• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت پیر کو اسلام آباد میں قومی سلامتی کے امور پر سیاسی و عسکری قیادت کے اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کو یقینی بنانے، اس مقصد کے لئے وفاق اور صوبوں میں رابطے موثر بنانے آپریشن ردالفساد تیز کرنے اور پاک افغان سرحد کی سیکورٹی بڑھانے کے لئے مزید اقدامات کرنے کے فیصلوں کو ملک میں دہشت گردی کے مکمل خاتمے کی جانب نہایت اہم پیش رفت قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ اب تک ہونے والی تمام تر کوششوں کے باوجود عسکریت پسند سیکورٹی اداروں سے آنکھ بچا کر کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی واردات کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے سیکورٹی نظام کو ابھی مزید مضبوط اور اس میں موجود کمزوریوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اجلاس میں اس پختہ اور متفقہ عزم کا اظہار کیا گیا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ اور امن دشمنوں کو کامیاب نہ ہونے دینا پاکستان کی سیکورٹی کا کلیدی نکتہ ہے اجلاس کی اہمیت کا اس بات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، وزیر داخلہ چوہدری نثار علی، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وزیراعظم کے قومی سلامتی کے مشیر اور ڈی جی آئی ایس آئی سمیت دیگر اعلیٰ سول و فوجی حکام شریک تھے۔ اجلاس میں آپریشن ردالفساد کے حوالے سے اب تک ہونے والی پیش رفت اور کامیابیوں، انسداد دہشت گردی سے متعلق قوانین اور انہیں مزید موثر بنانے کا جائزہ لیا گیا۔ وزیراعظم نے فوج اور ایجنسیوں کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا اور نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی رفتار تیز کرنے کی ہدایت کی، ملک سے دہشت گردی اور فرقہ وارانہ انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے تمام سیاسی پارٹیوں نے نیشنل ایکشن پلان کی متفقہ منظوری دی تھی اور توقع تھی کہ اس پر عملدرآمد سے ملک دشمن عناصر کی سرگرمیاں ختم ہو جائیں گی لیکن ایسا نہ ہو سکا کیونکہ اس پلان کے بیس نکات میں سے کچھ پر سرے سے کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ بعض پر عمل کی رفتار غیر معمولی طور پر سست رہی اس میں زیادہ قصور وار سول اداروں کو ٹھہرایا گیا کیونکہ فوج نے تو اپنے حصے کا کام پوری تندہی سے سے انجام دیا مثلاً انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کو کسی نہ کسی طور پر اب بھی دہشت گردی اور مذہبی منافرت پھیلانے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ مدارس کی رجسٹریشن میں حائل رکاوٹیں دور نہیں کی جا سکیں نہ انہیں باقاعدہ بنانے کے عمل پر مناسب کام ہوا، افغان مہاجرین کے بارے میں پالیسی اب بھی ابہام کا شکار ہے، کریمنل جسٹس سسٹم میں اصلاحات لائی گئیں نہ اس کی تشکیل نو کی گئی فاٹا ریفارمز پر عملدرآمد کی رفتار بھی سست ہے۔ البتہ اچھی بات یہ ہے کہ قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے 89فیصد لوگ واپس اپنے گھروں کو چلے گئے ہیں اس بات کی تصدیق خیبر پختونخوا ایپکس کمیٹی نے بھی پیر کو اپنے اجلاس میں کی ہے۔ اس اجلاس میں آرمی چیف نے خصوصی طور پر شرکت کی اجلاس میں افغان مہاجرین کی موجودگی اور بارڈر مینجمنٹ کے علاوہ فاٹا کو قومی دھارےمیں لانے کے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔ ملک کی سیکورٹی اور امن و امان کا تحفظ یقیناً ہر حکومت کی اوّلین ترجیح ہونی چاہئے لیکن اس کے لئے صرف فوج اور دوسرے سیکورٹی اداروں کو حرکت میں لانا کافی نہیں معاشی اور معاشرتی حالات کو سازگار بنانا بھی ضروری ہے تا کہ کسی کو تخریب کاری کے لئے گمراہ نہ کیا جا سکے اور حالات اس وقت سازگار ہوں گے جب ملک میں فلاحی معاشرے کی تشکیل کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں غربت ختم کی جائے تعلیم عام ہو، لوگوں کو علاج معالجے اور روزگار سمیت زندگی کی بنیادی سہولتیں حاصل ہوں کرپشن اور استحصال کا خاتمہ ہو، نسلی اور مذہبی امتیازات مٹائے جائیں اور ہر شخص کو سستا انصاف ملے جس ملک کی ایک تہائی آبادی خطہ افلاس سے نیچے کی زندگی گزار رہی ہو وہاں اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو اپنے عزائم کی تکمیل کے لئے ایجنٹ مل ہی جاتے ہیں۔ ہماری سیاسی قیادت کو چاہئے کہ معاملے کی ان پہلوئوں پر بھی خصوصی توجہ دے اور انہیں سیکورٹی پالیسی کا حصہ بنائے۔

.
تازہ ترین