• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لوقیامت آگئی سب راز کھلتے جاتے ہیں
حسین حقانی کہتے ہیں،سویلین قیادت کی اجازت سے اسامہ کو تلاش کرنے کے لئے میں نے سی آئی اے اہلکار پاکستان بھجوائے اور ان کی مدد کی۔پاکستان ان کا ہے جو اس کے ساتھ وفادار ہیں اور وفاداروں کی اس کھیپ کو غریب عوام کہتے ہیں۔ اشرافیہ یا ہر دور کا حکمران ، سیاستدان طبقہ صرف اپنے مفاد اور اقتدار و سیاست کو بچانے کی اس لئے سرتوڑ کوشش کرتا رہا کہ قوم کو لوٹنے کا اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا؎
ہائے ہائے یہ مجبوری یہ چوری سینہ زوری!
امریکہ حقانی گروپ کو ڈھونڈتا ہے ہم کیوں حقانی کو واپس لاکر اس سے ملک و قوم سے غداری بارے نہیں پوچھتے اور ان کے ان مہربانوں کو کٹہرے میں کیوں نہیں کھڑا کرتے جن کی اجازت سے انہوں نے اپنی سرزمین پر سی آئی اے اورامریکہ کی مدد کی اور آج اس کا پھل امریکی سرزمین پر کھارہے ہیں۔اب مضمون لکھ کر وہ کیا چاہتے ہیں پھر سے کسی نہ کسی انداز میں’’ان‘‘ ہونے کی ہوس ہے، کیا کبھی کوئی ایسی محب وطن سرفروش قیادت آئے گی جو’’میر جعفروں اور میر صادقوں‘‘ سے پورا پورا حساب لے۔ امریکی کیا سوچتے ہوں گے کہ پاکستانی قوم میں کیسےکیسے مہا چور اور غدار ہیں، جفاکار ہیں ہم ایک پاناما کو روتے ہیں کیا خبر کہیہاں سب پاناما ہے، سچ کہتی تھی وہ فلم کی ہیروئن:
لاگا چنری پہ داغ چھپائوں کیسے؟
حسین حقانی کی سفارت تھی کہ شرارت۔
٭٭ ٭ ٭ ٭
لائوڈاسپیکر مجھے سونے نہیں دیتے!
یہ آواز ہے ان بے بس لوگوں کی جن میں سے کچھ بیمار ہیں، کچھ طالبعلم ہیں، تھکے ماندے مزدور ہیں، مائیں ہیں جو بچوں کو سلانہیں پاتیں، لائوڈ اسپیکر ایکٹ موجود ہے تھانے موجود ہیں اور اللہ کے گھروں کو انسانی ایذارسانی کے لئے استعمال کیا جارہا ہے، جب یہ قانون پاس ہوچکا ہے کہ اذان اور جمعتہ المبارک کے خطبے کے علاوہ لائوڈ اسپیکر کا استعمال غیر قانونی اور جرم ہے تو پھر اس پر عملدرآمد کیوں نہیں ہوتا؟عوام کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ وہ15پر اطلاع تک نہیں کرتے کہ ان کے علاقے میں لائوڈ اسپیکر سونے نہیں دیتے۔ آئے دن تقاریر، جلسے برپا ہوتے ہیں، اگر ان کی آواز اندر بیٹھے سامعین تک محدود رکھی جائے تو کوئی بات نہیں کیوں یہی مقصد ہوتا ہے لیکن یہ پوری بستی کو سر پر اٹھا لینا اور لوگوں کو خوابوں میں بھی تقریر سنانا آخر کب اسلام میں جائز ہے۔ یہ امریکہ، برطانیہ، فرانس میں بھی ہیں مگر وہاں لائوڈ اسپیکر اندر تک محدود رہتے ہیں، با ہر آواز نہیں آتی، اپنے ملک میں کیا ایسا کرنا جائز نہیں؟ یہاں کھلی چھٹی ہے کہ جس کا جی چاہے آٹھ لائوڈ اسپیکر فل والیوم پر کھول کرجو چاہے لوگوں کو جبراً سنائے؟ میرے علاقے میں اکثر یہ کچھ ہوتا رہتا ہے۔ ایک روز بہت زیادہ محبور ہوگیا تو 15پر اطلاع کی ، تھوڑی دیر میںتھانے کے انچارج کا فون آیا کہ پریشان نہ ہوں ابھی نوٹس لیتا ہوں اور آن کی آن میں عملدرآمد ہوگیا۔ ہم پولیس کی شکایتیں تو زیادہ بیان کرتے ہیں مگر ان کی حسن کارکردگی کی حکایتیں بیان نہیں کرتے، شاید اس لئے پولیس کا مزاج تلخ ہوجاتا ہے اگر بیداری عام ہو اور ہر شہری اپنی حق تلفی پر پولیس سے مدد مانگے تو ناامید نہیں ہوگا۔
