• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کسی بھی ملک کی عدلیہ کا اس ملک کے نظام زندگی پر بڑا اہم اثر ہوتا ہے وطن عزیز پاکستان جو ایک اسلامی ملک ہے اسی باعث آئین پاکستان میں اسلام اور نظام اسلام کو خصوصی اہمیت حاصل ہے ہماری عدالتیں بھی اسلامی نظام حیات کی امین ہیں ہم تمام اہل وطن جن کی اکثریت مسلمانوں کی ہے بحیثیت مسلمان اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ اللہ نے اپنے رسول ﷺ کے ذریعے جو احکامات صادر فرمائے ہیں ہم ان کی پاسداری کریں لیکن ہم تقریباً تمام ہی اہل وطن شعائر اسلامی سے با خبر ہونے کے باوجود اپنی زندگی کو اپنی خواہشات اور تمنائوں کے مطابق بسر کر رہے ہیں احکام الٰہی کو پس پشت ڈال رکھا ہے کہ اگر کبھی ان کی ضرورت پڑی تو عمل کرلیں گے بحیثیت انسان ہمیں روز محشر اپنے اچھے برے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔ روز آخرت ہمارا نامہ اعمال ہمارے ہاتھ میں دے دیا جائے گا۔ جس میں رائی برابر کمی کی گئی ہو گی نہ ہی کسی قسم کا اضافہ کیا گیا ہوگا جو کچھ جیسا کچھ ہم اپنی دنیا کی زندگی میںکر آئے ہوں گے وہی ہمارے ہاتھ میں ہوگا وہی ہمارا کھاتہ ہوگا کیا کبھی ہم نے بحیثیت انسان اپنی آخرت کی دائمی زندگی کے بارے میں سوچا ہے اس کی تیاری کی کوشش کی ہے۔
ہم بحیثیت مسلمان بحیثیت پاکستانی کچھ زیادہ ہی جذباتی اور شدت پسند ہوتے جا رہے ہیں دین سے بڑھ کر دین کی تاویلات کرنے لگے ہیں۔ اکثر مذہبی جماعتیں بھی سیاسی جماعتوں کی مانند سیاست میں ملوث ہو کر اپنی مذہبی ذمہ داری کو بھول چکی ہیں ہم کھلم کھلا ایک دوسرے پر خصوصاً اپنے مخالفین پر الزامات اور تہمتوں کی برسات کرنے سے گریز نہیں کرتے اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی بجائے دوسروں کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالنے سے بھی نہیں ڈرتے۔
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کلپ جو تقریباً آٹھ یا نو منٹ کی ہے چلائی گئی جس میں بظاہر تو عوام الناس کو پانامہ لیکس کے حوالے سے خوش خبری سنائی گئی ہے اور عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو عدالت سے پہلے اپنی مرضی کے مطابق بیان کیا گیا ہے عدالت نے کیا فیصلہ کیا ہے وہ تو ابھی صرف عدالت عظمیٰ کے اس موقر بنچ کو ہی پتا ہوگا لیکن قیاس آرائی کرنے والوں کی زبانیں لمبی سے لمبی ہوتی جا رہی ہیں ہر کوئی اپنے ہی طریقے سے فیصلہ اپنے حق میں صادر کر رہاہے اس ویڈیو کلپ میں تو تمام حدیں ہی پار ہوگئی ہیں موصوف مقرر جن کا تعلق تحریک انصاف سے ہے نے چند ٹکے کے مفاد کے لئے بے سوچے سمجھے بڑے اعتماد اور یقین کے ساتھ عدالت عظمیٰ کے دو سابق جسٹس صاحبان پر تہمت لگائی ہے کہ وہ حکمران وقت کے نمائندے کے طور پر بڑی بڑی رقموں کے ساتھ چیف جسٹس آف پاکستان اور موقر ترین بنچ کے دیگر ارکان سے اپنے حق میں انصاف کے لئے نقد مول تول کرنے میں مصروف ہیں۔ الزام عائد کرنے والے نےاپنی تقریر میں بڑے بھونڈے انداز میں بلکہ غلیظ طریقے سے عدالت عظمیٰ کی توہین کی ہے۔ عدالت عظمیٰ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت ہے اس سے اوپر تو صرف حاکم الحاکمین کی ہی عدالت ہے اور تمام جج صاحبان جو عدل و انصاف کے جس مرتبے پر بھی فائز ہیں وہ اللہ کے مقرر کردہ عدل و انصاف کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امین نمائندہ ہیں کیونکہ اسلام کی سپریم کورٹ یا عدالت عظمیٰ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے ان کے نمائندے کی حیثیت سے اپنے تمام فیصلوں اور قول و فعل کی دنیا میں کسی کے سامنے جوابدہ ہوں نہ ہوں لیکن وہ سب بلکہ ہم سب اہل وطن اللہ کے سامنے جوابدہ ہیں۔ ہم اپنے ذاتی مفادات کے لئے کسی پر نہ ظلم کرسکتے ہیں نہ ناانصافی کرسکتے ہیں اور نہ ہی کسی پر جھوٹا الزام لگا سکتے ہیں اور نہ ہی کسی پر کسی قسم کی تہمت لگا سکتے ہیں ہمارے اعمال کا ایک پل کا حساب اللہ تعالیٰ نے تحریر کرنے کا پورا پورا بندوبست کر رکھا ہے جو روز محشر روز آخرت ہمارے ہاتھ میں تھما دیا جائے گا اس نامہ اعمال کے مطابق ہی ہماراخالق و مالک ہمارا فیصلہ صادر فرمائے گا اللہ بڑا ہی مہربان اور انصاف کرنے والا ہے زمین پر موجود انصاف و عدل سے متعلق جتنے بھی افراد ہیں وہ اس لئے محترم و معزز ہیں کہ وہ اس شعبے میں اللہ کے خلیفہ یا نمائندے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انصاف کرنا اللہ کی عظیم ترین صفت ہے وہ ایک ذرہ برابر بھی کسی کی حق تلفی نہیں کرتا نہ اسے پسند کرتا ہے کہ اس کا کوئی بندہ کسی طرح سے یہ ظلم کرے کسی کی حق تلفی کرے حق سچ اور انصاف و عدل کے شعبے سے متعلق ہر ہر شخص اس بات کا ذمہ دار ہے کہ وہ حق سچ کا ساتھ دے چاہے وہ مدعی ہو یا مدعا الیہ اس کے ساتھ ہماری پولیس ہمارے وکلا اور شہادت دینے والے افراد سب کے سب کو اللہ کے سامنے حاضری کے وقت جوابدہ ہونا ہی ہے اگر کسی شہادت دینے والے نے غلط شہادت دی ہوگی یا پولیس نے کسی بے قصور معصوم پر ظلم زیادتی کرتے ہوئے غلط مقدمات بنا کر سزا دلائی ہوگی یا کسی بھی جج نے اپنے کسی بھی قسم کے دنیاوی مفادات یا کسی سیاسی دبائو کی وجہ سے حق سچ سے انحراف کیا ہوگا وہ سب ظلم کے زمرے میں آئیں گے اور روز محشر انہیں اس کی جوابدہی کرنا ہوگی عدلیہ سے متعلق تمام ہی افراد چاہے وہ پولیس یا تفتیش کار ہوں ملزم ہوں یا شہادت دینے والے ہوں شکایت کرنے والے ہوں یا انصاف کرنے والے ہوں وہ سب جو نظام عدل و انصاف سے منسلک افراد ہیں ان پر اللہ تعالیٰ نے بڑی ذمہ داری عائد فرمائی ہے ان کے ایک طرف جہنم کے گڑھوں کی آگ دہک رہی ہے تو دوسری طرف جنت کے باغات ہیں جن میں دودھ، شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں عدل و انصاف پر چلنا دراصل تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی عدلیہ کے وقار و عزت کو ملحوظ رکھیں اور اپنی زبانوں کو قابو میں رکھیں،اپنے وطن اور اس کے نیک نام اداروں کی عزت کا تحفظ ہر شہری کی ذمہ داری ہے اللہ ہمیں حق سچ کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

.
تازہ ترین