• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاک امریکہ تعلقات کی کہانی سات دہائیوں پر محیط ہے۔ ایک ایسی داستان جو اس سارے عرصے میں بے پناہ پرپیچ راہوںسے گزری ہے۔نشیب و فراز بھی بہت آئے اور سسپنس بھی کچھ کم نہیں رہا۔ ایک ایسی ریلیشن شپ جس کیلئے ہم نے کوئی خاص منصوبہ بندی نہیں کی اور جسے روزمرہ کی بنیاد پر چلایا گیا۔جو ہمیشہ سے غیرمتوازن تھی جس میں امریکہ کا ہمیشہ اپر ہینڈ رہا اور ہم اپنی ثانوی حیثیت پر قانع رہے۔ اس دوران بارگینگ کے مواقع بھی آئے مگر ’’اچھا دوست‘‘ ہونے کے ناتے ہم نے سیرچشمی کا مظاہرہ کیا اور لگی بندھی ’’تنخواہ‘‘ پر گزارہ کرتے رہے۔ خدمت گزاری اور وظیفہ خوری کی یہ علت رفتہ رفتہ ہمارے رگ و پے میں سرایت کرگئی اور خوئے غلامی کا موجب بنی۔
ٹرمپ انتظامیہ نے سات مسلم ممالک کیلئے ویزہ کے ضوابط سخت کئے تو پاکستانیوں پر بھی لرزہ طاری ہوگیا کہ کہیں وہ بھی اس کی زد میں نہ آجائیں۔ اندیشہ ہائے دور دراز آن گھیرتے ہیں کہ ہماری تو تین بلین ڈالرز کی صرف ٹیکسٹائل امریکہ جاتی ہے۔کچھ گڑبڑ ہوگئی تو کیا کریں گے؟ کبھی یہ فکر دامن گیر ہوجاتی ہے کہ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کا تو سارا بھرم ہی بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم پر ہے، پاکستانی امریکیوں کا جس میں بڑا ہاتھ ہے۔ ہماری اشرافیہ الگ سے پریشان ہے کیونکہ امریکہ ان کا دوسرا گھر ٹھہرا۔ ویزا پالیسی سخت ہوگئی تو پاکستان میں تو ان کا دم ہی گھٹ جائے گا۔
یہ سب فکرمندیاں اپنی جگہ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان الحمدللہ20کروڑ اہل ایمان کا وطن اور دنیا کی ساتویں مستند نیوکلیئر پاور ہے۔ پھر اس کی باصلاحیت سپاہ کا سکہ دنیا تسلیم کرتی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جس نے کامیاب جنگ ہی نہیں لڑی، اس عفریت سے نمٹنے کیلئے دنیا کی رہنمائی بھی کی ہے۔وہ ملک جسے قدرت نے انمول جغرافیائی لوکیشن عطا کررکھی ہے اور جو دنیا بھر کو قریب لانے اور زمینی فاصلے سمیٹنے کیلئے CPEC کی شکل میں اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ وہ ریاست جو خطے میں توازن اقتدار کی علامت ہے اور غنیم کی لاکھ سازش کے باوجود افغانستان سمیت خطے میں قیام امن کی ضامن ہے۔ زیادہ دن نہیں گزرے، افغانستان میں بحالی امن کے حوالےسے امریکی سینیٹ آرمڈ سروسز کمیٹی (SASC) کا اجلاس ہوا تھا۔ افغانستان پر فوکس ہونے کے باوجود مذکورہ اجلاس میں پاکستان کا بلاواسطہ تذکرہ 73 مرتبہ ہوا۔ پاکستان کو سفارتی سطح پر انگیج کرنے کی بات ہوئی اور متنبہ کیا گیا کہ اسلام آباد کو دبائو میں لانے کی کوشش سے فائدےکی بجائے الٹا نقصان ہوگا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا ذکر بھی مثبت انداز میں ہوا۔ پھر چند روز پیشتر (9 مارچ) SASC کے ایک اور اجلاس میں یو ایس سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزو ووٹل نے خطے میں دہشت گردی کے قلع قمع اور امن کی بحالی کے حوالے سے پاکستان کی خاص طور پر تحسین کی اور کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان کو تنہا کرنے کی بھارتی سازش پر امریکہ کو تشویش ہے۔ کیونکہ اس سے جنوبی ایشیا میں جوہری جنگ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ پاکستان کو کلیدی شریک کار قرار دیتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کے ساتھ تعاون کی اہمیت پر بھی زور دیا گیا
غرض پاک۔امریکہ تعلقات کو توانائی بخشنے والے عوامل کی کمی نہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ ہمارے حکمران ہمت پکڑیں اور روایتی خوئے غلامی سے نجات کا حوصلہ پیدا کریں۔ انتخاب کے بعد ٹرمپ بھی وائٹ ہائوس میں داخل نہیںہوئے تھے کہ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے امور خارجہ طارق فاطمی نومنتخب صدر کی ٹیم کے ساتھ ملاقات کیلئے واشنگٹن تشریف لے گئے تھے۔ واپسی پر چڑیا نے شوشہ چھوڑا کہ ان کی تو وہاں کسی سے ملاقات ہوئی ہی نہیں۔ اور موصوف نے بھی بوجوہ گومگو والا رویہ اختیار کئے رکھا۔ بعد میں عقدہ کھلا کہ ٹرمپ ٹیم نے پاکستانی وفد کو شرف ملاقات بخشا تھا اور یہ یقین دہانی بھی کرائی تھی کہ پاکستان کے ساتھ معاملات حسب سابق چلتے رہیںگے۔ اور انتظامیہ کسی بڑے منفی اقدام سے گریز کرے گی۔ مگر ساتھ ہی زبان کھولنے سے منع کردیا تھا۔چنانچہ اسلام آباد نے اچھے بچوں کی طرح واشنگٹن میں ہونے والی سرگرمی کے حوالے سے چپ سادھ لی۔شایدفاطمی صاحب یہ سندیسہ چوہدری نثار تک نہ پہنچا پائے تھے۔ اسی لئے تو ویزہ ایگزیکٹو آرڈر کے حوالے سے موصوف کالب و لہجہ ایک موقع پر تلخ ہوگیا تھا، گو بعد میں وہ بھی محتاط ہوگئے۔ البتہ فارن آفس نے ابتدا ہی سے محتاط رویہ اختیار کئے رکھا اور کوشش کی کہ دوطرفہ تعلقات میں بدمزگی نہ ہونے پائے۔پاکستان فی الحال دیکھو اور انتظار کرو کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے جو موجودہ حالات کا شاید تقاضہ بھی ہے۔ مگر یہ دورانیہ زیادہ طویل نہیں ہونا چاہئے۔ پاکستان پابندی زدہ ممالک سے یقیناًمختلف اور منفرد ہے اور قوم اس انفرادیت کو اپنے حق میں استعمال ہوتے ہوئے دیکھنے کی منتظر ہے۔جو ہماری سفارت کاری کیلئے یقیناً ایک بڑا ٹیسٹ کیس ہوگا۔

.
تازہ ترین