٭٭ ٭ ٭ ٭
دوبالٹیوں والے
پیپلز پارٹی:ایم کیو ایم نے ہر خالی پلاٹ پر قبضہ کیا پارک ،گرائونڈ، نالے بھی نہیں چھوڑے،
متحدہ:الزام لگانے والوں نے نوکریاں بیچیں،
یہ تو وہی فلمی حادثہ ہوا کہ؎
نہ تم نے سگنل دیکھا نہ میں نے سگنل دیکھا
ایکسیڈنٹ ہوگیا، ایگریمنٹ ہوگیا رفتہ رفتہ
دو نوسرباز گھر سے کچھ کمانے نکلے، دونوں نے ایک ایک بالٹی لی، ایک نے بالٹی میں ریت بھری اور اوپر چاولوں کی تہہ لگادی ۔ دوسرے نے گوبر سے بالٹی بھری اور اوپر دیسی گھی کی تہہ لگادی اتفاق سے دونوں کا آمنا سامنا ہوگا، ایک دوسرے سے کہا بالٹی بدلنی ہے دونوں تیار ہوگئےاور پھر خوشی خوشی گھر پہنچے ۔اپنے اپنے بیوی بچوں کے سامنے بڑے فاتحانہ انداز میں بالٹیاں انڈیلیں تو دونوں کی’’دیانتداری‘‘ سامنے آگئی اور شرمندہ ہو کر ’’دمٹروٹ‘‘ گئے ۔ بہرحال ہم سب تو نہیں مگر ہماری اکثریت آج جب ایک دوسرے کو چھیڑتی ہے تو ہمارے کردار کی بوریوں سے ہمارے گناہ تڑ تڑ گرنے لگتے ہیں۔ اسکے باوجود ہم اپنے ووٹ اپنی قسمت انکی بالٹیوں میں ڈال دیتے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ بالٹیوں کے ذریعے وہ کیا گھنائونا کاروبار کرتے ہیں، اگر بقول متحدہ، پی پی نے نوکریاں بیچیں اور بقول پی پی، ایم کیو ایم نے ہر خالی پلاٹ پر قبضہ کرلیا تو دونوں میں فرق کیا رہ گیا۔ دونوں نے انکار نہیں کیا برابر کی چوٹ کا الزام لگایا، اس سے تو سچ کی خوشبو آتی ہے جو دونوں نہ چھپا سکے۔
شاید وطن عزیز کے جمہوری پلیٹ فارم پر یا میدان میں یہی دو بالٹیوں والوں جیسی سیاست حکومت چلتی آرہی ہے، اب ڈبہ سیاست ،ڈبہ حکومت، ڈبہ جمہوریت کے بجائے بالٹی سیاست حکومت اور جمہوریت کہنا زیادہ برمحل اور دلچسپ ہوگا، چھوڑیں ڈبے کو دونمبری کو بالٹی ا ٹھائیں تاکہ لوگ کہے
قیس’’ بالٹی‘‘ کے پردے میں بھی عریاں نکلا
اور سیاست ہر رنگ بے سروساماں نکلی
٭٭ ٭ ٭ ٭
ہم بالغ احساس نابالغ!
٭...صوبائی وزیر مجتبیٰ شجاع الرحمٰن ،عمران خان عوام کی خدمت کررہے ہیں ۔
عوام کی خدمت اس سے بڑھ کر کیا ہوگی کہ پیارے تونے مکا مارا میں ہوتا تو مارہی دیتا۔
٭...پتنگ بازی، ون ویلنگ جاری، بو کاٹا اور موٹر سائیکلوں کے شور میں پابندی دب گئی، انتظامیہ چھٹی مناتی رہی۔
ہمارے قبرستانوں میں انسان نہیں پابندیاں دفن ہیں۔
٭...دل ،کولیسٹرول کے مریضوں کے لئے لائیو اسٹاک نے پہلا ا سٹور لاہور میں کھول دیا ہے۔
امراض دل و کولیسٹرول کے مریضوں کے لئے خوشخبری ہے، مگر دل کے ان دشمنوں کا کیا کیجئے جن کو میرؔ کا یہ شعر بغور پڑھنے کی ضرورت ہے
دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہوسکے
پچھتائو گے سنوہو یہ بستی اجاڑ کے
٭...اگر شہری ہر اس کام سے توبہ کرے جس سے دوسروں کو تکلیف پہنچےتوشاید انہیں حکومت کی محتاجی ہی نہ رہے۔

.
تازہ ترین