہ کرکٹ کی اصطلاح کیسے بن گیا۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ الفاظ ایک جگہ سے دوسری جگہ اور ایک علاقے سے دوسرے علاقے تک سفر کرتے ہو ئے کیسی کیسی شکلیں بدلتے ہیں۔ معاف کیجئے، ہم محقّق وحقق بالکل نہیں ہیں۔ اگر کسی ’’صاحب علم‘‘ کو اس کے کوئی اور معنی معلوم ہوں تو ہم اپنی اصلاح کے لئے ہر وقت تیار ہیں۔
لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض الفاظ کی ملتی جلتی آوازیں انہیں کچھ سے کچھ بنا دیتی ہیں حتیٰ کہ ان کے معنی ہی بدل جاتے ہیں۔ ہمارا نواسا جو آج کل امریکہ میں ایک بالکل ہی نئے مضمون میں ڈاکٹریٹ کر رہا ہے، جب چھوٹا بچہ تھا تو نواز شریف کو ’’ناراض شریف‘‘ کہتا تھا۔ اس کے لئے صوتی اعتبار سے نواز اور ناراض ایک ہی چیز تھے۔ اس کے معصوم منہ سے یہ لفظ اتنا اچھا لگتا تھا کہ ہم نے بھی اس کی اصلاح کرنے کی کوشش نہیں کی کہ بڑا ہو کر خود ہی سمجھ جائے گا۔ آج ہمیں اس بچے کی یہ بات اس لئے یاد آئی ہے کہ ان دنوں ہم چاروں طرف سے غصیلے اور ناراض لوگوں کے نرغے میں آئے ہوئے ہیں۔ جسے دیکھو اپنی ناک پر غصہ لئے پھر رہا ہے۔ ’’تم نے میرے لیڈر کو یہ کیوں کہا؟‘‘ اور منہ پر مکا۔ ’’تم میرے منہ پر مکا مارو گے تو میں تمہاری خواتین کے بارے میں بد زبانی کروں گا‘‘۔ اب بعد میں چاہے آپ یہ کہہ کر معافی مانگتے پھریں کہ میرے منہ سے یہ نکل گیا تھا۔ لیکن ایسی گھنائونی بات آپ کے منہ سے نکلی ہی کیوں؟ اس کا مطلب ہے کہ آپ کے دل میں یہ بات تھی۔ اب یہ بھی دیکھیے کہ سیاسی جماعتوں کے یہ ارکان ایسی باتیں اور ایسی حرکتیں کر رہے ہیں اور ان کے لیڈر خاموش ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ لیڈر خود ہی ایسا چاہتے ہیں۔ اب عمران خاں کی یہ بات غلط نہیں ہے کہ خواتین کے بارے میں بد زبانی کرنے والے صاحب کو اسمبلی سے نکال دیا جائے۔ لیکن عمران خاں خود بھی تو جلتی پر تیل چھڑک رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر میں مراد سعید کی جگہ ہوتا تو اس سے زیادہ کرتا جو اس نوجوان نے کیا۔ کیا کرتا؟ گتھم گتھا ہو جاتا؟ یعنی یہ سبق دیا جا رہا ہے نوجوانوں کو؟ اب اس واقعہ کے بعد ہمارے میڈیا میں بحث چھڑ گئی ہے کہ سیاست میں برداشت اور تحمل کی صفت کیوں ختم ہوئی اور اسے کیسے واپس لایا جائے؟ لیکن بھائی صاحب، یہ تحمل اور یہ برداشت صرف ہمارے سیاست دانوں میں ہی ختم نہیں ہوئی ہے، ہمارا پورا معاشرہ ہی اس صفت سے محروم ہو گیا ہے۔ کوئی دوسرے کی بات سننا ہی نہیں چاہتا۔ اپنی بات ہی منوانا چاہتا ہے۔ اور ہر شخص جلدی میں ہے۔ ہر ایک دوسروں کو دھکے دے کر جلد سے جلد اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اب آپ سیاست سے باہر آ جایئے۔ حلقہ ارباب ذوق ادیبوں کا وہ پلیٹ فارم ہے جو گزشتہ ساٹھ ستر سال سے ادیبوں اور شاعروں کو ایک جگہ اکٹھا ہو نے اور تنقید و تحسین کے لیے اپنی تخلیقات پیش کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ لیکن برا ہو ذاتی پسند اور ناپسند کا کہ یہ حلقہ بار بار کئی ٹکڑوں میں بٹتا رہا ہے۔ پہلے یہ حلقہ ادبی اور سیاسی گروہوں میں تقسیم ہوا۔ پھر چند دردمند احباب کی کوششوں سے اکٹھا ہو گیا۔ یہ اکٹھا حلقہ کافی عرصے اسی طرح کام کرتا رہا حتیٰ کہ جب پاک ٹی ہائوس بند کر دیا گیا تو اس کے بعد بھی یہ اکٹھا ہی کام کرتا رہا۔ اور جب پاک ٹی ہائوس اپنی نئی شکل میں کھلا تب بھی حلقہ اکٹھا ہی رہا لیکن اس کے بعد ایک بار پھر اس میں اختلافات پیدا ہوئے اور پھر حلقے کے دو حصے ہو گئے۔ ایک حصے کے ہفتہ وار اجلاس ٹی ہائوس میں ہوتے رہے اور دوسرے حلقے نے ایوان اقبال میں اپنے اجلاس شروع کر دیئے۔ یہ سلسلہ کئی سال سے چل رہا تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ کوششیں بھی جاری تھیں کہ حلقے کو ایک ہی ہونا چاہئے۔ آخر ایک ہفتہ پہلے طے ہوا کہ دونوں حلقے اکٹھے ہو جائیں، اور مل کر سیکرٹری اور جوائنٹ سیکرٹری کا انتخاب کرا لیا جائے۔ اس کے بعد ٹی ہائوس میں ہفتہ وار اجلاس کئے جائیں۔ یہ فیصلہ اتفاق رائے سے کیا گیا تھا لیکن اس اتوار کو جب انتخاب ہو رہے تھے تو کچھ لوگ اچانک اس سے الگ ہو کر دور جا بیٹھے۔ بہرحال الیکشن ہوا اور معروف شاعر غلام حسین ساجد سیکرٹری منتخب ہو گئے۔ اب جو اصحاب محض اس لئے ناراض ہیں کہ وہ الیکشن میں کامیاب نہیں ہو سکتے تھے، ان سے یہی گزارش کی جا سکتی ہے کہ ادیبوں کے اتحاد اور اتفاق کی خاطر ہی حلقے کو ایک بار پھر ٹکڑے ٹکڑے نہ ہونے دیں۔ وہ اگلے سال الیکشن میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ہماری سیاست میں برداشت اور تحمل کا جو وصف ختم ہو گیا ہے اسے ادیبوں کے حلقے میں داخل نہ ہونے دیں اور لوگوں کو یہ کہنے کا موقع نہ دیں کہ یہ ادیب بھی سیاست دانوں کی طرح لڑتے ہیں۔

.
تازہ ترین