• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تو کیا یہ سمجھا جائے کہ یہ سیاسی رہنما یا قومی قیادت نہیں محض حکمران ہیں چاہے محلے، ٹائون، ضلع، صوبائی یا قومی اسمبلی کے ممبر ہوں، کیونکہ سیاسی قائدین اپنے طور اطوار، گفتگو اور کردار سے اپنی نسل کے روشن مثال اور آنے والوں کے لئے مشعل راہ ہوتے ہیں اور حکمران تو وقت کے وہ شہنشاہ اور خودپسند بادشاہ ہوتے ہیں جو دل میں آئے کرتے اور محض یکطرفہ سنتے، فیصلے کرتے اور اس پر پھر رعایا یا ’’کسی کو‘‘ بھی جواب دہ نہیں ہوتے ہیں، شاید ان کو تو پروا بھی نہیں ہوتی کہ عوام ان کو کس قدر چاہتے اور مقدس سمجھتے ہیں اور ان کے فرمودات وبیانات پر ’’یقین‘‘ رکھتے ہیں؟
کہا جاتا ہے کہ کارزار سیاست میں آنے کے لئے کسی بڑے سیاسی گھرانے سے تعلق اور مالدار ہونا ضروری ہے، لیکن اب ایک اور ’’کوالٹی‘‘ کا ہونا ضروری اور لازمی امر ہے کہ ایک تو بدزبانی و گالیوں اور لچرپن میں بے باک ہوں اور والدین، بہن بھائیوں، بچیوں اور اولاد کے بارے میں ’’سب کچھ کہنے اور سننے‘‘ کا حوصلہ بھی رکھتے ہوں۔ کس قدر افسوسناک حقیقت ہے، جی ہاں یہی وطن عزیز کی سیاست کا چال چلن، اور اب کا نہیں بہت پرانا، نیا پاکستان بنانے کی یک رکنی جماعت کے سربراہ کے نوے کی دہائی میں اسی اسمبلی کے فلور پر دو مرتبہ منتخب خاتون وزیراعظم سے متعلق انتہائی گھٹیا اور بدترین الفاظ اب بھی تاریخ کا سیاہ صفحہ ہیں، اسی ایوان میں شراب نوشی، بدچلنی اور بدکردار ہونے کے الزامات کا تذکرہ معمول کی بات ہے اور سب سے تحقیر آمیز وہ رویے اور لمحات ہوتے ہیں جب خواتین کی آزادی، عزت و احترام، حقوق اور تحفظ کے بلند بانگ دعوے کرنے والی حکمران جماعت ن لیگ سمیت پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور دیگر جماعتیں اس کے بالکل برعکس ایوان اور ایوان سے باہر مظاہرہ کرتی ہیں۔ اصل بات تو عوام کے منتخب مقدس ایوان کی ہے جہاں سب حلف اٹھا کر آتے ہیں اندرکی کارروائی چلانے کےمکمل ذمہ دار اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر ہوتے ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ 342ارکان کا یہ ایوان زبان درازی کی حدوں کو چھونے لگتا ہے اور عوام بالخصوص نئی نسل ٹی وی اسکرینوں کے سامنے تماشا دیکھتی رہ جاتی ہے ان کے دل ودماغ پر ان "معزز" ارکان کا کیا احترام باقی رہ جاتا ہو گا؟ سادہ لوح اور محض ووٹ ڈالنے والے عوام جاننا چاہتے ہیں کہ کیا ماضی اور اب بھی منتخب اسپیکرز اور ڈپٹی اسپیکرز اپنی ذمہ داریوں کو بوجوہ پورا کرنے میں ناکام ہیں یا اپنی جماعت کے ہاتھوں مجبور ہو کر غیرجانبدارانہ کردار ادا کرنے کی صلاحیت یا ہمت نہیں رکھتے؟
چند روز پہلے میں خود بھی موجود تھا اسی ایوان میں جہاں جذباتی نوجوان رکن مراد سعید نقطہ اعتراض پر پنجاب میں پشتونوں کے ساتھ مبینہ ناروا سلوک اور وزیر قانون پنجاب کے بیانات کا تذکرہ کرنا چاہتا تھا۔ ڈپٹی اسپیکر کی دو منٹ میں بات مکمل کرنے کی روک ٹوک سے جھنجھلا رہا تھا، ڈپٹی اسپیکر نے ایک مرتبہ مائیک بھی بند کیا، دوبارہ مائیک ملا تو سخت اور پرزور انداز میں مراد سعید نے پنجاب سے کراچی تک پشتونوں پر مسلط کردہ مشکلات اور انہیں شناختی کارڈ کے اجرا نہ ہونے کا رونا رویا تو ڈپٹی اسپیکر نے یہ کہہ کر چپ کرا دیا کہ اس معاملے پر پارلیمانی کمیٹی بن چکی ہے، ن لیگ کے جاوید لطیف کو مائیک ملتاہے تو وہ ایوان میں عدم شریک عمران خان کے حالیہ متنازع بیانات کو لے کر زہر بجھے نشتر چلاتے ہیں حتی کہ غدار بھی کہہ ڈالتے ہیں، تحریک انصاف کے ارکان شور مچاتے لیکن ڈپٹی اسپیکر نے انہیں ڈانٹ ڈپٹ کر چپ رہنے اور جاوید لطیف کو جاری رکھنے کا کہتے ہیں، نفرت بھرے الفاظ کا ذخیرہ ختم ہوا تو ڈپٹی اسپیکر نے پی ٹی آئی کو جواب کا موقع دینے کی بجائے اجلاس ہی ملتوی کر دیا، سوال ہے کہ کیا یہ کوئی پارلیمانی و غیرجانبدار انداز میں ایوان چلانے کا کوئی نیا طریقہ تھا؟ خود ارکان اک دوجے سے پوچھتے پھرتے ہیں کہ بپھرے جذبات کی بھڑاس نکالنے کا موقع ایوان میں ہی فراہم کیوں نہیں کیا گیا؟ کیوں غدار ایسے الفاظ کو ادائیگی سے نہیں روکا گیا یا ادائیگی کےبعد حذف نہیں کیا گیا؟ کیوں کارروائی کو اچانک ملتوی کر دیا گیا؟ جس کا نتیجہ ایوان کی راہداریوں اور پارلیمنٹ کی پرشکوہ بلڈنگ کے باہر ہاتھاپائی، گالم گلوچ اور گھٹیا الزامات کی صورت نکلا، یہی نہیں انتہائی کمتر درجے کے الفاظ کے ساتھ گھروں میں بیٹھی ماں بہنوں کو بے توقیر اور بے عزت کیا گیا؟ سوال تو یہ بھی کہ یہ کیسے لوگ ہیں جن کی عزت اور غیرت کابدلہ اپنے دشمن سے براہ راست اپنی قابلیت سے نبردآزما ہونے کا نہیں بلکہ ان کی باپردہ اور باعصمت خواتین کو گالیوں دے کر اور یا ان سے متعلق نازیبا زبان استعمال کر کے نکلتا ہے؟ مجھے تو سی سی ٹی وی ریکارڈ سے یہ بھی پتہ چلاہےکہ اندر کےجذبات اس وقت گھونسے مکوں اور گالی گلوچ میں بدلے جب جاوید لطیف نے باہر نکلتے ہوئے مراد سعید کو دھمکایا کہ میں تیرے گھر تک پہنچوں گا اور پھر کچھ ہی دیر بعد ان کے ادا کردہ توہین آمیز الفاظ ڈائس پر جاوید لطیف کی زبانی پوری دنیا نے سنے۔ لیکن کیا کیجئے یہاں تو چند روز پہلے اسی ایوان میں ایک سینئر وفاقی وزیر نے ایک محترم خاتون رکن کی فلور آف دی ہائوس میں ایسے الفاظ سے توہین کی، انہیں روکا نہ گیا بلکہ بےہودہ الفاظ کو حذف کرنے میں بھی ایوان میں شور مچنےکا انتظار کیا گیا، کیا یہ ہے کسٹوڈین آف دی ہائوس کا کردار؟ دور مت جائیں کیا ہمارے سامنے سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی کا معزز ایوان بالا چلانے کا کردار سامنے نہیں جہاں اب تک ایسا کرنے کی کسی کو ہمت و توفیق نہیں ہوئی، کیا ہمارے معزز منتخب ارکان کی اقدار اور سوچ کا لیول اس قدر اتھاہ گہرائیوں کا شکار ہو چکا ہےکہ عوام کے لئے رول ماڈل بننے کی بجائے وہ محض اپنی ذات کی تسکین کی خاطر کسی بھی حد سے گزرنا معمولی سمجھتے ہیں۔ کسی نے کبھی یہ بھی سوچا کہ ہم اپنے بچوں اور نئی نسل کو اپنا کیا کردار دکھا رہے ہیں؟ ہماری غیرت کا تقاضا یہ رہ گیا ہے کہ گلی محلوں اور تھڑوں پر بیٹھے ان پڑھ اور کسی بھی ادب آداب سے نابلد نابغہ روزگاروں کے نفس کی عارضی تسکین کاسبب بننے والے مغلظات کا سہارا لیں؟ تبدیلی کا نعرہ لگانے والے لیڈرز کا حال دیکھیں جن کے اپنے جلسوں میں خواتین کو امان نہیں ملتی، ان کے قائد تحقیر آمیز لہجے میں کہتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ خصوصی نشستوں پر خواتین کیسے ایوان میں آتی ہیں۔ الامان الحفیظ۔ دیکھا جائے تو کیا ن لیگ کے ’’معزز‘‘ رکن نے اپنے ہی ایک ساتھی کے اہل خانہ سے متعلق ادا کردہ الفاظ سے پوری قوم کا سر نہیں جھکایا؟ کاش تین مرتبہ منتخب ہونے والے وزیراعظم صاحب اور قائد ایوان اپنا فرض سمجھتے ہوئے اس سنگین معاملے بلکہ سانحہ کا ازخود نوٹس لیتے اور ریکارڈ پر آنے والے ناپسندیدہ الفاظ پر مثالی سزا دیتے کہ آئندہ کسی کو اس قسم کی زبان استعمال کرنے کی جرات نہ ہوتی، لیکن کیا کیجئے کہ یہاں تو شرم ہوتی ہے نہ حیا ہوتی ہے بلکہ صرف سیاست ہوتی ہے۔

.
تازہ ترین