• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نیرہ نور نے ایک بڑی خوبصورت غزل گائی ہے جس کے بول کچھ یوں ہیں؎
اے جذبہ دل گر میں چاہوں
ہر چیز مقابل آجائے
منزل کے لئے دو گام چلوں
اور سامنے منزل آجائے
یہ غزل ہمیں کچھ یوں یاد آئی کہ پچھلے ہفتے لاہور میں دو خاص تقریبات ہوئیں۔ پہلی تو کرکٹ میچ (پی ایس ایل) کی تھی جسے منعقد کرانے سے پہلےہی سیاسی پنڈتوں نے بڑی بڑی پیش گوئیاں شروع کردی تھیں کہ یہ میچ نہیں کرانا چاہئے، حکومت لوگوں کو مروائے گی، پتہ نہیں کیاکیا کچھ کہا گیا۔ عمران خاں جنہوں نے کرکٹ سے دنیامیں نام ، شہرت اور پیسہ کمایا، ان کے بیانات پر بڑا افسوس ہوا۔خیر اللہ پاک نے مہربانی کی، اس میچ کو اگرچہ کامیاب کرانے میں کئی دماغ کام کررہے تھےجس کی وجہ سے یہ خیر یت سے ہوگیا، مگر تین پولیس آفیسرز ایسے تھے جن کی حکمت عملی نے اس میچ کو ہر طرح کی دہشت گردی سے بچائے رکھا،ان میں لاہور کے سی سی پی او کیپٹن امین وینس ، ڈی آئی جی ڈاکٹر حیدر اشرف اور ایس ایس پی رانا ایاز لائق تحسین ہیں۔ بات وہی ہے کہ دل میں جذبہ تھا اور منزل سامنے آگئی۔ اس پی ایس ایل نے پاکستان میں کرکٹ کے لئے دروازے دوبارہ کھول دئیے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ اب وہ یہاں پر فٹ بال ، ہاکی اور دیگر کھیلوں کے انٹرنیشنل مقابلے بھی شروع کروائے۔ اب تو پولیس کو بھی اپنی ایک کرکٹ ٹیم بنالینی چاہئے اور چوہدری سلطان ڈی آئی جی کو اس کا کیپٹن بنا دینا چاہئے جس طرح ان تینوں پولیس آفیسروں نے ٹھوس منصوبہ بندی کرکے دہشت گردی سے اس میچ کو محفوظ رکھا تو اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اگر ہماری پولیس کو فری ہینڈ دیا جائے تو وہ اپنی بہترین صلاحیتیں استعمال کرکے کوئی بھی مشکل اور ناممکن کام کو ممکن بناسکتی ہے۔
دوسری تقریب اس حوالے سے بہت بڑی تھی کہ پاکستان کی 70برس کی تاریخ میں آج تک کوئی پاکستانی وزیر اعظم پولیس ہیڈ کوارٹر میں نہیں آیا۔ چند روز قبل بھی یہ تقریب منعقد ہونا تھی مگر وزیر اعظم نواز شریف کی مصروفیت کے باعث ملتوی کردی گئی تھی، بہرحال اب اس تقریب کو منعقد کیا گیا۔ پنجاب کے بڑے شہروں کو ویڈیو لنک کے ذریعے آپس میں لنک کردیا گیا۔حکومت پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی کا قیام عمل میں لائی ہے جس میں انٹرنیٹ کےذریعے تمام تھانوں کو رابطے میں لایا جارہا ہے۔ پنجاب پولیس کا آئی جی آفس آئی ٹی کے حوالے سے ہیڈ کوارٹر ہےاب ہر ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کیا جارہا ہے ،تمام مجرموں کا ریکارڈ اب اس کے کنٹرول روم میں کمپیوٹر میں ہوگا اور ہر تھانہ اس سے مستفید ہوسکے گا۔
برصغیر میں پولیس کا نظام1861میں متعارف کرایا گیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد ہمیں اپنی ملکی ضروریات اور تقاصوں کے مطابق اس پولیس ایکٹ اور نظام میں تبدیلیاں کرنی چاہئے تھیں مگر ہر حکومت نے پولیس کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا بلکہ بعض علاقوں میں وہاں کے سیاسی وڈیروں نے تو پولیس کو گھر کی باندی بنا کر رکھا ۔
خیر ڈیڑھ سو برس بعد پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف اور آئی جی مشتاق سکھیرا کو یہ خیال آہی گیا کہ کسی طرح تھانہ کلچر کو تبدیل کیا جائے حکومت کی یہ کوشش بہت اچھی ہے مگر اس میں ابھی کافی وقت لگے گا۔ پنجاب پولیس کے سارے نظام کو ڈیجیٹل سسٹم پر کیا جارہا ہے، ایسا سسٹم ابھی دنیا کے کئی ممالک میں نہیں حتیٰ کہ ولایت میں بھی پولیس کا نظام ہمارے جدید نظام سے کچھ درجے پیچھے ہے۔
اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے بالکل درست کہا کہ تھانہ کلچر کی تبدیلی، جدید مشینریاں ، آلات اور کمپیوٹر لگانے سے نہیں ہوگی اس کے لئے ہمیں روایتی تھانیداروں کی تربیت کرنی ہوگی۔ نواز شریف نے پولیس کو پی ایس ایل کامیاب طریقے سے کروانے پر مبارکباد دی۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ روایتی تھانیداروں کی تربیت کے لئے ماہرین نفسیات اور علماء کرام سے مدد لینا ہوگی اور علماء کرام بھی وہ جو کسی خاص فرقے یا سوچ کے حامل نہ ہوں بلکہ ان کی سوچ معاشرے کو درست کرنے کے لئے اجتماعی ہو ۔ حکومت نے روایتی تھانہ کلچر اور روایتی تھانہ محرر سے جان چھڑانے کے لئے آئی ٹی کو متعارف کرایا ہے، مثلاً اب پنجاب کے بے شمار تھانوں میں فرنٹ ڈیسک بنادئیے گئے ہیں جہاں پر روایتی محرر کی جگہ تعلیم یافتہ نوجوان لڑے اور لڑکیاں بیٹھی ہوئی ہیں۔ وہ شکایت کنندہ کی شکایت درج کرکے ایک کمپیوٹرئزاڈ سلپ دیتے ہیں اور 24گھنٹے کے اندر متعلقہ پولیس افسر اس شکایت کنندہ سے رابطہ کرنےکا پابند ہوگا اور متعلقہ آفیسر کو صرف دو ہفتوں میں اس شکایت کا ازالہ کرنا ہوگا اگر کیس پیچیدہ ہے تو اس کو مزید کچھ دن مل سکتے ہیں مگر اسے ہر صورت اس کیس کو حل کرنا ہوگا پھر آپ اپنے موبائل فون کے ذریعے8787پر کوئی شکایت درج کراسکتے ہیں اور اپنے اسمارٹ فون کے ذریعے فالو اپ بھی کرسکتے ہیں مثلاً پچھلے دنوں تین لاکھ 25ہزار مختلف شکایات آئیں جن میں سے 2075ہزار شکایات کا ازالہ کیا گیا جو کہ خوش آئند بات ہے ۔ اس تقریب کی سب سے اچھی بات ہمیں یہ لگی کہ دہشت گردی میں جو پولیس ملازمین شہید ہوگئے تھے ان کے لواحقین کو بلایا گیا ۔ ہمارا خیال تھا کہ و زیر اعظم پولیس شہداء کے اہل خانہ سے ملاقات کریں گے، ویسے اسٹیج سیکرٹری نے بھی یہ اعلان کیا تھا کہ وزیر اعظم شہداء کے اہل خانہ سے ملیں گے مگر شاید کسی وجہ سے ایسا نہ کیا گیا، اگر چہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے شہداء کے لئے پہلے پیکیج دیا ہوا تھا جس میں ان کی رہائش، بچوں کی تعلیم اور تاعمر تنخواہ اور پنشن ملتی رہے گی۔ اگر نواز شریف مزید اعلان ان شہداء کے خاندانوں کے لئے کردیتے تو ان کے چہروں پر خوشی آجاتی ،کیونکہ شہداء کے خاندان یہ توقع کررہےتھے کہ شاید کوئی اور اعلان ہوگا کیونکہ ہم جس جگہ بیٹھے ہوئے تھے وہاں کچھ شہداء کے خاندانوں کے بوڑھے ماں باپ اور بیوہ بیٹھی ہوئی تھیں ۔ ان کی یہ خواہش تھی کہ وزیر اعظم ان کے پاس آتے اور کچھ بات چیت کرتے بلکہ ہمارے نزدیک تو یہ تھا کہ وزیر اعظم کو یتیم بچوں کے سر پر ہاتھ رکھنا چاہئے تھا ان کے ساتھ تصاویر بھی بنوانی چاہئے تھیں البتہ نواز شریف نے شہداء کا ذکر ضرور بار بار کیا۔ پنجاب کے گورنر رفیق رجوانہ کو شہباز شریف نے حاکم پنجاب کہہ کر مخاطب کیا جس پر محفل کشت زعفران بن گئی۔ آئی جی مشتاق سکھیرا نے سیکرٹری داخلہ سلمان کے بارے میں کہا کہ وہ بھی بعض اوقات آئی جی بن جاتے ہیں۔ اس پر نواز شریف نے کہا کہ پھر آپ کیا بن جاتے ہیں، اس پر بھی لوگ خوب ہنسے۔
پولیس کے اندر بعض ایسے انتہائی دماغ ہیں جن کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اور شہزادہ سلطان جیسے ڈی آئی جی جو کسی ضلع میں ڈی پی او رکھنے کو تیار نہیں جو صرف عوام کے لئے ہیڈ کوارٹر میں بیٹھ کر کام کرنا چاہتے ہیں لائق ستائش ہیں ۔اس تقریب میں ہمیں اس بات کی خوشی ہوئی کہ جن پولیس افسروں نے اس آئی ٹی کے نظام کو بنایا ان کی حوصلہ افزائی کے لئے وزیر اعظم نے انہیں سوونیئر دیئے۔ یہ افسران تین تھے ہمارا خیال تھا کہ ایک لمبی چوڑی فہرست ہوگی یہ تینو ں ڈی آئی جی حسین حبیب، سید خرم اور شاہد حنیف ہیں۔
توقع ہے کہ پولیس میں جو اصلاحات ہورہی ہیں اس سے عوام اور پولیس کے درمیان شکایات کم ہوجائیں گی اور عوام کو بہت ریلیف ملے گا۔

.
تازہ ترین